تحریر: سید انور محمود ٹوئٹر سوشل میڈیا کا ایک اچھا فورم ہے کیونکہ عام آدمی ، مختلف شعبے کی مشہور شخصیات اور سیاسی رہنما اس کے ذریعے براہِ راست عام لوگوں اور میڈیا کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔وزیراعظم نواز شریف کی صابزادی مریم نواز جو موروثی سیاست کے تحت مسلم لیگ (ن) نمائندہ ہیں اوراب سے کچھ دن پہلے تک 100 ارب روپے کے پروجیکٹ وزیراعظم یوتھ پروگرام کی چیئرپرسن تھیں ، وہ اپنے ٹوئٹرکے اکاونٹ کےزریعے پارٹی پالیسی کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ مریم نواز کے اس وقت دو لاکھ سے زیادہ فالوورز ہیں۔ بی بی سی کے مطابق کئی لوگ سوال کرتے ہیں کہ سیاست دان کیا اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ خود ہی چلاتے ہیں یا نہیں۔اس کا جواب جب مریم نواز سے ٹوئٹر پر پوچھا گیا تو جواب “نہیں” آیا۔ اسکا مطلب ہے کہ مریم نواز کے ٹوئٹر پیغامات میں ایک پی آر ٹیم کا عمل دخل ہے، لیکن یہ بات لازمی ہے کہ اُنکے ٹوئٹر پیغامات اُنکی مرضی سے ہی عام لوگوں تک پہنچتے ہیں۔ مریم نواز اپنی ٹویٹ کے زریعے مشہور سیاستدانوں سے بھی مخاطب ہوتی ہیں اور اپنی حامی اور مخالف سیاسی جماعتوں سے بھی اکثر مخاطب رہتی ہیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں سے وہ اپنی بات پوری کرتی ہیں لیکن نون لیگ کی سینیئر قیادت سے مختلف نظر آتی ہیں۔ اپنے مخالفوں اور مخالف جماعتوں کے لیے وہ اکثر طنزیہ پیغامات بھی ارسال کرتی ہیں۔
ماہ رمضان میں مریم نواز نے ایک ٹویٹ کیا تھا جس میں انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ وہ تحریک انصاف کو ہدایت دے۔ اصل میں اس دعا کا مفہوم یہ تھا کہ تحریک انصاف گزشتہ عام انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے الزامات سے دستبردار ہوجائے اور عمران خان اس آزادی مارچ کو منسوخ کردیں، لیکن ایسا ہوا نہیں اور اب تو اس آزادی مارچ سے جس دھرنے نے جنم لیا تھا اُسکی عمر بھی تین ماہ سے زیادہ ہوگی ہے اورگذشتہ تین ماہ سے زیادہ سے نہ صرف مسلم لیگ (ن) کے حکومتی ارکان بلکہ اُنکے اتحادیوں کی بھی نیندیں حرام ہوگی ہیں۔ عام طور پریہ خیال کیا جاتا ہے کہ ماہ رمضان میں کی جانے والی دعائیں اللہ تعالیٰ ضرور قبول کرتا ہے۔ اگرچہ مریم نواز نے دعاکرتے وقت یہ چاہا تھا کہ اللہ تعالیٰ مریم نواز کی دعا قبول کرلے لیکن ایسا ہوا نہیں۔
Nawaz Sharif
آج جس سیاسی پارٹی کے نواز شریف مالک بنے بیٹھے ہیں شاید اُسکا وجود ہی نہ ہوتا اگر جاوید ہاشمی نواز شریف کی جلاوطنی کے وقت پارٹی کی دیکھ بھال نہ کرتے۔ نواز شریف سے اختلاف کی وجہ سے جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی لیکن جب عمران خان سےاختلاف کی وجہ سے جاوید ہاشمی کو تحریک انصاف کو بھی چھوڑنا پڑا اور جب عمران خان نے اُن سے اپنے تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا تو مریم نوازنےاپنے ایک ٹویٹر پیغام کے زریعے جاوید ہاشمی سے پوچھا کہ ” ہاشمی صاحب۔۔۔ میاں صاحب تو یاد آتے ہونگے؟”۔ اب مریم نواز کو کسی نے لازمی بتایا توہوگا کہ ” ہاشمی صاحب کو اگر کوئی یاد آتا ہے تو وہ صرف آپکے والد صاحب ہی ہیں کیونکہ ہاشمی صاحب کے ساتھ آج جو کچھ ہورہا ہے وہ سب آپکے والد صاحب کی مہربانی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف سے علیدہ ہو جانے والے جاوید ہاشمی کا سب سے بڑا قصور یہ ہےکہ وہ پارٹی لیڈر شپ کی غلامی کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔
یکم اکتوبر کووزیراعظم نوازشریف وزیرآباد کے سیلاب متاثرین میں امدادی سامان کی تقسیم کے لیے پہنچے، اُن کی واپسی کےبعد بعض متاثرین کی جانب سے ” گو نوازگو” کے نعرے لگائے جس کے رد عمل میں(ن)لیگ کے رکن اسمبلی توفیق بٹ نے متاثرین پر تشدد کیا اور الزام عائد کیا کہ نعرے لگانے والے تحریک انصاف کے کارکن تھے۔ اُسی دن ٹوئٹر پر دیئے گئے پیغام میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ” گو نواز گو” کے نعروں کا ٹریلر وزیرآباد میں دیکھ لیا ہے اس لیے شیروں کے ساتھ جھگڑا نہ مول لیا جائے اور ہماری تحمل و مہذبانہ پالیسی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ وزیراعظم کی صاحبزادی کا کہنا تھا کہ (ن)لیگ کے کارکن اب تحریک انصاف کی تخریبی کارروائیوں سے تنگ آگئے ہیں اس لیے اگر جیسے کو تیسا رد عمل ہوا تو تحریک انصاف والوں کو چھپنے کی بھی جگہ نہیں ملے گی، یہ ٹویٹ نواز شریف کے مخالفین کےلیے ایک وارنگ تھی۔جبکہ عمران خان کا مریم نواز کے ٹویٹ پر ردعمل یہ تھا کہ مریم نواز کہتی ہے ہم ان کو ماریں گے جو” گو نواز گو” کہے گا ، مریم یہ بادشاہت نہیں ہے۔ جو ایسا کرے گا میں اسے جیل پہنچا کر رہوں گا۔
Imran Khan
اکتوبر کے آخری ہفتے میں جب مریم نواز وزیراعظم یوتھ پروگرام کی چیئرپرسن تھیں اُنکا ایک اور ٹویٹ سامنے آیا جس میں وہ عمران خان کے استعفی منظور کرنے کے مطالبے اور عوام سے تحریک انصاف کے لیے چندہ کی اپیل پر طنزکرتے ہوئے کہتی ہیں کہ “استعفیٰ دو تحریک اب استعفیٰ لو اور چندہ دو تحریک میں بدل گئی ہے، یہ سب مکافات عمل ہے۔انھوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے دھرنا جاری رکھنے کےلیے عوام سے چندہ کی اپیل پر ردعمل ظاہرکرتے ہوئے کہاکہ قسمت کاکھیل دیکھیں وزیر اعظم نوازشریف سے استعفیٰ مانگنے والے اب اپنے استعفے منظور کروانے کاکہہ رہے ہیں۔ اگست 2014ء میں ان کامطالبہ تھاکہ نوازشریف استعفیٰ دواوراب اکتوبر2014ء میں وہ کہہ رہے ہیں خداراہمارے استعفے منظورکرو”۔
جہاں تک عمران خان کے چندہ مانگنے کی بات ہے تو مریم نواز صاحبہ آپکو یہ تو معلوم ہوگا کہ دنیا بھر میں سیاسی پارٹیاں عوام کے چندئے سے ہی چلتی ہیں، چاہے وہ بھارت کی سیاسی پارٹیاں ہوں، یا یورپ اور امریکہ کی سیاسی پارٹیاں ہوں یہ سب عوام سے چندہ مانگتے ہیں۔ ہاں اس چندئے کے ایک ایک پیسے کا حساب دینا لازمی ہوتا ہے۔لیکن چونکہ پاکستان میں سیاست ایک کاروبار ہے اور یہاں سیاست دان پیسہ لگاکر پیسہ بناتے ہیں اسلئے عوام سے چندہ نہیں مانگا جاتا، اور یہ بات مریم نواز آپ اور آپکے والد صاحب سے بہتر کون جانتا ہے، کبھی وقت ملے تو مریم نواز آپ اپنے اثاثوں کی ضیاءالحق کے زمانے سے ابتک کی بلینس شیٹ دیکھ لیں، آپکو فورا سمجھ میں آجائے گا کہ آپکی پارٹی کو چندئے کی ضرورت کیوں نہیں پڑتی۔ مریم نواز صاحبہ شاید ابتک آپ کو معلوم ہوچکا ہوگا کہ تحریک انصاف کے ممبران قومی اسمبلی شاہ محمود قریشی کی قیادت میں اسپیکر قومی اسمبلی کے بلانے پراُنکے آفس گے تھے لیکن دونوں طرف یہ کوشش تھی کہ استعفی منظور نہ ہوں، بقول آپکی پارٹی کے ایک رہنما سعدرفیق کہ ہم استعفی منظور کرنا نہیں چاہتے اور تحریک انصاف والے بھی یہ ہی چاہتے ہیں کہ استعفی قبول نہ ہوں۔
مریم نواز صاحبہ قدرت کا کھیل دیکھیے کہ اور یقین کریں کہ یہ بھی مکافات عمل ہے کہ عمران خان اور اُنکی پارٹی کے وہ تمام ممبران ابھی تک قومی اسمبلی کے ممبر ہیں جو اپنے استعفے اسپیکر کو دئے چکے ہیں جبکہ آپکو وزیراعظم یوتھ پروگرام کی چیئرپرسن کی حیثیت سے استعفی دینا پڑا۔ اسلیے کہ عدالت میں ایک جج صاحب تو آپکے مقابلے میں اپنے باورچی کو لےآئےاور یہ پوچھا کہ “کیا کوئی شخص اپنے باورچی کو ایسے عہدے پربٹھا سکتا ہے؟”۔ عدالتی ریمارکس کے بعد آپکے پاس یہ چوائس تھی کہ آپ عدالتی فیصلے کے بعد فیصلے کے خلاف درخواست دیتی اور جبتک اس درخواست کا فیصلہ نہیں ہوتا آپ چیئرپرسن کی حیثیت اس پوسٹ پر قابض رہتیں، لیکن اسوقت جب آپکے والد وزیر اعظم نواز شریف کی کرسی کے لالے پڑئے ہوئے ہیں آپکے استعفی کا فیصلہ ایک صیح قدم ہے۔مریم نواز صاحبہ آخر میں آپسے ایک درخواست ہے کہ ایک ٹویٹ اپنے والد وزیراعظم نواز شریف کو عام پاکستانی کی طرف سے کردیں جس میں آپ اُنکو لکھیں کہ “آپنے جو ایک سو ارب روپے کی خطیر رقم مستحق افراد کو قرضے فراہم کرنے کے لئے اپنی بیٹی مریم نواز کی صوابدید پر رکھ کر پوری مہذب دنیا میں پاکستان کا مذاق اڑایا ہے اس پر پورا پاکستان نادم ہے۔ آپ نہ تو اس ملک کے بادشاہ ہیں اور نہ ہی مریم نواز ایک شہزادی۔ ویسے تو آپ کی سیاسی جماعت کا نام مسلم لیگ ہے لیکن کیا کبھی آپکو علامہ اقبال اور قائداعظم کے اعمال اور اقوال کا بھی خیال آتا ہے، اللہ تعالیٰ آپکو کو نیک ہدایت دے۔