تحریر: ملک جمشید اعظم عدالتیں کسی بھی معاشرے کوایک مہذب معاشرہ بنانے میں مدد فراہم کرتی ہیں اور یہ مدد ہمیشہ عدل و انصاف سے ہی ممکن بنائی جا سکتی ہے، لیکن پاکستان کی عدالتوں میں جس طرح “انصاف” جیسے لفظ کا مذاق اُڑایا جاتا ہے اس پر ہر محب وطن شہری خون کے آنسو بہانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
بلاشبہ پاکستان ایک ایسا ملک بن چکا ہے جہاں جو طاقتور ہو گا اور جس کے سیاسی سائیں تگڑے ہوں گے وہ جس طرف چاہے قانون کا رُخ بدل سکتا ہے اور انہی وجوہات کی بناپر یہ ملک آج تباہی کہ دھانوں پر پہنچ چُکا ہے۔پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اسلامی معاشرے میں عدل و انصاف اور مساوات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔
عدل و مساوات کا جو پیمانہ اسلام نے دیا ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قول وفعل سے مساوات کی بہترین مثالیں قائم فرمائیں۔ اسلام میں امیر و غریب، شاہ و گدا، اعلیٰ وادنیٰ، آقا و غلام اور حاکم و محکوم میں کوئی فرق نہیں رکھا جاتا بلکہ اسلام تمام انسانوں کو برابر حقوق دینے کی تعلیم دیتا ہے۔اسلام میں عدل و انصاف، انسانی زندگی کے انفرادی و اجتماعی تمام پہلوئوں پر مشتمل ہے۔ جس کی چند اقسام مندرجہ ذیل ہیں۔
معاشرتی عدل وانصاف، قانونی عدل وانصاف، سیاسی عدل وانصاف، معاشی عدل وانصاف، مذہبی عدل و انصاف اور معاشرتی عدل و انصاف۔ اگر عدل و انصاف کی ان سب اقسام پر باری باری بحث کی جائے توبے پناہ کالم لکھنے پڑیں گے اسلئے آج کے کالم کے موضوع کی مناسبت سے مَیں یہاں صرف چند اقسام کو مختصر اََ زیر بحث لائوں گا۔ اسلام میں عدل و انصاف کی ایک قسم قانونی عدل و انصاف ہے جس سے مرادیہ ہے کہ جب کوئی مظلوم کسی حاکم، قاضی یاجج کے سامنے کوئی فریاد لے کر جائے تو بغیر سفارش کے اور بغیر رشوت کے اُسے انصاف مل سکے۔ کسی شخص کی غربت یامعاشرے میںاس کی کمزورحیثیت حصول انصاف کیلئے اس کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے اورنہ یہ ہوکہ کوئی شخص اپنے منصب یادولت کی وجہ سے انصاف پر اثر انداز ہو سکے۔ اسلام میںقاضی کویہ مقام اور حق حاصل ہے کہ وہ حاکم وقت کو بھی بلوا کر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر سکتا ہے۔ عدل و انصاف کی ایک اور قسم سیاسی عدل وانصاف ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ امورِ مملکت میں توازن و اعتدال قائم کیا جائے۔
Pakistan
معاشرے کے مختلف عناصر، طبقات، قبائل اور گروہوں کے ساتھ انصاف کرنا، ان کے حقوق ادا کرنا، انہیں فرائض کی ادائیگی کیلئے تیار کرنا، اور ایسی فضا قائم کرنا جس میں ہر شخص یہ محسوس کرے کہ واقعی انصاف کیا جا رہا ہے، سیاسی عدل و انصاف کہلاتا ہے۔ اگر پاکستان میں دیکھا جائے تو ان شرائط کا کہیں دور دور تک نام و نشان نظر نہیں آتا ہے جس کی واضح مثال انسدادِ دہشگردی کی عدالت میں کیا گیا حالیہ فیصلہ ہے جس میں عدالت نے پارلیمنٹ اور پی ٹی وی حملہ کیس میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دئیے ہیں۔میرے قارئین یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ میرے کالمز کا زیادہ تر موضوع پاکستان کے غریب اور مظلوم لوگ ہوتے ہیں اور میرا یہ کالم پڑھنے کہ بعدوہ مجھ سے یہ سوال لازماََ کریں گے کہ جناب کیا عمران خان پاکستان کا غریب یا مظلوم انسان ہے، ان کی غلط فہمی دور کرنے کیلئے میں یہ بتادوں کہ عمران خان واقعی غریب نہیں ہے لیکن آج وہ مجھے پاکستان کا مظلوم ترین شخص لگ رہاہے۔ایک شخص جس کہ پاس عزت، دولت اور شہرت تینوں چیزیں موجود ہوں اور میرے خیال میں وہ سیاست میں صرف اسلئے آیا ہو کہ اس کی کاوشوں سے پاکستانی قوم کا شمار دنیا کی عظیم قوموں میں کیا جائے اور ایسا شخص صرف انصاف کیلئے اسلام آباد کی سڑکوں پر دھکے کھا رہا ہو اور کہہ رہا ہو کہ ہے کوئی ایسی عدالت جو مجھے انصاف دلائے، ہے کوئی انسانوں کو حقوق دلوانے کی دعوے دار ایسی تنظیم جو مجھے انصاف دلوائے لیکن اسے انصاف دینے کی بجائے الٹا جیل میں ڈالنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہو ایسا شخص مظلوم نہیں تو اور کیا ہو سکتا ہے۔
پاکستانی عدالتوں کا یہ کیسا انصاف ہے کہ ماڈل ٹائون میں 100 لوگوں کو گولیاں لگیں، 17 لوگ شہید ہوئے تب کسی کا وارنٹ گرفتاری نہیں نکلا، اسلام آباد دھرنے میں 4 افراد کو شہید اور 500 سے زائد لوگوں کو زخمی کیا گیا تب کسی کاوارنٹ گرفتاری جاری نہیں ہوا اور پی ٹی وی جہاں کسی کو ذرا برابر چوٹ تک نہیں لگی اورنہ ہی کسی انسانی جان کا ضیاع ہوا اس پرحملے کے وارنٹ گرفتاری نکال دئیے گئے یعنی اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ پاکستان میں انسانی جانوں سے زیادہ اینٹوں کی عمارتوں کی قدر ہے۔انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے ایسے فیصلوں پر، ایسے انصاف پر، میرے خیال میں اگر کوئی بھی انسان پاکستان سے پیار کرتا ہو تو اسے کم ازکم عمران خان سے ایسا نہیں کرنا چاہئے کیونکہ عمران خان سے ہمیشہ پاکستان کو فائدہ ہی ہوا ہے۔ سیاست میں بھی ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان ایک ایسالیڈر پاکستانی قوم کو ملاہے جو پاکستان کے نوجوانوں کو ایجوکیٹ کر رہا ہے ،اس کے علاوہ عمران خان کی وجہ سے ایسے لوگ ووٹ ڈالنے کیلئے باہر نکل رہے ہیں جو کبھی ووٹ ڈالنے نہیں جاتے تھے ویسے بھی عمران خان جیسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان کی تباہی کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ یہاں پر لوگوں کوڈرا دھمکا کر حکومت کی جاتی ہے اور جومنہ کھولے اس کامنہ پیسے سے یاڈنڈے سے بند کرا دیا جاتا ہے۔
پچھلے دنوں میری عمران خان سے کنٹینر میں ملاقات ہوئی تھی جہاں عمران خان نے مجھ سے کہا کہ آپ نوجوان ہیں اسلئے میں چاہتا ہوں کہ تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے آپ پاکستانی نوجوانوں کو کوئی میسج دیں جس پر میں نے انکار کر دیا کیونکہ مجھے عمران خان کی شخصیت پرکوئی اعتراض نہیںہے لیکن مجھے عمران خان کی ٹیم پربہت سے اعتراضات ہیں، ویسے بھی میں ہمیشہ غیرجانبداریت کو پسند کرتا ہوں اور یہ چاہتا ہوں کہ صرف تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت جو اقتدار میں آئے وہ ملک میں عدل و انصاف کا نظام قائم کرے۔میری پاکستان کی کسی بھی سیاسی پارٹی سے کوئی ذاتی لڑائی نہیں ہے اور میری ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ جوبھی سیاسی پارٹی ملک کیلئے بہتر ہو اسے سپورٹ کروں اوہر سیاسی پارٹی میں موجود خرابیوں کی نشاندہی کروں تاکہ وہ مزید بہتر انداز سے ملک کو چلا سکے۔ وزیراعظم کے پاس اب بھی وقت ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر ملک میں عدل وانصاف کا نظام قائم کرنے کی بھرپور کو ششیں کریں اور سیاسی انتقامی کاروائیوں کی بجائے ناراض سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھ کر مسائل کا کوئی جامع حل تلاش کریں۔اسکے علاوہ اگرن لیگ والے چاہتے ہیں کہ ان کی پارٹی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اقتدار میں رہے تو پھر اُنہیں ملک میں ایسے ترقیاتی کام کرنے ہوں گے جن سے لوگ مطمئن ہوں جب لوگ خوشحال اور مطمئن ہوں گے تو عمران خان کا دھرنا خودبخود ناکام ہو جائے گا اور مسلم لیگ ن کی حکومت پانچ سال پورے کرنے کے ساتھ ساتھ دوبارہ اقتدار میں بھی آ سکے گی۔