ایران جوہری معاہدہ: ’تعطل کے خاتمے کے لیے نئی تجاویز پر غور‘

John Kerry

John Kerry

امریکہ (جیوڈیسک) کہا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر بات چیت میں فریقین کے درمیان بڑی خلیج موجود ہے رہی ہے تاہم پیر کو معاہدے کے لیے حتمی مہلت کے اختتام سے قبل اسے پاٹنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اطلاعات کے مطابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ان کے ایرانی ہم منصب جاوید ظریف تعطل ختم کرنے کے لیے ’نئی تجاویز‘ پر غور کر رہے ہیں جس سے وہ اپنی اپنی حکومتوں کو آگاہ کریں گے۔

واضح رہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے آسٹریا کے شہر ویانا میں بات چیت جاری ہے جس میں ایران کے علاوہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین، جرمنی اور یورپی یونین شریک ہیں۔ اس بات چیت کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کے متعلق عارضی معاہدے کو مستقل شکل دینا ہے۔

جان کیری نے اس بات چيت کی وجہ سے اپنا پیرس کا دورہ بھی منسوخ کر دیا ہے۔ اس سے قبل ایران کے وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر ہونے والی بات چیت میں انھیں کوئی ’نئی چیز‘ سننے کو نہیں ملی۔

گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران جان کیری سے تین بار ملاقات کے بعد بھی انھیں تہران لے جانے کے لیے کوئی ’اہم تجویز‘ نہیں ملی ہے۔ گفتگو میں شامل ممالک ایران سے اس بات کا مظاہرہ چاہتے ہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ وہ جوہری اسلحہ نہیں بنا رہا ہے جبکہ ایران کہتا رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر توانائی سے متعلق ہے۔

دوسری جانب جوہری پروگرامز پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی ادارے آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ ایران اپنی مشتبہ فوجی سرگرمیوں کے بارے میں خدشات دو کرے جو کہ اس کے جوہری پروگرام سے منسلک ہو سکتی ہیں۔ ایران نے آئی اے ای اے سے کہا تھا کہ وہ اگست تک اس بارے میں تفصیلات فراہم کرے گا تاہم اس نے ایسا نہیں کیا یہاں تک کہ معائنیہ کاروں کو ایک اہم فوجی اڈے پارچن میں جانے کی اجازت بھی نہیں دی۔

ایک سینیئر ایرانی اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ معاہدہ کی آخری تاریخ تک انھیں امید ہے کہ وہ سب معاہدے کا ایک خاکہ تیار کر لیں گے اور اس کے بعد سات سے 10 دنوں کے درمیان ان پر عمل درآمد کے متعلق غوروخوض کریں گے۔

جان کیری نے اختلافات کم کرنے کے لیے ’نئی تجاویز‘ پیش کی ہیں تاہم جاوید ظریف نے جان کیری اور یورپی یونین کی ایلچی کیتھرن ایشٹن سے ایک دور کی بات چیت کے بعد اخباری نمائندوں کو بتایا: ’بات چیت کے دوران بہت بحث م مباحثے ہوئے لیکن ان میں تہران لے جانے کے لیے کوئی نیا خیال یا اہم تجاویز نہیں تھیں۔‘