تحریر: علی عمران شاہین اکتوبر 2013ء میں ملالہ یوزسف زئی کی کتاب ”میں ہوں ملالہ ” “I am Malala”منظرعام پر آئی۔ ک تاب کا منظرعام پر آنا تھا کہ پاکستان کے وہ تمام لوگ جو ملالہ کو سر پر اٹھائے پھرتے تھے’ یکدم بلوں میں گھس کر منہ چھپانے لگے۔ ملالہ کی یہ کتاب جسے بدنام زمانہ برطانوی خاتون صحافی کرسٹینالیمب نے مرتب کیا ‘اس میں پاکستانی و پختون معاشرے اور رسوم و رواج سے لے کر اسلام کی اکثرو بیشتر تعلیمات پرخوب خوب تیر برسائے گئے جس سے ملالہ کی ساری سازش کھل کر منظر عام پر آگئی۔
اس کتاب کو مرتب کرنے کے لیے کرسٹینا لیمب کا انتخاب کیوں کیا گیا؟جھوٹی خبریں چھاپنے اور بدنام زمانہ برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز سے وابستہ یہ خاتون صحافی پاکستان دشمنی میں عالمی شہرت رکھتی ہے۔ یہ وہی خاتون ہے جسے پاکستانی سکیورٹی اداروں نے ” OB Ladan” جعلی ٹکٹ سکینڈل کی بناء پر پاکستان سے ڈی پورٹ کیا تھا۔ پاکستان کے 50 ہزار نجی سکولوں کی تنظیم کے سربراہ مرزا کاشف علی جو ملک بھر میں آئی ایم ناٹ ملالہ مہم بھی چلا رہے ہیں اور جن کی کاوش سے اس کتاب پر تمام نجی تعلیمی اداروں میں اس کتاب پر پابندی عائد ہے، 22 اکتوبر 2014ء کو ایک قومی روزنامہ میں ”تصویرکا دوسرارخ” کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ: ”آئی ایم ملالہ” میں کرسٹینا لیمبنے لکھا ہے۔
ملالہ کی گلوبل مہم سابق وزیراعظم برطانیہ گورڈن براؤن چلاتا ہے۔ ملالہ کی انٹرنیشنل برانڈنگ عالمی نمبر ون پبلک ریلیشن فرم Adelmen کرتی ہے۔ اقوام متحدہ اوراقوام عالم کے سربراہان بان کی مون’باراک اوبامہ’ ہیلری کلنٹن’ انجلینا جولی’میڈونا ٹوٹو سمیت دیگرسبھی ملالہ کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔ سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کے ساتھ مضبوط تعلق اورایک ہندوستانی کے ساتھ مشترکہ نوبل ایوارڈ حاصل کرنے والی ملالہ کی شخصیت مغربی ایجنڈے کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملالہ کوپاکستان کے اندر سب برا دکھائی دیتاہے اوریہی وجہ ہے کہ پڑھے لکھے پاکستانیوں کو بھی ملالہ کے اندر سب سے برا دکھائی دیتا ہے۔
ملالہ کے کھاتے میں جو کچھ ڈالا جا رہا ہے’ اس کو شعور اور عقل تسلیم نہیں کرتی۔ایسا امریکہ اور مغرب محض اپنے اگلے Larger Plan کی تکمیل اور Drone Attack کے ذریعے ہونے والی اپنی سفاکیوں اور سربریت سے پردہ پوشی کرنے اور شہید ہونے والے معصوم بچوں اور شہریوں سے توجہ ہٹانے کے لیے کر رہا ہے۔ ملالہ کو پڑھ کر یہ بات سمجھ آنے لگتی ہے کہ امریکہ و یورپ جنہوں نے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عراق’افغانستان اور پاکستان میں لاکھوں مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے جس میں ہزاروں ملالائیں شامل تھیں’وہ سوات کی اس ملالہ پر کیوں اتنے مہربان ہوگئے اور اس بچی کو کس مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
امریکہ اور مغرب نے اس طرح اپنا ایک ایسا ایجنٹ تیار کرلیاہے جس کے ذریعے اسلام اورپاکستان کو لڑکیوں کی تعلیم وحقوق کے نام پر بدنام کرسکے اور بوقت ضرورت اسے سابق وزیراعظم معین قریشی یاشوکت عزیز کی طرح پاکستان اوراس کی بے بس عوام پر مسلط کر سکے۔(یادرہے کہ ملالہ 2009 سے اب تک کئی بار وزیراعظم پاکستان بننے کی خواہش کابھی اظہارکر چکی ہے)ڈارلنگ آف دی ویسٹ کے طور پر پہلے تو مغرب نے سلمان رشدی’تسلیمہ نسرین اور مختاراں مائی کو آنکھ کا تارا بنایا اور اب ملالہ ان کی ڈارلنگ ہے۔
ملالہ اپنی کتاب میں اللہ تعالیٰ’ قرآنی آیات اور رسول پاکۖکی شان میں گستاخی کرنے پر شرمندہ نہیں ہے۔ اسلام’نظریہ پاکستان’آئین پاکستان’ قائداعظم’ پاک آرمی اور مذہبی مدارس کے خلاف بھر پور زہر اگلتی ہے۔ ایک طرف ملالہ سانحہ واقعہ کربلا کے متعلق اہل بیت کے بارے مسلمانوں کے محبت بھرے جذبات کا تمسخر اڑاتے ہوئے انہیں جہالت اور انہیں Franzyقرار دیتے ہوئے فرقہ واریت کوفروغ دیتی ہے تو دوسری طرف پنجابی’ پختون’ سرائیکی’ سندھی’بلوچی اور سواتی جیسے موضوعات پر صوبائیت کوہوادیتی ہے۔ ملالہ اپنی کتاب میں دینیات کے مضمون کو اسلامیات میں تبدیل کردینے کو شدید تنقید کانشانہ بناتی ہے اور پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دینے پرنالاں ہے اور ازلی دشمن انڈیاکو عظیم قراردیتی ہے۔
Hamid Mir
کتاب میں جہاں جہاں بھی نبیپاک محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کانام آیا ہے’ کہیں بھی ساتھ درود پاک کے الفاظ نہیں لکھے گئے۔جب اس پر پاکستان میں بہت ہنگامہ ہوا تو معروف صحافی حامد میر جو پاکستان میں ملالہ پروگرام کے سرگرم سپورٹر ہیں، نے لکھاکہ میں نے ملالہ کے باپ سے اس مسئلے پر خود گفتگو کی ہے ۔انہوں نے مجھے یقین دلایا ہے کہ جہاں کہیں کتاب میں ایسی غلطیاں یا معاملہ ہے’ وہ اگلے ایڈیشن میں درست کردیاجائے گا لیکن یہ کب اور کیسے ہوسکتا ہے…؟یہ تو ایک بات تھی جوآئی اور گزر گئی۔ آج ایک سال سے زیادہ کاعرصہ ہوچکا، کتاب میں کیا تبدیلی ہوئی؟’کسی کو کوئی علم نہیں۔
کیونکہ یہ سب کچھ تبدیل کرنے کے لیے نہیں بلکہ طے شدہ مقاصدکے تحت لکھا گیا تھا۔(اب حامدمیر اس پر تو خاموش ہیں لیکن ملالہ کی تعریفوں کے پل ضرور باندھ رہے ہیں) یہی تووجہ ہے کہ مغرب کے ساتھ اسلام کے تنازعہ کی بڑی وجہ بننے والی شخصیت سلمان رشدی کا بھی اس کتاب میں بھر پور دفاع کیا گیا ہے جس نے اپنی کتاب میں اسلام اور مقدس ترین ہستیوں کو ننگی گالیاں لکھی تھیں۔ قادیانیوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ خود کو مسلمان کہتے ہیں لیکن پاکستان میں انہیں کافر قرار دے دیا گیا ہے۔
کتاب میں توہین رسالت کی مرتکب آسیہ مسیح جسے اب ہائی کورٹ نے بھی مجرم قرار دے کرسزائے موت برقراررکھی ہے’ کومظلوم قرار دیاہے۔وہ حدوداللہ کے نظام پر بھی معترض ہے۔دو عورتوں کی ایک مردکے برابرگواہی کے قرآنی فیصلے کو بھی تنقید کانشانہ بناکراسے ضیاء الحق کا فیصلہ قرار دیاگیاہے۔ پاکستان کے بارے میں لکھاگیاہے کہ جب پاکستان کا 50 سالہ جشن آزادی پورے جوش و جذبے سے منایا جا رہا تھا تو اس کے باپ ضیاء الدین یوسف زئی نے بازو پر سیاہ پٹیاں باندھ کر سوگ منایا تھا۔ کتاب میں بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو محض جناح لکھا گیا ہے توان کی نومسلم بیوی کو پارسی قرار دیا گیا۔ لکھا گیا ہے کہ بھارت وپاکستان دو بھائیوں کی طرح ہیں۔ بانیٔ پاکستان اور افواج پاکستان پراس کتاب میں خوب خوب کیچڑا چھالا گیا ہے۔ ساری کتاب ایسی غلاظتوں سے بھری پڑی ہے لیکن اب سب یہ بھول چکے ہیں۔
ملالہ اپنی کتاب میں سوات میں ہونے والے آرمی آپریشن کے نتیجے میں بحال ہونے والے امن پر اپنے باپ کے جذبات بیان کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ضیاء الدین سوات کو مکمل طور پر آرمی کے کنٹرول میں دیکھنے پر رونے لگا۔ضیاء الدین مدارس پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مدارس ہماری تباہی کاباعث بن رہے ہیں۔ اس سے تو بہتر تھا کہ نوجوان جاہل ہی رہتے۔ بتایا گیا ہے کہ CIA ایجنٹ نیویارک ٹائمز کے امریکی صحافی ایڈم بی ایلک ڈاکو منٹری “Class Dismissed”کی تیاری کے بھیس میں 6 ماہ تک ملالہ کے خاندان کے ساتھ ان کے گھر سوات میں رہا۔اس طرح ضیاء الدین نے مغربی ایجنٹ ہونے کے ثبوت کو اور مضبوط کر دیا۔
ملالہ اپنے باپ ضیاء الدین کو فالکن کاخطاب دیتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ضیاء الدین نے پاکستان ہائی کمیشن کا سرکاری ملازم ہوتے ہوئے حکومت پاکستان کے موقف کے برخلاف اورمغربی ایجنڈے کی تکمیل کرتے ہوئے غدار شکیل آفریدی کی رہائی اور امریکہ حوالگی کا مطالبہ کیا اور عافیہ صدیقی کو دہشت گرد قرار دیا۔ اپنے باپ ضیاء الدین کے ذاتی کردار پرروشنی ڈالتے ہوئے ملالہ لکھتی ہے کہ ضیاء الدین کے اوپر بجلی کے میٹر ٹمپرکرکے بجلی چوری کاکیس بناجس کو ختم کرانے کے لیے اس کے باپ نے سیاسی اثر و رسوخ استعمال کیا۔ ملالہخود کو منفرد قرار دیتے ہوئے اپنی اور والدین کی ”لوسٹوری ”فخرسے بیان کرتی ہے۔
ضیاء الدین کے ذاتی کردار پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے ملالہ اس کی مقامی خواتین کے ساتھ فلرٹنگ’ چھیڑ چھاڑ اور مقامی خواتین کی طرف سے چھیڑ چھاڑ کی شکایات فخریہ انداز میں بیان کرتی ہے۔
حالیہ اکتوبر میں جب ملالہ کو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ”ضمیر کے سفیر” کا ایوارڈ آئرلینڈ کے مشہور گلوگار و موسیقار بونوکے ہاتھوں دلوایا تو ایوارڈ دیتے وقت بونو نے ملالہ سے گرمجوشی سے مصافحہ کیا اور کافی دیر اس کا ہاتھ تھامے رکھا۔ بونوکے اس طرزِ عمل پر ملالہ گھبرا گئی اور جب اس نے اس کا ذکر شکایتی انداز میں اپنے والد ضیاء یوسف زئی سے کیا تو اس کے والدنے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا”ملالہ میں تمہیں طالبان سے تو بچا سکتا ہوں مگر بونوسے نہیں۔”واقعی بونو تو کجا، ملالہ کواس کاباپ کسی سے نہ بچا سکا۔
سلمان رشدی سے اس خاندان کی محبت کااندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جب ملالہ کی یہ کتاب منظر عام پرآئی تو چند ہی روز بعد وہ فرانسیسی شہر سٹراس برگ پہنچی جہاں ایک خصوصی تقریب میں اسے سلمان رشدی نے ”اعزاز سے نوازا” یہاں سلمان رشدی کے ساتھ ملعونۂ زمانہ گستاخ تسلیمہ نسرین بھی موجود تھی جن کے ساتھ اس کی تصاویر آج بھی دنیا بھر میں شہرت حاصل کیے ہوئے ہیں لیکن دنیا بھر ایک ہوکر ملالہ کی کہانی اتنی چڑھا دی ہے کہ اب سب ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں جو سمجھ سے بالا ہے۔