تو میرے گھر میں اتر کبھی۔۔شام کے بعد

Politicians

Politicians

تحریر : ایم سرور صدیقی

سہیلی نے دوسری سے پوچھا ”سناہے تم شادی کررہی ہو؟ ہاں ۔۔مگر کیوں ایسے پوچھ رہی ہو تمہیں کیا پریشانی ہے؟ کیا تمہارا دولہا ایک سیاستدان ہے اس نے سہیلی کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے استفسار کیا ہاں۔۔۔اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا یہ سچ ہے سہیلی نے بے ساختہ کہا شہلا! میری مانو کسی سیاستدان سے شادی مت کرنا کمبخت وعدے تو بہت کرتا ہے پورا ایک بھی نہیں کرتا ۔۔۔خیر یہ تو ایک لطیفہ تھا لیکن اس میں کمال کی سچائی چھپی ہوئی ہے ہمارے ملک کے سیاستدان پبلک سے جتنے وعدے کرتے ہیں

اگر ایک ایک وعدہ بھی ایفا کرتے تو پاکستان پرابلم فری کنٹری بن کر دنیا کے نقشے پر اپنی جولانیاں دکھا رہا ہوتا۔ جنرل مشرف کے بعداب مسلسل دو جمہوری حکومتوں کے قیام کو کئی سال ہو چکے ہیں، زرداری حکومت میں تو ہرروز عجب کرپشن کی غضب کہانیاں منظر ِ عام پر آتی رہیں موجودہ حکومت میں کرپشن میں کمی یقینا ہوئی ہے لیکن یہ روایتی حکومت بھی کسی کے پیچھے نہیں زرعی ملک ہونے کے باوجود آلو، ٹماٹر اور دیگر سبزیوں کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں نے عوام کے ہوش اڑا دئیے۔ اب غریب ہیں اور وہی مسائل، وہی محرومیاں ان کا مقدر ٹھہریں اس دوران کچھ نہ بدلا یعنی ساڈے ملک چہ کوئی گھاٹا نئیں کدی ۔۔بجلی نئیں ۔۔کدی آٹا نئیں
صابن وی مہنگا ہوگیا یارو
اسے گئی تے میں نہاتا نئیں

کبھی چینی کے بحران نے عوام کو ہلا کررکھ دیا اس کی آڑ میں ناجائز منافع خوروں نے اربوں روپے کما لئے ،کبھی بجلی کی لوڈشیڈنگ،اووربگنگ اوربجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ عوام پر بجلی بن کر گرتا ہے اوکبھی پٹرول،ڈیزل کی قیمتیں خواب میں آکر ڈراتی رہتی ہیں ۔۔کبھی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے واقعات خوف وہراس کا باعث بنتے ہیں اوراس کے نتیجہ میں عام آدمی ہی متاثرہوتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ شہریوں کی اکثریت زندگی کی بنیادی سہولتوں سے یکسر محروم ہے۔ابلتے گٹر، ٹوٹی سڑکیں اور مسائل در مسائل نے جینا عذاب بنا دیا، آلودہ پانی کے مسلسل استعمال سے بیماریوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا،دہشت گردی، بیروزگاری اور مہنگائی سے لوگ عاجز آگئے۔

کون نہیں جانتا ہمارے بیورو کریٹ، تاجر، حکمران، سرمایہ دار، سیاستدان۔ سرکاری افسران جو لکڑ ہضم ،پتھر ہضم کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، رشوت، کرپشن، منتھلیاں جن کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہیں اور تو اور مخدوم امین فہیم،سید یوسف رضا گیلانی جیسے بے ضرر اور ”معصوم ”رہنمائوں پر بھی جب کرپشن کے الزامات لگتے ہیں تو اپنے اسلاف کا کردار یاد آجاتا ہے وہ بھی کیا لوگ تھے

جنہیں اپنی شخصیت پر ایک جھوٹا بھی الزام گوارا نہیں تھا لیکن ہمارے اردگرد بیشتر مال بنانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے بے شک پورا دامن داغدار ہی کیوں نہ ہو جائے اب تویہ حال ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں بیشتر کیلئے حتیٰ کہ حلال ،حرام کی تمیز ختم ہوگئی ہے۔ ان لوگوں کی تو خبر نہیں لیکن ہم جیسے شرم سے پانی پانی ہو جاتے ہیں سچی بات تو یہ ہے کہ جب تلک کردارسازی کی طرف توجہ نہیں دی جاتی بہتری کی جانب پیشرفت کیسے ہوگی؟ انسان کا کردار سورج کی مانند ہوتا ہے جس کی روشنی دور سے بھی نظر آتی ہے ۔۔ایک ایسی سچائی جو دلوںکو حرارت بخشتی ہے

ضمیر کو طاقت عطا کرتی ہے ۔لیکن دولت کے پجاری معاشرہ میں یہ سب باتیں بے معنی سی ہیںتازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میںمزید ایک کروڑ سے زائد افراد غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں پاکستان میں غربت کی بنیادی وجہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے جس کے سبب امیر، امیر ترین اور غریب غریب ترہوتا جا رہا ہے، بدقسمتی سے کسی بھی گورنمنٹ نے غر بت ختم کرنے کیلئے حقیقی اسباب پر غور کرنا ہی گوارہ نہیں کیا۔اس کے علاوہ دہشت گردی سے ملکی معیشت مفلوج ہوتی جارہی ہے۔

احتجاجی ریلیوں اور ہنگاموں سے بھی عام آدمی ہی متاثر ہوتاہے بجلی یاگیس کی لوڈشیڈنگ سے بھی عام طور پر غریب ہی کو فرق پڑتا ہے پاکستان میں غربت کی ایک اور وجہ عدم سیاسی استحکام اور آئے روز کے بحران در بحران ہیںجس سے بے چینی میں مسلسل اضافہ ہونا ہے وسائل کی منصفانہ تقسیم اور ہر شہری کے لئے بلا امتیازیکساں مواقع کی فراہمی سے غربت میں کمی آسکتی ہے۔اب خوشی کی بات یہ ہے کہ حکومت نے یوتھ لون سکیم شروع کرنے کا اعلان کیاہے لیکن ان کی شرائط ایسی ہیں کہ نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔۔۔ اوراس سکیم سے بھی وہی لوگ استفادہ اٹھائیں گے جن پر پہلے ہی” فضل ِ ربی” ہے۔

Society

Society

حکومت کے پاس کئی خفیہ ایجنسیاں قطار اندر قطار ہاتھ باندھے کھڑی رہتی ہیں کیا اچھاہو اگر میاں صاحب بلا امتیاز ایک حقیقی سروے کروا کر کم وسائل، سفید پوش اوربا ہمت افراد کو معاشرے کو مفید شہری بنانے کیلئے بھرپوروسائل مہیا کرے انہیں بڑے بڑے قرضے دینے کی بجائے چھوٹی چھوٹی رقم کا قرض ِ حسنہ دیا جائے ، ملکی ترقی کیلئے کاٹیج انڈسٹری کو فروغ دینے کیلئے خصوصی اقدامات ناگزیرہیں جس انداز سے حکومتیں لون سکیمیں لانچ کرتی ہیں اس کا زیادہ تر فائدہ بڑی بڑی توند والے ہی اٹھاتے ہیں اور حقیقی ضرورت مندہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔۔ لو جاتے جاتے ایک اور بات بھی سن لو حکومت پنجاب کی سکیم ” اپنی گاڑی اپنا کام ”سخت شرائط کی وجہ سے غریبوںکی پہنچ سے دور ہوگئی میٹرک کی لازمی شرط کے باعث سکیم فلاپ ہونے کا خدشہ موجود ہے

سکیم میا ںشہبازشریف نے بنیادی طورپر کم وسائل رکھنے والے غریبوں کیلئے شروع کی ہے لیکن شرائط سخت ہونے کی وجہ سے صرف امیرہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں عام آدمی کو تو دووقت کی روٹی کے لالے پڑے رہتے ہیں وہ ڈرائیونگ لالسینس بنوانے کی طرف کیا توجہ دے سکتے ہیں؟ دوسرا جن غریب نوجوانوںنے میٹرک پاس نہیں کی کیا وہ پاکستانی شہری نہیں ہے ان کو اس سکیم سے محروم رکھنا ناانصافی ہے ملک میں کروڑوں نوجوان بے روزگار پھر رہے ہیں وہ حکومت پنجاب کی سکیم ” اپنی گاڑی اپنا کام ” سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گاڑی لے کر اپنے گھروالوں کا سہارا بننا چاہتے ہیں لیکن ا س سکیم کی سخت شرائط آڑے آرہی ہیں اس لئے شرائط میں نرمی کرتے ہوئے تعلیمی معیار ختم کر دیں اورفریش ڈرائیونگ لالسینس کو بھی قبول کیا جائے۔ اور اس بات کو یقینی بنایا جائے

اس سکیم سے صرف کم وسائل رکھنے والے غریب شہری ہی فائدہ اٹھا سکیں اس سلسلہ میں کسی بھی خفیہ ایجنسی سے مدد لی جا سکتی ہے سچی بات تو یہ ہے کہ جب تک حکومتی سکیموںکا فائدہ عام آدمی تک براہ ِ راست نہیں پہنچتا ملک سے غربت ختم نہیں کی جاسکتی۔میاں صاحب آپ کو قدرت نے ایک سنہری موقعہ دیا ہے خدارا!اس ملک کے عام شہری کیلئے کچھ کیجئے جس کے پاس دینے کو رشوت ہے نہ سفارش۔۔۔ جس کا گارنٹی دینے والابھی کوئی نہیں۔۔گارنٹر میسر ہوتو لون سکیموں کے بغیر بھی قرضے مل جاتے ہیں ۔۔۔۔میاں صاحب !کیا مسائل کے مارے غریب۔۔۔ کم وسائل سفید پوش اورگوپ اندھیرے میں آپ کو سورج سمجھنے والے لوگ آپ سے مایوس ہو جائیں؟
تو تو سورج ہے ۔۔۔تجھے کیا معلوم رات کا دکھ
تو میرے گھر میں اتر کبھی۔۔شام کے بعد

M Sarwar Siddiqui

M Sarwar Siddiqui

تحریر : ایم سرور صدیقی