تحریر : ایم ایم علی ہماری پاک افواج ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے تو دوسری طرف ہماری سیاسی قیادت اقتدار کے حصول کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہی ہے جو اقتدار میں ہے اس کو اقتدار بچانے کی فکر لاحق ہے اور اقتدار سے باہر ہے وہ اقتدار میں آنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا ہے اگر عمران خان باز نہ آئے تو ان سے کھلی جنگ ہو گی ،دوسری طرف عمران خان صاحب فرماتے ہیں کہ 30نومبر کو پاکستان کی جنگ ہے ،ساری قوم اسلام آباد پہنچے ۔ خان صاحب مختلف شہروں بڑے بڑے جلسے کر رہے ہیں اور اپنے ہر جلسے میں حکومت کو للکارتے دکھائی دیتے ہیں ۔حکومت کہاں پیچھے رہنے والی ہے لگتا ہے حکومت بھی اب خان صاحب کو انہی کے انداز میں جواب دینے کا فیصلہ کر چکی ہے ۔قارئین ،ویسے تو جمہوریت کے اندر احتجاج کرنا ہر شہری کا جمہوری حق ہوتا ہے اور کسی کو بھی اس کے جمہوری حق سے روکا نہیں جا سکتا ۔لیکن ہمارے ملک میں جمہوریت کا راگ آلاپنے والی سب سیاسی جماعتیں خود حقیقی جمہوریت سے کو سوں دور ہیں۔
ان جماعتوں کے اندر تو جمہوریت نا م کی کوئی چیز دیکھائی نہیں دیتی۔اس وقت ہمارے ملک میں عام آدمی کا مسئلہ نہ تو جمہوریت ہے اور نہ ہی دھاندلی ہے بلکہ عام آدمی کا مسئلہ مہنگائی اور بے روز گاری ہے ،جس کی جانب کسی سیاسی جماعت کی توجہ نہیں وہ میڈیا ٹاک اور جلسوں میں تو ان ایشوز پر بات کرتے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کرتے ،ہمارے ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت عام آدمی کے مسائل جوں کے توں ہی رہتے ہیں ۔موجودہ حالات میں جب تھر میں بچے غذائی قلت کے باعث مر رہے ہیں ،ہسپتالوں میں لوگ ناکافی طبعی سہولیات کی وجہ سے مر رہے ہیں ،بھوک و افلاس سے لوگ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں ،لیکن ہماری سیاسی قیادت کو انسان بچانے سے زیادہ جمہوریت بچانے کی فکر لا حق ہے ،اور ہر سیاسی لیڈر جمہوریت بچانے کا سہرا اپنے سر لینا چاہتا ہے۔
اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہو سکتی کہ شاید اس لولی لنگڑی جمہوریت سے ان کے اپنے مفادات وابستہ ہیں۔ کیونکہ عام آدمی کو تو اس جمہوریت پھل ملتا دیکھائی نہیں دیتا، 14 اگست کو جب عمران خان صاحب اورطاہرا لقادری صاحب لانگ مارچ لے کر نکلے تو 15اگست تک پارلیمنٹ میں موجود تقریباتمام سیاسی جماعتیں اپنے تمام سیاسی اختلافات بھلا کرایوان بچانے اور جمہوریت بچانے کے نام پر اکھٹی ہو چکیں تھیں۔کیا ممکن ہے کہ یہ لوگ کبھی عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے بھی اکھٹے ہو جائیں ؟ہماری سیاسی جماعتیں عوام کوان ووٹ ڈالنے کا حق تو بار بار یاد کرواتی ہیں لیکن ووٹ لینے کے بعد عوام کو ان کے حقوق دینا بھو ل جاتی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے اچھی ہوتی۔ جناب اس میں تو کوئی شک نہیں جمہوریت آمریت سے اچھی ہوتی ہے لیکن جمہوریت کیلئے جمہوری رویہ بھی تو ہو نا چاہیے جو ہماری سیاسی قیادت میں دیکھائی نہیں دیتا۔ ہماری سیاسی قیادت میڈیا ٹاکس اور اپنے سیاسی جلسوں میں جس طرح ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہیں اور جس طرح ایک دوسرے کو للکارتے ہوئے اس سے تو نہیں لگتا کہ ہمارے ملک میں جمہوریت ہے۔
Peoples Party
جمہوریت اختلاف رائے کا حق دیتی نہ کہ کسی دوسرے کی پگڑی اچھالنے اور کیچڑ اچھالنے کا حق دیتی ہے ۔ ہمارے ملک میں بے شمار سیاسی جماعتیں ہیں لیکن دو بڑی جماعتیں یعنی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی باری باری اقتدار میں آتی رہی ہیں ،جب ان جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی حد سے تجاوز کر جاتی ،اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ جب ان دونوں جماعتوں میں اقتدر کے حصول کی جنگ حد سے تجاوز کر جاتی تو پھر بڑے گھر کو اس میں مداخلت کرنا پڑتی اور پھر اقتدار کا مرکز بڑا گھر بن جاتا ۔ لیکن اب تیسری بڑی جماعت تحریک انصاف نے ان دونوں بڑی جماعتوں کی شہرت اور ووٹ بینک کو چیلنج کیا ہے ۔اب یہ لڑائی دو بڑی جماعتوں کی بجائے تین بڑی جماعتوں میں شروع ہو چکی ہے ۔ اس لڑائی میں ایک بار پھر بڑے گھر کے پاس موقع تھا کہ وہ مداخلت کر کے ایک بار پھر اقتدار کا مرکز بڑے گھرمیں منتقل کر دے ،لیکن اس بار بڑے گھر کے سپہ سالار نے اقتدار ہاتھ میں لینے سے اجتناب کیا۔
دو جماعتوں کی لڑئی میں اس ملک قوم کا کتنا نقصان ہو چکا ہے اس کا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں اور اب تین کی لڑائی میں یہ نقصان کتنا بڑھ جائے گا اس کا اندازہ کیسے ممکن ہو پائے گا ؟ قارئین پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی قوت بن کر سامنے آئی ہے اور خان صاحب کا دعوای ہے کہ انہوں نے سوئی ہوئی پاکستانی قوم کو جگایا ہے ،ان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف عوام میں شعور اجاگر کر رہی ہے ہو سکتا ہے خان صاحب کی یہ باتیں درست ہو ں لیکن خان صاحب کے انداز سیاست اور تحریک انصاف کے کارکنوں کے رویے کو دیکھ کر تو نہیں لگتاکہ وہ عوام میں کوئی شعور کو اجاگر کرپائے ہیں ۔اگر آپ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں تو آپ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ اگر آپ تحریک انصاف کی کسی بات سے کوئی اختلاف کرتے ہیں تو تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے کس طرح ایک طوفان بد تمیزی برپاکیا جاتا ہے ۔ تحریک انصاف کی اپنی خواتین اپنے پارٹی کارکنوں کے نا زیبا رویے کے خلاف شکایات کرتی نظر آتی ہیں۔ تحریک انصاف کے جلسوں میں بد نظمی اور مار دھاڑ عام سی بات ہے حا لانکہ تحریک انصاف ایک نئی سیاسی قوت بن کے ابھری ہے اور دوسر ی سیاسی جماعتوں سے ما یوس عوام کی نظر اس جماعت پر ہے اگر تحریک انصاف چاہتی تو ،تنقید براے تنقید اور الزام تراشی کی ملکی سیاست میں جاری روش کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کر سکتی تھی لیکن بدقسمتی سے خان صاحب نے اپنے انداز سیاست سے ملکی سیاست میں مذید تلخیاں پیدا کر دی ہیں۔
خان صاحب کے ہاتھ میں جب مائیک آتا ہے اور سامنے کارکنو ںکا ہجوم نظر آتا ہے تو پھر الزامات کا نہ ختم ہو نے والا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ،پھر ان کے تندو تیز الفاظ کی بو چھاڑ سے نہ تو ان سے اختلاف رکھنے والا کوئی سیاست دان بچ سکتا ہے ،نہ ہی ان سے اختلاف رکھنے والا کوئی صحافی ،غرض کے جو بھی خان صاحب سے اختلاف راے رکھے گا وہ خان صاحب اور ان کے کارکنوں کے اعتاب سے نہیں بچ سکتا، صرف خان صاحب ہی نہیں اس وقت تما م سیاسی قیادت کو اپنا انداز سیاست بدلنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں اصل جمہوریت اس وقت ہی بحال ہو گی جب ہماری سیا سی قیادت اپنا اندز سیاست تبدیل کرے گی ۔ہماری سیاسی قیادت کی انداز سیاست کو دیکھ کر فیصلہ کر نا مشکل ہو جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوری سیاست ہے یا کہ آمرانہ سیاست۔