رقہ میں شامی طیاروں کی بمباری سے 60 ہلاک

Killed

Killed

شام (جیوڈیسک) شمال مشرقی شہر رقہ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ شہر پر حکومتی افواج کی بمباری سے کم از کم 60 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ادھر اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ شام میں جاری تشدد اور سرد موسم کی وجہ سے مشکلات کے شکار اور امداد کے منتظر افراد کی تعداد اندازاً ایک کروڑ 20 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔

عینی شاہدین کے مطابق شامی طیاروں نے شہر میں نو مقامات کو نشانہ بنایا اور مرنے والوں میں بچوں سمیت عام شہری بھی شامل ہیں۔ رقہ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ ایک مقامی شخص نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ رقہ میں صرف ایک ہسپتال کام کر رہا ہے اور وہ زخمیوں کو مناسب طبی امداد دینے میں مشکلات درپیش ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شہر میں کھانے پینے کی اشیا کی قلت ہے اور دولتِ اسلامیہ کے ٹھکانوں پر دن میں شامی اور رات کو امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے طیاروں کے حملوں کے نتیجے میں مقامی آبادی خوف کا شکار ہے۔ شام میں متاثرین میں اضافہ

ادارے کے حقوقِ انسانی کے مشن کی سربراہ ویلیری آموس نے سلامتی کونسل سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ترکی اور اردن سے شام میں جانے والے امدادی قافلے اگرچہ امید کے برعکس متاثرین کی بڑی تعداد تک امداد نہیں پہنچا پائے لیکن اس کے باوجود ان کوششوں سے فرق پڑا ہے۔

انھوں نے سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ سرحد پار سے شام میں امداد کی فراہمی کے منصوبے کی مدت میں اضافہ کرے۔ یہ اجازت آئندہ برس کے آغاز میں ختم ہو رہی ہے۔ ویلیری آموس کا کہنا تھا کہ رواں برس جولائی میں شام میں امداد کے منتظر متاثرین کی تعداد ایک کروڑ آٹھ لاکھ تھی اور چار ماہ میں اس تعداد میں 22 لاکھ افراد کا اضافہ ہوا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اس وقت شام میں 76 لاکھ افراد ملک کے اندر ہی اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی کر گئے ہیں جبکہ 32 لاکھ افراد نے ملک ہی چھوڑ دیا ہے۔ حقوقِ انسانی کے مشن کی سربراہ نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ چودہ جولائی کو اقوامِ متحدہ کی قرارداد کے نتیجے میں شام میں متاثرین کو سرحد پار سے امداد کی فراہمی کا عمل شروع ہوا اور اس مشن کے دوران حلب، ادلب، درعا اور قنیطرہ میں ایسے علاقوں میں امداد پہنچی جہاں تک رسائی بہت مشکل تھی۔

تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ اقوامِ متحدہ اب بھی شام میں متاثرین کی ضروریات پوری کرنے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو رہی خصوصاً حکومت کے زیرِ اثر علاقوں میں پھنسے ایک لاکھ 85 ہزار پانچ سو اور باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں میں محصور ساڑھے 26 ہزار افراد تک امداد نہیں پہنچائی جا سکی ہے۔