ہارون آباد : قائد اللہ اکبر تحریک پاکستان ڈاکٹر احسان باری نے کہا ہے کہ ضلع بہاولنگر کے علاقہ مروٹ کے تین دیہاتوں میں پولیس کے ہزاروں جوانوں کی پولیس گردی پر ضلع بھر کے اراکین پارلیمنٹ اور عوامی نمائندگی کے دعویداروں کی خاموشی سوالیہ نشان ہی نہیں بلکہ قابل مذمت بھی ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت تمام اپوزیشن ممبران اور نئے و انقلابی پاکستان کے دعویدار بھی چپ سادھے ہوئے ہیں۔ کیا ضلع بہاولنگر کے چکوک 337,338,341 ایچ آر پاکستان میں شامل نہیں ہیں اور ان دیہاتوں کے رہنے والے انسان اور پاکستان کے شہری نہیں ہیں۔ انسانی حقوق کے نعرے لگانے والی تنظیمیں اور این جی اوز اربوں روپے فنڈز ہڑپ کرنا تو جانتی ہیں۔
لیکن انہیں ان دیہاتوں میں پولیس گردی کے مظالم نظر نہیں آتے۔ میاں باری نے زخمی پولیس افسران سے بھی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ وہ ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش نہ کیا کریں جس سے اشتعال کی صورت حال بن جائے اور عوامی طبقات سے جنگ چھڑ جائے۔ڈاکٹر باری نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اگر واقعی عوام دوست ہیں توفی الفور بہاولنگر کے پولیس افسران کو معطل کرکے ہائی کورٹ کے جج سے جوڈیشل انکوائری کروائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے اور اصل واقعات سامنے آجائیں۔
اس طرح خواہ کتنے ہی بڑے عہدہ پرفائز شخصیت ہوتو اس کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کی جاسکے گی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو مروٹ کے واقعہ پر سویوموٹو لینا چاہئے ۔ میاں باری نے کہا اگر واقعی اس علاقہ میں کوئی اشتہاری ملزمان موجود تھے تو بھی پولیس کی نااہلی ہے کہ ان کے سایہ میں ایسے لوگ پرورش پاتے رہے۔
پی پی کے راہنماؤں سابق وزیر اعظم گیلانی وغیرہ نے دورہ تو کیا مگر اسمبلی کے فلور پر اس پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ نے اب تک بات کیوں نہیں کی۔گونگے، بہرے عوامی نمائندگی سے عاری مقامی ممبران اسمبلی کو ایسے شرمناک واقعہ پر اب تک مستعفی ہوجانا چاہئے تھا اور شہر شہر عوامی مسائل پر دورہ کرنے کا ڈھونگ رچانے والے وزیر اعلیٰ پنجاب سات روز گزرنے کے باوجود مروٹ کیوں نہیں آئے۔
اللہ اکبر تحریک ایسے واقعات پر خاموش نہیں رہ سکتی ۔کسان بورڈ کے تمام راہنماؤں اور عہدے داروںکو فوری رہا کیا جائے۔