اسلام و پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھوں اس طرح استعمال ہونے کے بعد جب ملالہ اور اس کے خاندان پر اہل پاکستان نے لعنت وملامت کے ڈونگرے برسائے اور مغرب کے پاس ہرطرح کے ایوارڈ ‘ اعزازات اور ملکوں کی اعزازی شہریت دینے کے بعدکوئی حربہ نہ بچا تو انہوں نے 10 اکتوبر 2014ء کو اس کے لیے اپنے سب سے بڑے ایوارڈ نوبل انعام کا اعلان کر دیا۔ جس کی پاکستان میں عوامی پذیرائی تو بالکل نہ ہوئی البتہ اہم حکومتی و غیرحکومتی اور میڈیا و میڈیا پر بیٹھے لوگوں نے ایک بار پھر تعریفوں کے خوب پل باندھ کربے تحاشہ زور لگایا کہ کسی طرح ملالہ کو” قوم کی عظیم ترین بیٹی اور عظیم ترین ہیرو”بنا دیا جائے
لیکن ایسانہ ہوسکااورپاکستانی قوم نے ملالہ اوراس کے خاندان پرصرف لعنت ملامت کی جس پرحالت یہاں تک پہنچی کہ عالمی نشریاتی اداروں اے ایف پی’ رائٹرز اوربی بی سی وغیرہ نے بھی لکھاکہ ملالہ پاکستان میں اچھوت بن گئی ہے اور سبھی عام لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں۔ معروف برطانوی اخبارانڈی پینڈینٹ نے لکھا کہ دنیا میں ملالہ کونوبل انعام ملنے پر جشن منایا جا رہا ہے لیکن پاکستان میں اسے نظر انداز کیا گیا ہے یا پھر سخت تنقید کی جارہی ہے۔قوم کی نفرت اور لاتعلقی دیکھ کر مغرب کو خوش کرنے کے لیے حکومت نے تھک ہارکر مبارک باد کی قراردادیں منظور کیں اور اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات شائع ہوئے۔
10 اکتوبر کو جب اسے امن کانوبل انعام دیا گیا تو امریکی صدرنے فوری کہا کہ ”میں ملالہ کی جرأت وبہادری پر حیران ہوں۔” ساتھ ہی کہا کہ یہ انعام جوایک بھارتی شخصیت کیلاش ستھیارتھی کے ہمراہ دیاگیا ہے’یہ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات بہترکرنے میں ممدوو معاون ہوگا۔ یعنی یہی طے کیاگیا تھاکہ یہ انعام دراصل پاکستان کو اس کے بھارت کے ساتھ بنیادی مسائل بھلاکردوستی لگانے اوربڑھانے کی غرض سے دیا جا رہاہے۔
امن کے نوبل انعام کی حقیقت جاننی ہو تو اس سے بڑھ کر اس کے بارے میں کیاکہاجائے کہ یہ انعام تو2009ء میں ہی آج کے دور میں مسلمانوں کے ایک بڑے قاتل امریکی صدر بارک اوبامہ کو بھی دیاجاچکاہے جوملالہ کے آئیڈیل لوگوں میں شامل ہیں۔یہ انعام تو فلسطینی مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ڈھانے والے شمعون پیریز کو بھی دیاجاچکاہے۔ اب اہل پاکستان پوچھتے ہیں کہ بتاؤملالہ نے ایساکیاکیا ہے کہ اسے امن کانوبل انعام دے رہے ہو تو ان کا جواب یہی سمجھ میں آتاہے کہ ”بس ہم نے دیاہے توتم مانو’ ہم نے صحیح دیاہے اور تم مانو’ ملالہ جو کہتی ہے اورجو ہم کہتے ہیں ‘وہ سب صحیح ہے۔”
نوبل انعام دنیاکی قتل وغارت گری میں آج تک سب سے زیادہ استعمال ہونے والے بارودیا ڈائنا میٹ کے موجد سائنسدان الفرڈ برنارڈ نوبل کے نام پر دیا جاتا ہے جو 21 اکتوبر 1833ء کو سویڈن میں پیداہوا تھا اور 10 دسمبر 1896ء کواٹلی میں فوت ہوگیا تھا۔ نوبل انعام کے تمغے پر اس کاچہرہ کندہ ہے۔ یہ انعام اب تک 10 مسلمانوں کو ملاہے البتہ عالمی میڈیا چونکہ قادیانیوں کو مسلمان قرار دیتاہے’اس لیے وہ اسے 11 شمار کرتا ہے۔
پاکستان کے اب تک 2لوگوں کو یہ انعام ملا ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کو 1979ء میں 2 دیگر سائنسدانوں کے ہمراہ یہ انعام ملاتھا جب وہ 1974ء میں پاکستان میں قادیانیوں کو کافر دئیے جانے کے بعد یہاں سے ہمیشہ کے لیے ملک چھوڑ کر اٹلی جابساتھا۔البتہ اس نے پاکستان کے لوگوں کو ستانے کے لیے یہ وصیت ضرورکردی تھی کہ مرنے کے بعد اسے پاکستان میں دفنایا جائے۔ اس کے علاوہ اب دوسری شخصیت ملالہ قرار پائی ہے جس کے کارنامے سب کے سامنے آشکارہوچکے ہیں۔ دیگر مسلمانوں میں جنہیں یہ انعام دیاگیاہے ‘ان کے حوالے سے کچھ تفصیلات دلدوز وپریشان کن ہی ہیں کیونکہ ان سب نے مسلمانوں کے دائرے میں رہ کر اسلام اور مسلمانوں کو سب سے بڑھ کر نقصان پہنچایا ہے اوراپنی ”خدمات”کی بناء پر ہی انہیں ایسے انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔
Nobel PRIZE
سب سے پہلا نوبل امن انعام مصر کے صدر آنجہانی انوار السادات کو ملا۔ یہ انعام انہیں اسرائیل کو تسلیم کرنے’ فلسطین کے کاز سے دستبردار ہونے اور اسرائیل سے فوجی و دفاعی اتحاد پر ملا۔ اس دوران انہوں نے مصر کے راسخ العقیدہ مسلمانوں کے خلاف کارروائی کرکے بھی مغرب کی نظروں میں اپنا مقام بنایا۔ اس انعام میں وہ بھی اسرائیل کے وزیراعظم مناہم بیگن کے ہم شریک تھے۔ دوسرا انعام فلسطین کی تنظیم آزادی کے رہنماآنجہانی یاسر عرفات کو اس وقت ملا جب وہ اپنیجائز و اصولی مؤقف سے دستبردار ہو کر اسرائیل کے ماتحت رہتے ہوئے فلسطینیوں کو یہودیوں کی غلام اور باج گزار قوم بنانے پر تیار ہوگئے۔تیسرا انعام ایران کی شیریں عبادی کو ملا۔
یہ خاتون انسانی حقوق کی سرگرم کارکن اور ہم جنس پرستی کی پر جوش حامی یعنی روشن خیال تھیں۔ چوتھا انعام مصر کے محمد البرادی کو ان کی ”پرامن” ایٹمی خدمات پر ملا۔ ان کا اصل کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے عراق کے تباہ کن ہتھیاروں کی وہی مخبری کی تھی جو امریکہ چاہتا تھا۔ انہوں نے مصر کو امریکی کالونی بنانے کے لئے بھی خدمات انجام دیں۔پانچواں انعام بنگلہ دیش کے گرامین بینک کے محمد یونس کو دیا گیا۔ موصوف بنگلہ دیش میں جمہوریت کے خلاف عالمی سکرپٹ رائٹرز کے منصوبے کے بنیادی مہرے تھے۔ انہوں نے بنگلہ دیش میں بھارت نواز عناصر کی پر شور واپسی کیلئے بھی اہم کردار ادا کیا اورملک میں کروڑوں لوگوں کو سود اور سودی نظام معیشت میں جکڑدیا۔
چھٹا انعام یمنی خاتون توکیل کرمان کو ملا۔ انسانی حقوق کی اس پرجوش کارکن نے یمن میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے ان تھک محنت کی جس کانتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ وہاں خانہ جنگی ہے اورایرانی حمایت یافتہ حوثی قبائل دارالحکومت سمیت ملک کے بیشترحصے پرقابض ہو چکے ہیں اورہرطرف لاقانونیت ‘قتل وغارت گری اور لوٹ مار ہے توساری دنیااس پرخاموش ہے کیونکہ ان کاایک اہم مشن مکمل ہواہے۔ساتواں انعام (ادب)مصر کے نجیب محفوظ کو ملا۔ وہ بہت بڑے ادیب تھے اور اسرائیل کے پر جوش عاشق اوراس کے حق میں لکھنے والے۔ انہیں مصر کے اندر یہود دشمن عناصر کی ناراضگی کا سامنا رہا۔ آٹھواں انعام (ادب)مصر کے ایک اور بڑے ادیب اور رجحان ساز ڈرامہ نگار توفیق الحکیم کو ملا۔ توفیق الحکیم مشہور مائسوگائنسٹک Misogynistic شخص تھے۔ عربی میں اس کا ترجمہ عدو المراة یعنی عورت دشمن کیا جاتا ہے۔
آپ عورتوں سے امتیاز برتنے’ ان پر ہر طرح کے تشدد کو روا رکھنے اور استحصال کے بعد انہیں اٹھا پھینکنے کے پر جوش حامی اور وکیل تھے’ البتہ بعد ازاں انہوں نے اس نظریے سے اعلانیہ تو نہیں عملاًرجوع فرما لیا ۔اس طرح کہ ایک خاتون سے شادی کر لی۔ مصر میں ڈرامے کی تجدید اور احیا کے لئے ان کی ”خدمات” بہت تاریخی ہیں۔ آپ نے الف لیلیٰ کے ایک باب شہر زاد پر ڈرامہ لکھا جو اصل سے بڑھ کر بے حجاب تھا۔ نویں نمبر پر یہ انعام حاصل کرنے والے ایک مصری مسلمان ہیں یعنی احمد زویل جنہیں بظاہر صرف کیمسٹری میں خدمات پر انعام ملا لیکن انہیں انعام بھی تب ملا جب ان کے پاس مصر کے ساتھ امریکہ کی شہریت تھی اور وہ امریکہ سے ہر طرح کی وفاداری کا حلف اٹھا چکے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ مصری دانشور وں کی جومجموعی سیکولرحالت ہے
اس کے پیش نظر ڈاکٹر عبدالسلام کی طرح ان کا بھی کوئی نہ کوئی ایساپس منظر ہو سکتاہے۔مسلمانوں کا نام یا اسلام سے تعلق کی شہرت رکھنے والے ان لوگوں کومغرب نے کیوں نوبل سے نوازا اور یہ نوبل کی سازش کیا ،اب تو یہ کھل کر سامنے آچکا ہے لیکن حیرانی اس بات پر ہے کہ عالم اسلام تو کجا کو ئی عام مسلمان بھی اس تماشے کو سمجھنے پر تیا ر نہیں ۔اس کی وجہ تو واضح ہے کہ میڈیا کی طاقت نے ہر شخص کا دماغ اس قدر مائوف کر دیا ہے کہ لوگوں کی اپنے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی ناکارہ ہو چکی ہے۔
کمال دیکھئے کہ”مسلمانوں”کو ملنے والے نوبل انعامات سے خوب واضح ہے کہ یہ انعام کیسے اورکسے ملے ؟اور حیران کن بات کہ دنیامیں اب تک سب سے زیادہ نوبل انعام مجموعی طور پر دنیامیں مذہب کی بنیاد پر بھی سب سے کم ترین آبادی رکھنے والے یہودیوں کو ہی ملے ہیں یعنی یہ ہے اس انعام کی حیثیت جو ملالہ کو دے کر ہمیں تاریخ انسانی کاسب سے بڑا فخر کرنے کو کہا جا رہا ہے۔