تحریر : انجم صحرائی پندرہ سے زائد لاشوں، سیکڑوں زخمیوں اور دو ماہ کے عظیم دھرنے کے باوجود بھکر کے ضمنی الیکشن میں ووٹ ڈالنے والوں نے ووٹ ڈالتے وقت نہ تو کسی کا منہ دیکھا اور نہ ہی انقلاب کے نعروں اورنہ ہی ترانوں کی گر می کام آئی اور جیت گیا وہی سسٹم جس میں رہ کر اس سسٹم کے خلاف لڑ نے کی نوید سنا ئی تھی قا ئد انقلاب نے دھر نے کے اختتام پر ۔اب انہیں کون سمجھا تا کہ صاحب اگر اسی نظام اور اسی سسٹم کے تحت ہی ز ند گی گذارنی ہے تو پھر سمندر میں رہ کر مگر مچھوں سے بیر کون لے گا اگر نیا ز یوں اور نوا نیوں کے مقا بلے میں مو چی ،پا ولی اور عام کمی کمین کی بجا ئے آپ کے انتخاب کا قر عہ فا ل بھی بھی ان کے دیر ینہ جاگیر دار کل کے سیا سی حلیف اور آج کے سیا سی حریف کہا و ڑوں کے نام ہی نکلنا ہے تو پھر بے چا رے وو ٹر کو کیا پڑی کہ سر او کھلی میں دے ۔ لگتا ہے کہ سیا ست میں مفا ہمت کا فلسفہ سر چڑھ کر بول رہا ہے تبھی تو طبقا تی بنیا دوں پر انقلا بی جد و جہد کی بجا ئے ملٹی کلاس انقلاب اور ملٹی کلاس آزا دی کی بات ہو رہی ہے ۔ اور ایسے ملٹی کلاس انقلا ب میں تو یہی ہو نا ہے کہ جو طا قتور ہو گا جس کے وسا ئل زیا دہ ہوں گے اور جو وننگ ہا رس ہو گا وہی جیتے گا اور وہی آ گے آئے گا ۔ اختیار بھی اسی کا ہو گا اور اقتدار بھی اسی کا ہو گا۔
ہما رے ہاں انقلاب کے نام پر یہ کھیل بر سوں سے جا ری ہے ۔ عوام ، غریب ، ہا ری اور مزدور کا نام لے کر ایک با ر نہیں بار بار اس قوم کو الو بنا یا گیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہم جا نتے بو جھتے ہو ئے بنتے گئے ۔جمہوریت ، آ مریت نظام حکو مت جو بھی رہا اقتدار کی غلام گر دشوں میں ایک مخصو ص طبقہ ہی کی اجا رہ داری رہی چند خا ندانوں اور ان کے وفادار جو انگلیوں میں گنے جا سکتے ہیں اقتدار کے سنگھا سن پہ بیٹھے نظر آ ئے ۔ مجھے یا د ہے کہ جب ضیا ء الحق کے دور میں ہمارے لیہ کو ضلع بنا یا گیا تب نئے ضلع کی افتتا حی تقریب میں را جہ ظفر الحق جو اس وقت و فا قی انفار میشن منسٹر تھے تشریف لا ئے ان کے سا تھ مخدوم یو سف رضا گیلا نی تھے وہی یو سف رضا گیلا نی جو زرداری دور میں پی پی پی کے پرا ئم منسٹر رہے ۔سا بق شیر پنجاب غلام مصطفے کھر کو تو آپ نے بھی قا دری صا حب کے دھرنے میں سٹیج پر ٹوپی پہنے قا ئد کے دا ئیں با ئیں دیکھا ہو گا ۔یہ سب مفا ہمت کا کر شمہ ہے کہ سا ری سیا سی پا ر ٹیاں ایک دو سرے کا ہا تھ تھا مے نظر آ تی ہیں پا ر لیمنٹ میں بھی اور پا ر لیمنٹ سے با ہر بھی انہیں ٹی وی ٹاک شو میں دیکھیں آپس میں منا ظرہ کا آغاز بھی بسم اللہ کی بجا ئے ایک دو سرے کو “بھا ئی بہن” کے القا بات و اعزاز دینے سے ہو تا ہے ۔ عوام کے مسا ئل پہ کبھی سر پھٹول نہیں ہو گی آپس میں گالم گلوچ اور مارا ما ری کی نو بت اگر کبھی آئی بھی تو اس بات پہ کہ ” میں نے اتنا نہیں کھا یا جتنا تو نے کھا یا ہے”۔
یا دش بخیر ہماری قو می سیا ست کا ایک بڑا نام ہوا کر تا تھا ائیر مارشل (ر ) اصغر خان ۔ ان کی ایک سیا سی جماعت ہوا کر تی تھی تحریک استقلال ۔ تحریک استقلال اور اس نام سے اب بھی کئی سیا سی جما عتیں ہیں مگر اصغر خان کی کو ئی جما عت نہیں اسی لئے اس نام کی جما عتوں میں سبھی کچھ ہے مگر تحریک نہیں ۔ ائیر مارشل اصغر خان کی سیا ست با رے ہمارے دانشور اور تجزیہ نگار دو گرو پوں میں تقسیم ہیں ایک انہیں نا کام سیا ست دان قرار دیتا ہے جب کہ دو سرا مکتب فکر انہیں اعلی سیا سی اقدار کا امین قرار دیتا ہے ۔ وہ اعلی سیا سی اقدار جو کم از کم ہما رے ملک میں نہ تو کبھی با اقتدار آ ئی ہیں اور نہ ہی کبھی با اختیار رہی ہیں ۔مجھے بھی تحریک استقلال کے ور کر ہو نے کا اعزا رہا ہے۔ تحریک استقلال کو پا لیٹکس اکیڈ یمی کہا جا تا ہے اور شا ید اسی تر بربیت کا نتیجہ ہے ۔کہ اپنے بھی خفا مجھ سے بیگا نے بھی نا خوش میں زہر ہلا ہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند ائیر ما ر شل اصغر خان نے بلا شبہ عام آ د می کی سیا ست کی ۔ان کے سیا سی نظر یے اور وے آف پا لیٹکس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن یہ سب کا ما ننا ہے کہ انہوں نے مفا ہمت کے نام پر اصولوں کو کبھی بھینٹ نہیں چڑھایا۔ آمریت کے دور میں جب ذو لفقار علی بھٹو کو پا بند سلا سل کیا گیا تب بھٹو فیملی کی جا نب سے ان سے را بطہ کر کے بھٹو کی رہا ئی کے لئے معا ونت کی در خواست کی گئی ایئر مارشل نے بھٹو کی رہا ئی کے لئے بھر پور جد جہد کی ،شا ئد اسی لئے جب بھٹو نے اقتدار سنبھا لا تو “بقول ائیر مارشل بھٹو نے انہیں حکو مت جوائن کر نے کی دعوت دی ۔ ملا قات میں جب میں نے انہیں پو چھا کہ ان کا ایجنڈا اور منشور کیا ہو گا تو بھٹو نے مسکرا تے ہو ئے کہا کہ منشور اور ایجنڈا کیا ہو نا ہے ہم ہوں گے اور آپ ، اورحکو مت کا ڈنڈا ۔ اور بس مل کر حکو مت کر یں گے ” ائیر مارشل کو یہ فلسفہ سمجھ نہ آیا اور خالی ہا تھ لوٹ آئے۔
Pakistan
جب سبھی لوگ مشرقی پاکستان کو بزور قوت فتح کر نے کی باتیں اور بنگلہ دیش نا منظور کی باتیں کر رہے تھے صرف ایک آ واز تھی ائیر مارشل اصغر خان کی جو مشر قی پا کستان میں فو جی کاروائی کی مخالفت کر رہی تھی اس جرم پہ ملتان ریلوے سٹیشن پر ا ئیر مارشل کے چہرے پر تھو کا گیا ۔ یہ سب گوارہ کیا مگر اصول نہیں بد لے ایک اور واقعہ آپ کو سنانا چا ہوں گا بھٹو حکو مت کے خلاف تحریک میں تحریک استقلال ایک بڑی سیا سی جما عت کے طور پر سا منے آ ئی ۔ ضیا ء الحق کو بھٹو مخالف تحریک کے تقریبا سبھی بڑوں نے جوائن کر لیا ۔ضیا ء الحق کی بڑی خواہش تھی کہ ائیر مارشل بھی ان کی حکو مت کو جوا ئن کر لیںیہ واقعہ مجھے تحریک استقلال کے ایک سینئر سا تھی نے سنا یا کہاس وقت کی ما ر شل لاء حکو مت نے وزیر علی ملک جو تحریک استقلال کے مر کزی نا ئب صدر تھے کے توسط ائیر مار شل سے رابطہ کیا ملا قات ہو ئی ابتدا ئی کلمات کے بعدجب ضیا ء الحق نے ائیر ما ر شل کو حکومت جوا ئن کر نے کی دعوت دی تو انہوں نے یہ کہتے ہو ئے مار شل لا ء حکو مت جوا ئن کر نے کی آفر مسترد کر دی کہ ایک جمہوری پا ر ٹی مارشل لا ء کی غیر آ ئینی حکو مت کو بھلا کیسے جوا ئن کر سکتی ہے ۔ اور یہی جرم تھا جس کے پا دا ش میں ضیا ء الحق کے دور حکو مت میں ائیر مارشل کوسب سے زیا دہ پا نچ سال نظر بندی بھگتنا پڑی ۔ یہ بھی ریکارڈ کی بات ہے کہ تحریک استقلال نے غیر جما عتی بنیا دوں پر منتخب ہو نے والے بیسیوں منتخب اراکین اسمبلی کی پا ر ٹی ممبر شپ صرف اس بنیاد پر ختم کر دی کہ انہوں نے اے آر ڈی کے فیصلہ کی خلاف ورزی کرتے ہو ئے انتخا بات میں حصہ لیا ۔۔ تو جناب یہ ہے اصول اور مفا ہمت کے بغیر کی جا نے والی سیاست۔
مگر بر سوں بعد مفا ہمت کے نام پر ننگی کرپٹ سیا ست کا جو مکرہ کھیل آج کھیلا جا رہا ہے اسے دیکھتے ہو ئے یہ سب فسا نے لگتے ہیں ۔مفا ہمت کی یہ تا ریخ بہت پرا نی ہے کہا جا تا ہے کہ ہما رے ہاں اقتدا و اختیار کے تمام فیصلے ما ورا ئی قوتوں کی آ شیر باد سے ہو تے ہیں اور پوری ملکی تا ریخ گواہ ہے کہ ان ماورائی قو توں نے بھی ہی ہمیشہ مفا ہمت کو ہی رواج دیا ہے ۔ایوب خان دور کے کا لے قا نون ایبڈو سے لے کر مشرف کے این آر او تک سبھی ان جیسے بنا ئے گئے قوا نین سے مستفیذ ہو نے والے عوام تو ہر گز نہیں تھے ان سب کا مقصد صرف یہ تھا کہ اند ھا با نٹے ریو ڑیاں اور دے اپنوں اپنوں کو محترم طا ہر القادری آج کل علیل ہیں اللہ کریم انہیں صحت کا ملہ بخشے آمین ۔ لیہ تشریف لا ئے یہ ان دنوں کی بات ہے جب ان کی ریش مبا رک میں سفیدی نہیں آ ئی تھی لیہ کینال ریسٹ ہائوس میں پریس کا نفرنس ہو نا تھی ، نو زا ئیدہ عوامی تحریک با رے عوامی آ گہی مہم پہ نکلے ہو ئے تھے علا مہ صا حب ۔ اور یہ دورہ بھی اسی مہم کا حصہ تھا ۔پریس کا نفرنس شام 8 بجے تھی مگر رات دس بجے تک علا مہ صاحب تشریف نہیں لا ئے خدا خدا کر کے گیارہ بجے رات پر یس کا نفر نس شروع ہو ئی ۔ علا مہ صاحب نے دیر سے آ نے کے بارے بتایا کہ و ضلع لیہ کے تمام روحانی آصتا نوں پر حا ضری دے آئے ہیں اور سبھی گدی نشینوں اور شیو خ نے عوا می تحریک کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ سو آ نے والے دنوں میں عوا می تحریک ایک بڑی سیا سی قوت بن کر ابھرے گی۔ مگر ہوا اس کے بر عکس ہو نے والے انتخا بات میں تحریک صرف ایک سیٹ لے سکی اور وہ سیٹ تھی قا ئد محترم کی ۔۔با قی سب اللہ ہی اللہ سچی بات یہ کہ لوگ سچی اور صاف عوامی قیادت کی تلا ش میں ہیں۔ جو صرف ان کی آواز بنے دانشور کہتے ہیں کہ دنیا میں صرف دو قو میں ہیں ظالم اور مظلوم۔
ظالم تو سبھی با اقتدار و با اختیار ہیں صد یوں سے۔ ضرورت مظلوم کو ہے سماج بد لنے کی ، نظام بد لنے کی اور انصاف بد لنے کی ۔ اور یہ سب نہ تو ملٹی کلاس انقلا بیوں سے ہو گا اور نہ ہی ملٹی کلاس جنو نیوں سے ۔ اگر اس ملٹی کلاس سے مزدور راج آنا ہو تا تو آج سے بر سوں پہلے اآچکا ہو تا جب مر حوم ذو الفقار علی بھٹو کی پیپلز پا ر ٹی رو ٹی ، کُپڑا اور مکان کے نام پر بر سر اقتدار آ ئی تھی اس تبد یلی کے لئے تو مظلو موں کو صف آرا ہو نا ہو گا مزدوروں ، ہا ریوں اور سماج کے پسے ہو ئے طبقوں کو ظا لموں کے خلاف طبقاتی بنیا دوں پر منظم جدو جہد کر نا ہو گی اور پھر تبد یلی آ کر رہی گے۔