تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم شاید میری بات سے وہ لوگ متفق نہ ہوں جو مُلک کی بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے نظریاتی طور پر برسوں سے وابستہ ہیں اور وہ لوگ پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان اور اِن کی دھرنوں والی سیاست سمیت عمران خان کے جلسوں اور دھرنوں میں عوامی خطابات میں استعمال کی جانے والی غیرشائشتہ زبان اور عمران کی تقریروںسے خفااور ناراض ہوں گے مگر آج پھربھی وہ لوگ کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی کے سامنے یہ کہتے ضروردیکھائی دے رہے ہیں اور اِسی طرح ابھی مزید یہ کہہ رہے ہوں گے کہ مُلک کو 68سال بعد جوہراصلی عمران خان کی شکل میں مل ہی گیاہے، آج ویسے تو خطااورخطاو¿ں سے پاک تو کوئی بھی اِنسان نہیں ہے، سب میں کچھ نہ کچھ خامیاںاور بُرائیاں اور خوبیاں اور اچھائیاں ضرورموجود ہیں ، کسی میں خامیاں کم ہیں تو کسی میں اچھائیاںزیادہ اور بہت زیادہ ہیں… مگریہ حقیقت ہے کہ ایسا ہم اِنسانوں میں پاک پوترکوئی بھی نہیں ملے گا جو پوراکا پوراسراپاخیراور ہر لحاظ سے سراپااچھائیوں کا مجموعہ ہو چلو قوم کو 68سال بعدہی صحیح عمران خان کی صورت میں کوئی توملاہے آج جو مُلک اور قوم کا بھلاسوچ رہاہے۔
آج اگراِن تمام باتوں سے ہٹ کر ذراساسوچیں تو یہ بات پوری طرح سے عیاں اور سچ محسوس ہوگی کہ آج68سالوں بعد مُلکِ پاکستان اوراِس کے غیوراور محبِ وطن عوام کو عمران خان کی شکل میںوہ نایاب جوہرِ اصلی مل ہی گیاہے جس کی تلاش میں مملکتِ پاکستان کے عوام مدتوں سے سرگرداں تھے،آج مُلک کے ہر کونے میں بسنے والے پاکستانیوں کی نظریں عمران خان کی جانب لگی ہوئیں ہیں اور ہر پاکستانی عمران خان کے سیاسی قول و فعل میں مُلک و قوم کی خیر اور ترقی و خوشحالی کی اُمیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے،اورساتھ ہی یہ توقع بھی کئے ہوئے ہے کہ عمران خان اپنے موجودہ سیاسی قول وفعل کا خود بھی احتساب کرتے رہیں گے اور ساتھ ساتھ اپنی غلطیوں کی بھی اصلاح کریں گے اورایسی غلطیاں دوبارہ نہیں دُھرائیں گے کہ اِن کے مخالفین کو جن پر اُنگلیاں اُٹھانی پڑیں اوراِن کی ذات پر وہ کھلے عام منہ درمنہ تنقیدیں کرتے پھیریں اور اِن کی سیاسی کردارکشی کریں اور اِن کے موجودہ سیاسی کرداراور عزمِ خاص کومسخ کرکے عوام الناس کے سامنے پیش کریں ۔
جبکہ اِس موقعہ پر عمران خان کو یہ کرناچاہئے کہ وہ اپناخوداحتسابی کا عمل جاری رکھیں اور دوسروں کوبھی اپنا ہم خیال بناتے رہیں،اور آگے کی طرف بڑھتے رہیں،آج اگراُنہوں نے یہ نہ کیاتوپھر یہ خود ہی دوسرو ں سے دوریاں پیداکرنے کی وجہ بنیںگے اور اپنی منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی یہ اکیلے او رتنہارہ جائیں گے۔ سو آج عمران خان اپنے جس مقصداور عزم کو لے کر میدانِ عمل میں نکل کھڑے ہوئے ہیں،اِنہیںچاہئے کہ یہ اپنی چندقدم دور کامیابی تک پہنچنے کے لئے مُلک کی تمام بڑی چھوٹی سیاسی اور مذہبی جماعتوںکے ناراض قائدین اور کارکنان کے قریب جائیں اور اِنہیں اپنے سیاسی قول وفعل سے مُلک میں تبدیلی اور نئے پاکستان کے عزمِ خاص الخاص کا پیغام پہنچائیں اور اپنے نیک مقصدکے لئے ہم خیال بنائیں اور سب کو ساتھ لے کرچلیں۔
Imran Khan
یقینا عمران خان کایہ عمل موجودہ حالات میں بہت سی مثبت اور تعمیری تبدیلیاں لے کرآئے گاجس سے عمران خان اپنے مقصداور عزم میں جلد کامیاب ہوجائیں گے ۔بس یہاں شرط صر ف یہ ہے کہ اَب بھی عمران خان دوسروں کی طرح کسی خوش فہمی میں مبتلانہ ہوںاور اپنی جدوجہدِمسلسل کو خندہ پیشانی سے جاری رکھیں اور یوں ہی ا پنی منزلِ مقصود کی جانب یکسوئی سے چلتے رہیں تو یقینااِنہیں منزل مل جائے گی۔ آج اِس سے انکار نہیں… کہ بسااوقات اِنسان اپنی ہی خوش فہمی سے نہ صرف خود دوچارہوتاہے بلکہ دوسروں کو بھی خوش فہمی میں مبتلاکرتاہے اور اِنہیں جھوٹی تسلی دے کر کامیابیوں کی اُمیدیں بندھادیتاہے اور جب یکدم سے کوئی بُراوقت سامنے آن پہنچتاہے تو سب سے پہلے خوش فہمی میں مبتلا ہونے والوں کے ہی ہاتھ پاو¿ں پھول جاتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کاہاتھ تھام کر نقصانات کے گہرے گڑھے میں گرپڑتے ہیں ،جنہیں خوش فہمی میں مبتلاشخص یا ٹولہ خوش کررہاہوتاہے پھراِنہیں تب ہوش آتاہے جب پانی سر سے گزرچکاہوتاہے، پھراِن کے ہاتھ سوائے پچھتاوے اور کف ِ افسوس کے کچھ نہیں آتاہے۔
سویہاں میں مزید اور کچھ نہیں کہوں گا…اوربس اپنے قارئین کو سمجھانے اوراِنہیں بتانے کے لئے ایک مثال نمونے کے طورپر پیش کرناچاہوں گا جس میں ایسی خوش فہمی کی آمیزش ہے کہ کہنے والے کی خوش فہمی کو سُن کرکانوں کو ہاتھ لگاکر بے ساختہ منہ سے یہ نکلا کہ ایسی ”خوش فہمی پر اللہ کی پناہ …“یہاں راقم الحرف کو ایسا محسوس ہواکہ اگر خوش فہمی کا یہی حال رہاتو پھرایساکہنے والے اورجس کی سپورٹ میں یہ تکبرانہ اور خوش فہمی سے لبریز جملے کہے گئے ہیںاَب اِنہیں( اِن کے اقتدار کی کُرسی اوراِن کی اپوزیشن کی چڑیاکو ہاتھ سے نکلتے ہی) بڑے نقصانات سے کوئی نہیں بچاسکے گااَب ایسے میں یہ لگ رہاہے کہ کہیں نوازشریف کی حکومت کو زرداری کی خوش فہمیاں لے کر نہ ڈوب جائیں….؟؟؟اَب ویسے بھی یہ کام تونوازشریف اور اِن کی جماعت کے عہدیداران اور کارکنان کا ہے کہ وہ زرداری کی باڈی لینگویج کو سمجھیں اور اپنے مستقبل کو کسی عبرت ناک انجام سے بچائیں اور ویساکریں جیساکہ آج عمران خان کہہ رہے ہیں۔
بہرحال …!قارئین حضرات….مختصراََ عرض یہ ہے کہ یہاں میں پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین و سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے لاہور میں پیپلزپارٹی کے 47ویں یوم ِ تاسیس کے موقع پر بلاول ہاو¿س میں کارکنوں سے کئے جانے والے خطاب سے اقتباس پیش کروں گااورآگے بڑھوں گا ،اِس موقع پرآصف علی زرداری نے اپنے خطاب کی ابتداءعمران خان کو براہ راست مخاطب کئے بغیر کیا ورکچھ یوں کہاکہ” بھیڑیئے نے اسلام آباد میں پنجے گاڑے ہوئے ہیں، سیاستدانوں کو سنبھل سنبھل کر چلناہوگا، حکومت اُس وقت گرے گی جب ہم گرائیں گے،“اور پھروہ کچھ ہی دیر بعد براہ راست پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران کو ہدف تنقید بناتے ہوئے بولے کہ” کپتان کو باو¿لنگ کرنے دو، جب وہ وکٹ سیدھی کرلے گا توپھر ہم باو¿لنگ کریں گے، پارٹی کے اندراور باہر ہر بھیڑیئے پر نظرہے، گونوازگوکا نعرہ جمہوری طریقے سے لگائیں گے، امپائر کی اُنگلی سے لینادینانہیں،عمران خان کی سیاست امپائر کی اُنگلی پر چلتی ہے، آ ج کی سیاست میں بھولے بھٹکے بچے ہیں، الیکشن میں ہمارے ساتھ بھی ہاتھ ہوا،سازشی ڈراموں میں آکر حکومت گرائیں گے نہ جمہوریت کی کشتی ڈبوئیں گے، “اوراِسی کے ساتھ اُنہوں نے اپنے مخصوص اورخوش فہمی والے لہجے اور انداز میں یہ تک بھی کہہ دیاکہ” اگر ہم بھی احتجاج میں شامل ہوجاتے تو میرے عزیزہم وطنوں ہوچکاہوتا“اور اِن کے من و زبان پہ جو اور جیساآیاوہ کہتے رہے اور اِن کی جماعت کے جیالے مارے جذبات کے تالیاں بجاتے رہے اور آصف علی زرداری صاحب لہک لہک کر اپنے خیالات کا اظہارکرتے رہے اور پنڈال کو اپنے خوش فہمییانہ انداز ِخطابت سے محظوظ کرتے رہے،اور اپنی پارٹی کے جیالوں کو کھانے پینے کے لئے چھوڑدیااور اِدھر اُدھر کی اپنے تعین ایسی ایسی پھینکی کہ پارٹی کے جیالوں کے سر چکراکر رہ گئے ہوںگے اورپھر زرداری صاحب خود ہی اپنی پارٹی کے یوم تاسیس پر کی گئی اپنی تقریر کو ہر لحاظ سے بھرپورتقریرقراردے کر چلتے بنیں، حالانکہپی پی پی کے شریک چئیرمین اور سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرادری کی اپنی پارٹی کے47ویں یوم تاسیس پر کئی گئی پوری کی پوری تقریرسوائے خوش فہمی پر مبنی ہونے کے کچھ نہیں تھی۔
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com