مصر (جیوڈیسک) ایک عدالت نے گذشتہ سال پولیس تھانے پر حملے میں 12 اہلکاروں کی ہلاکت کے مقدمے میں اخوان المسلمین کے 188 حامیوں کو سزائے موت سنائی ہے۔
عدالت اپنا حتمی فیصلہ آئندہ سال 24 جنوری کو سنائے گی اور اس کے بعد ملزمان عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں تاہم یہ طریقۂ کا کافی پیچیدہ ہے۔اس کے علاوہ سزا پر عمل درآمد کے لیے ملک کے مفتی اعظم کی اجازت بھی درکار ہو گی۔
’مصری افواج نے منصوبے کے تحت قتل عام کیا‘اگست 2013 میں دارالحکومت قاہرہ کے قریب ایک پولیس سٹیشن پر مظاہرین کے حملے میں 12 اہلکار مارے گئے تھے۔ اسی روز سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے دو کیمپوں پر پر دھاوا بول دیا تھا۔
اور اس واقعے میں معزول صدر مرسی کے سینکڑوں حامی مارے گئے تھے۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے عدالتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان افراد کو سزا سنائی گئی ہے ان میں سے 151 پولیس کی تحویل میں ہیں جبکہ دیگر مفرور ہیں۔
ملزمان پر 12 پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے علاوہ ان پر دیگر 10 پولیس اہلکاروں کو جان سے مارنے کی کوشش، پولیس سٹیشن کو نقصان پہنچانے، پولیس کی گاڑیوں کو نظرآتش کرنے، بھاری اسلحہ رکھنے کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔
مصر میں حسنی مبارک کی معزولی کے بعد ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں اسلام پسند رہنما محمد مرسی ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے تاہم فوج نے انھیں ایک سال بعد جولائی سنہ 2013 میں برطرف کر دیا تھا اور اس کے بعد صدر مرسی کو معزول کرنے والے فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتح السیسی اپنے عہدے سے استعفی دے کر صدارتی انتخابات کے ذریعے ملک کے نئے صدر منتخب ہو گئے تھے۔
عدالت کی جانب یہ فیصلہ ایک ایسے وقت آیا ہے جب گذشتہ سنیچر کو ایک عدالت نے معزول مصری صدر حسنی مبارک کے خلاف سنہ 2011 میں بغاوت کے دوران لوگوں کو قتل کرنے کی سازش کے مقدمے کی دوبارہ سماعت کرتے ہوئے مقدمہ واپس لے لیا تھا۔
سابق صدر حسنی مبارک پر الزام تھا کہ انھوں نے سنہ 2011 میں شروع ہونے والی بغاوت کے دوران لوگوں کو قتل کرنے کی سازش کی تھی۔ جولائی 2013 میں سابق صدر مرسی کی فوج کے ہاتھوں معزولی کے بعد حکام نے اسلامی اور سکیولر کارکنوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن شروع کیا تھا۔
ان کارروائیوں میں اب تک 1,400 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ 15,000 سے زائد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس سال مارچ میں حکام نے ایک مقدمے میں محمد مرسی کے 528 حمایتیوں کو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔
جس کے دوران سینکڑوں کارکن ہلاک ہوئے اور ہزاروں کو گرفتار کیا گیا اور سزائیں سنائی گئیں تاہم ابھی تک سزائے موت کے کسی فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ معزول صدر مرسی کی جماعت اخوان المسلمین کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا چکا ہے۔ حقوق انسانی کی تنظیمیں مصر میں اخوان المسلمین کے خلاف کارروائیوں اور ان کو دی جانے والی سزاؤں پر متعدد بار تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں۔