خان کے انصافی دھرنے کو 100دن ہو نے کو ہیں خان کہہ رہے ہیں کہ آزادی فنڈ میں 10 کروڑ اکٹھے ہو چکے ہیں 30 نو مبر کو جشن منا ئیں گے۔ تحریک انصاف ایک نیا پاکستان بنا نا چا ہتی ہے نئے پا کستان سے مراد ایسا پا کستان جس میں رشوت شفا رش اور اقربا پروری سے پاک انصاف پر مبنی ایک ایسا نظام ہو جہاں عام آدمی ریا ستی وسا ئل سے مستفیذ ہو سکے۔ اس انصاف اور انقلاب کے لئے عمران خان کہتے ہیں کہ انہیں صرف 200 ایمان دار لو گوں کی ضرورت ہو گی 20 کروڑ کے ہجوم میں یہ 200 ایمان دار بندے خان کیسے تلاش کریں گے یہ بھی ایک بڑا سوال ہے؟
رو ا یتی حسبی نسبی چہرے تو نہ اس محروم عوام کو انصاف دلا سکتے ہیں اور نہ ہی اس مرو جہ نظام سے آزا دی ۔شا ید خان نے اپنے کا رداروں کو ابھی سے ایمان دار لو گوں کی تلا ش میں لگا دیا ہے جبھی تو سبھی ایمان دار تحریک انصاف میں شمو لیت کے لئے دھڑا دھڑ را بطے کر رہے ہیں ہمارے لیہ کے بھی کئی ایمان دار سیا سی چہرے پی ٹی آئی کو جوائن کو چکے ہیں اور کئی کر نے والے ہیں اخباری اطلاعات کے مطا بق سا بقہ دھا ند لی زدہ انتخا بات میں انصاف اور آ زا دی کے علمبر داروں نے35 لا کھ لے کر سو نا می کو فرو خت کیا اب آ ئندہ اس انصاف اور آزادی کامول کیا ہو گا وہ وقت بتا ئے گا ، لیکن یہ بھی وقت کا فیصلہ ہے کہ انصاف اور آزادی کا سو نا می ان راستوں سے نہیں آ نے والا کہ یہ با زومیرے آ ز ما ئے ہو ئے ہیں۔
حال ہی میں تبدیل ہو نے والے ڈی سی او سے ہماری یاد اللہ کچھ زیادہ نہیں تھی ، لیہ قیام کے دوران ہماری ان سے بس دو بار ملا قات ہو ئی ۔ پہلی بار ان کی تعینات ہو نے کے چند دنوں بعد اورآخر ی ملا قات ان کے جا نے سے چند دن پہلے ۔ دو نوں دفعہ ملا قات کا مقصد انہیں بحیثیت ایڈ منسٹریٹر ضلع کو نسل ایف ایم کے پروگرام فورم89 میں بطور مہمان آ نے کی دعوت دینا تھا مگر ہما ری یہ دونوںملا قا تیں لا حا صل رہیں
یوں بو جو ہ ایڈ منسٹریٹر ضلع کو نسل ہمارے پروگرام میں ہمارے گیسٹ نہ بن سکے اور ضلع کی تعمیر و تر قی میںضلعی حکو مت کی تر جیحات و کا ر کر دگی کے حوا لے سے ہم چا ہتے ہو ئے بھی عوا می آ گہی با رے اپنا کر دار ادا نہ کر سکے۔ وہ ہما رے پرو گرام میں کیو ں نہیں آ ئے اس با رے عقدہ تب کھلا جب ان کی کا ر کر دگی کے حوالہ سے ایک فکا ہیہ جملہ سننے کو ملا کہ افسر کچھ بھی نہ کرے صرف عوام سے خو ش اخلا قی بر تے وقت خو ش اسلو بی سے گذ ر ہی جا تا ہے۔ اور ویسے بھی آج کے پا کستان میں اہلیت ، قا بلیت اور کا ر کر دگی سے زیا دہ سیا سی، نسبی اور نسلی حوا لے زیا دہ اہمیت رکھتے ہیں اسی لئے تو آج کا میرٹ آپ کیا ہیں؟ کی جگہ آپ کون ہیں ؟ بن گیا ہے۔
سا بقہ ڈی سی او کے ز ما نے میں ہی ایک مو قر اخبا ر نے ایک ضلعی افسر با رے تھری ان ون کی خبر شا ئع کی تھی یہ ضلعی افسر ا س زما نے میں بیک وقت تین اداروں کے ایگز یکٹو آ فیسر کی حیثیت سے کام انجام دے رہے تھے شا ئد یہ اہمیت و انفرا دیت آج بھی انہیں ہی حا صل ہے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان کے نا توا ں کند ھوں پہ اس بو جھ کا پس منظر کیا ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ نا سا زی طبع کے با وجود وہ بیک وقت کئی محکموں کی ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے اور شا ئد ابھی بھی کر رہے ہیں ۔ دروغ بر گردن راوی اب تو ان کی اہمیت و افا دیت میں شا ید اضا فہ ہو گیا ہے وہ شا ید پنجا بھر میں ضلعی آفیسر ہیں جو ایس ڈی او سے ای ڈی او تک کی ذ مہ دا ر یاں نبھا رہے ہیں ہمیں نہ تو ان کے ایس ڈی او ہو نے پر اعترا ض ہے اور نہ ہی ہم ان کے ای ڈی او ہو نے پر خفا ہیں
ہم جو اپنے قا رئیں سے جو با ت شیئر کر نا چا ہ رہے ہیں وہ بھی شا ئد کو ئی نئی کہا نی نہیں کہ ہما رے ہاں تو ایسا ہو تا ہی رہتا ہے بس اس کہا نی سے یہ یقین دلا نا مقصود ہے کہ اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے ہوا یوں کہ لیہ شہر میں تعمیر ہو نے والے ایک میگا پرا جیکٹ کا ٹھیکیدار کام ادھورا چھوڑ کر بھا گ گیا ۔ کافی انتظار کے بعد افسر مجاز نے ٹھیکیدار مذ کو ر سے رابطہ کیا تو ٹھیکیدار نے پیسے نہ ہو نے کی وجہ سے کام مکمل کر نے سے معذرت کر لی چو نکہ افسر مجاز اس چہیتے ٹھیکیدار کو خا صی ایڈ وانس پیمنٹ کئے ہو ئے تھے جس و جہ سے افسر مجاز نے ٹھیکیدار کو مجبور کیا کہ وہ کچھ بھی کر ے پرا جیکٹ مکمل کرے۔
بڑی تگ و دو اور بحث و تمحیص کے بعد ٹھیکیدار نے اس شر ط پر حا می بھری کہ اگر محکمہ اس کی طرف سے پرا جیکٹ کی مد میں جمع کرا ئی گئی سیکیو رٹی اسے واپس کر دے تو وہ کام مکمل کر نے کے لئے تیار ہیں۔ اصول و ضوابط اور محکمانہ قواعد کے مطابق سیکیو رٹی کام کی تعمیل کے بعد ہی ٹھیکیدار کو واپس کی جا سکتی ہے مگر افسر مجاز نے اپنے چہیتے ٹھیکیدار کو کام مکمل کر نے کے لئے یہ سیکیو ر ٹی جو تقریبا تیرہ لا کھ روپے تھی اپنا صوابدیدی فنڈ سمجھتے ہو ئے واپس کر دی۔
Security
سیکیورٹی واپس لینے کے بعد بھی ٹھیکیدار نے ادھورا کام مکمل نہ کیا ۔ وقت گذ رتا جا رہا تھا وقت پر کام مکمل نہ ہو نے کی وجہ سے محکمہ کے ذ مہ داران خا صے پر یشان تھے افسر مجاز نے ٹھیکیدار بہادر سے را بطہ کیا تو انہیں ایک اور کہا نی سننے کو ملی۔ ٹھیکیدار نے انہیں بتا یا کہ اس نے وہ رقم ایک اور کا روبار میں لگا دی تھی جس میں اسے خا صا نقصان ا ٹھا نا پڑا ہے اس لئے رقم نہ ہو نے کی وجہ سے وہ یہ کام مکمل نہیں کر سکتا بقو ل شخصے ٹھیکیدار نے افسر مجاز سے کہا کہ ایک دکا ندار اسے میٹریل ادھار دینے پر تیا ر ہے لیکن وہ آپ جیسے کسی با وقا ر شخص کی گا
ر نٹی ما نگ رہا ہے اگر آپ اس دکا ندار کو اپنا چیک دے دیں یہ چیک کیش نہیں ہو گا یہ صرف ضما نت ہو گا آپ کی اس ضما نت پر مجھے میٹریل مل جا ئے گا اور میں پرا جیکٹ مکمل ہو نے کے بعد میں اس دکا ندار کا بل پیمنٹ کر دوں گا اور آپ کو اپنا دیا ہوا چیک واپس مل جا ئے گا ۔ معصوم افسر مجاز نے ٹھیکیدار کی اس کتھا پر یقین کر تے ہو ئے 13 لا کھ روپے کا اپنے ذا تی اکا ئونٹ کا چیک ٹھیکیدار کو دے دیا ۔ چیک لینے کے با و جود ٹھیکیدار نے کام مکمل نہ کر نا تھا اور نہ کیا۔
مجبو را محکمہ نے ایک اور ٹھیکیدار سے یہ کام مکمل کرا یا ۔ اب اس کام کو مکمل کرا نے کے لئے رقم کہا ںسے آئی یہ الگ کہا نی ہے مگر یہ بھی کو ئی نئی کہا نی ہے ہما رے ہاں ایسا ہو تا رہتا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے ۔کام مکمل ہو گیا مگر اسی دوران افسر مجاز کی صحت خا صی خراب ہو گئی ۔ افسر صاحب کو شو گر اور گردوں کی تکا لیف لا حق تھیں ڈاکٹرز صا حبان سے را بطہ کیا تو انہوں نے انہیں فو راtransplantation of kidney کا مشورہ دیا گیااخراجات کے لئے رقم تو بینک میں مو جود تھی مگر کڈ نی ڈو نر کی تلا ش تھی خدا خدا کر کے ایک رحم دل دوست نے اپنا ایک گردہ دینے کی پیشکش کی متعلقہ معالج سے را بطہ کر کے وقت لیا گیا
جب ہسپتال جا نے کا وقت آیا تو افسر مجاز نے اپنے بیٹے سے کہا کہ بنک سے کیش لے آئے بیٹا چیک کیش کرا نے بنک گیا تو پتہ چلا کہ دو دن قبل تیرہ لا کھ روپے ٹھیکیدار کے اکا ئو نٹ میں ٹر نسفر ہو چکے ہیں ۔ رقم نہ ہو نے کے سبب افسر مجاز کو اپنے علاج کرا نے کا پرو گرام مو خر کر نا پڑا ۔ٹھیکیدار سے افسر مجاز یہ رقم کیسے وصول کر رہے ہیں یہ ہمارا مو ضو ع نہیں کہ ان کے با ہمی لین دین کا معا ملہ ہے ہم تو یہ سمجھا نے کی کو شش کر رہے ہیں کہ ہما رے آج کے نظام میں ہم سب اپنے آپ کو کھا رہے ہیں جس کا بس جہاں چلتا ہے وہاں کا رو ئی ڈالتا ہے۔
ہما رے ان اداروں کو ہی لے لیں جو ڈویلپمنٹ کے ذمہ دار ہیں محکمہ بلڈ نگ، محکمہ ہا ئی وے ۔ ٹی ایم اے ،، محکمہ لو کل گورنمنٹ اور دیگر وہ تمام ادارے جو ڈویلپمنٹ کے ذ مہ دار ہیں اور جہاں ٹھیکیداری سسٹم کے تحت کام الاٹ کئے جا تے ہیں وہا ں سارے نظام کی بنیاد ہی کمیشن ہے ۔ اگر پول ہو جا ئے تو سبھی کی پا نچوں انگلیاں گھی میں اگر نہیں توٹینڈر فارم کے حصول سے لے کر ورک آرڈر تک کمیشن کا طو طی بو لتا ہے آج کل ایک نئی اختراع سا منے آئی ہے ٹھیکے بلو ریٹ پر حا صل کئے جا تے ہیں
سمجھ میں نہیں آ تا کہ ایک ٹھیکیدار ایک کروڑ کا کام بیس سے تیس فیصد بلو ریٹ پر لے کر ستر کروڑ میں کیسے کر لیتا ہے جبکہ اسے محکمہ کے ذمہ داران کو چھ فیصد کمیشن ، سا ڑھے سات فیصد انکم ٹیکس ، ایک فیصد اکا ئونٹ آفس ، سا ڑھے تین فیصد کنٹی جنسی اخراجات بھی ادا کرنا ہو تے ہیں اگر کمیشن کی اس ساری مدات کو جمع کیا جا ئے تو ایک کروڑ کے پرا جیکٹ کی تکمیل کے لئے چا لیس فیصد سے بھی کم رقم بچتی ہے اب ایسے میں تعمیر کتنی پا ئیدارہو گی یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہم سب جا نتے ہیں اگر نہیں جا نتے تو وہ جنہیں اس کا دراک ہو نا چا ہئے مگر کیا کیا جا ئے۔۔۔کہ جا نے نہ جا نے تو ہی نہ جا نے باغ تو سا را جا نے ہے