پیپلزپارٹی کے یومِ تاسیس کے موقعے پر جنابِ آصف زرداری نے اپنے بحریہ ٹاؤن لاہور والے بَم پروف گھر میں جیالوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”گونوازگو کا نعرہ میرے کانوں کوبھی بہت اچھا لگتاہے لیکن ابھی اِس کا وقت نہیںآیا۔ نوازشریف جائیں تو عمران خاں کی پِچ پر کیوں جائیں ۔وہ جائیں گے تو ہماری پِچ پر جائیںگے ۔ابھی عمران خاں کو باؤلنگ کرنے دیں ۔جب وہ پِچ سیدھی کر لیںگے تو پھر ہم باؤلنگ کریںگے”۔ایسے خواب دیکھنے میں کوئی ہرج نہیں لیکن زرداری صاحب اور اکابرانِ PPP اپنے دَور میں جو گُل کھلا چکے ہیں اُنہیں مدِنظر رکھتے ہوئے ہمارے کاغذوں میںتو پیپلزپارٹی ”ٹائیںٹائیں فِش”ہوچکی ۔زرداری صاحب کا طرزِسیاست انوکھا ہے نہ نرالا۔اپنے دَورِ حکومت میں تو وہ ”مقتدر قوتوں ”کے سامنے سرِتسلیم خم کرکے ہی گزارا کرتے رہے اور اسی ”سجدہ ریزی” میں اُنہوں نے پانچ سال یہ کہتے کہتے حکومت کرلی میں بچا تیرِ حوادث سے نشانہ بَن کر آڑے آئی میرے تسلیم سَپر کی صورت
کاغذ کے ایک ٹکڑے کی آڑ میں پیپلزپارٹی پر قبضہ کرنے والے زرداری صاحب کہتے ہیں کہ وہ وَن ڈے یا T20 کے نہیں بلکہ ٹیسٹ میچ کے کھلاڑی ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ وہ کھلاڑی نہیں اناڑی ہیں جنکے دَورِحکومت میں جیالے مایوس ہوکر گھروںمیں بیٹھ رہے اور پیپلزپارٹی صرف سندھ تک محدود ہو کے رہ گئی۔زرداری صاحب نے بینظیر کے ساتھیوں کو چُن چُن کر ”نُکرے”لگایااور اپنے لیے ایسی ٹیم تشکیل دی جس کی ”غضب کرپشن کی عجب کہانیاں”آج بھی زباںزَدِعام ہیں ۔خادمِ اعلیٰ نے اِس ٹیم کو ”زَرباباچالیس چور”کا خطاب دیااور قوم سے اُنہیں سڑکوںپر گھسیٹنے کا وعدہ بھی کیا لیکن کپتان صاحب نے میاںبرادران کو ایسی ”کڑِکی”میں پھنسایا کہ اُنہیںپیپلزپارٹی کا سہارا لیناپڑا۔جب سیّدخورشیدشاہ نوازلیگ کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہونگے تو پھر کہاں کی سڑکیں اور کہاں کا گھسیٹنا ۔اِس لیے ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ کَڑے احتساب کی راہ میں تحریکِ انصاف ہی سدِسکندری بن کے کھڑی ہوگئی ہے۔
اُدھر ہمارے کپتان صاحب جو وَن ڈے کے ماہر کھلاڑی ہیں، اُنہیں نوازلیگ سے ٹیسٹ میچ کھیلنا پڑ رہاہے جس کی بنا پر وہ ہروقت تیوریاں چڑھائے رکھتے ہیں ۔ویسے بھی جب فاسٹ باؤلر کو وِکٹ نہ ملے تو وہ باؤنسر پھینک پھینک کر بیٹس مین کے ”کھُنّے سیکنے”کی کوشش کرتا رہتاہے ۔یہی کام ہمارے کپتان صاحب بھی کررہے ہیں ۔اُدھر میاںصاحب نے اپنے پورے جسم کو پارلیمنٹ کے عطا کردہ ہیلمٹ میں چھپا رکھاہے اورہیلمٹ کے پیچھے سے طنزیہ ہنسی بھی ہنستے رہتے ہیں جس سے ہمارے کپتان صاحب کا پارہ آسمانوں کو چھونے لگتاہے ۔اُنہوںنے اپنا پلان ”C ”ظاہر کردیا اور ”D” کی دھمکی بھی دے دی لیکن اگلے ہی دِن پلان تبدیل بھی کردیا ۔اِس پلان کے مطابق پہلے لاہور ،فیصل آباد اور کراچی کو بند کیا جاناتھا اور پھر پورے پاکستان کو لیکن شاہ محمودقریشی صاحب نے وضاحت فرمادی کہ شہر بند کرنے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہم شٹرڈاؤن کروائیں گے یا ٹریفک جام کریںگے ،ہم توصرف بڑی شاہراہوںپر پُرامن احتجاج کریںگے۔
Imran Khan
شہر بند کرنے کا یہ انوکھا اورنرالا مطلب صرف تحریکِ انصاف کی کورکمیٹی ہی نکال سکتی ہے تحریکِ انصاف کی ”کورکمیٹی”کو ” کروڑکمیٹی”تو کہا جا سکتاہے کیونکہ اُس میں کروڑوں ،اربوں کے مالک ہی جگہ پاسکتے ہیں لیکن ہیں سبھی ”کورعقل”۔ ایک ماہ سے پلان سی پر مشورے ہورہے تھے اور جب یہ پلان فائنل ہوا تو اگلے ہی دِن اُسے تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔اگر ہم کورکمیٹی میں ہوتے تو مشورہ دیتے کہ خاںصاحب عزت اسی میں ہے کہ ”نیویںنیویں” ہوکر نکل جائیں کیونکہ جِن لوگوں سے ”مَتھا”لگاہے وہ آپ سے بھی زیادہ ضِدّی ہیں۔ لیکن ہماری کون سُنتا ہے ،ہمیں تو لوگ لکھاری ماننے کو بھی تیار نہیں ۔ویسے ہمیں حیرانی ہوتی ہے کہ سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہوا دیکھنے کے باوجود لوگ خاںصاحب کی تحریک کے حق میں کالم لکھنے کی ہمت کیسے کرلیتے ہیں۔ایک چوہے نے ہاتھی کی عمر پوچھی ۔ہاتھی نے جواب دیا ”دوسال”۔ پھر ہاتھی نے چوہے کی عمر پوچھی تو چوہے نے کہا ”ہے تو میری عمر بھی دو سال ہی لیکن میں بیمارشمار رہتا ہوں”۔ لگتا ہے کہ یہ لوگ بھی ذہنی طور پر ”بیمارشمار” ہی رہتے ہیں ۔
تحریکِ انصاف کی ”کورکمیٹی”کی بَدحواسیوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میاںبرادران بَچ گئے ۔یاد رہے کہ ابھی کپتان کی ”پٹاری”میں بہت کچھ باقی ہے ۔ضیاء الحق مرحوم کے دَور میں دو جیالے محوِگفتگو تھے ۔ایک نے دوسرے سے کہا ”یار! یہ ضیاء الحق کب جان چھوڑے گا؟”۔ دوسرے نے جَل بھُن کرکہا ”اتنی جلدی جان نہیں چھوڑنے والا۔یہ قوم کو پورا قُرآن سُنا کر ہی جائے گا اور ابھی تو اُس نے صرف سورة فاتحہ ہی سنائی ہے”۔ اسی طرح میاںبرادران ہوشیارباش ،ابھی تو خاںصاحب نے قوم کو پلان ”سی”دیا ہے اور پلان ”ڈی”سے ”زیڈ” تک 23 پلان باقی ہیں ۔وثوق سے کہا جا سکتاہے کہ کپتان صاحب تو پلان پہ پلان دیتے چلے جائیں گے کیونکہ وہ ”ویہلے”ہیں اور اُنہیں اِس کے سوا کوئی کام ہی نہیں لیکن میاںبرادران خود ہی ”ہَپھ”کر میدان چھوڑجائیںگے ۔خاںصاحب نے 30 نومبر کواسلام آباد میں میلہ لگادیا جس میں عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی ،سلیمان احمد ابرار الحق اور دیگر گلوکاروں نے سماں باندھ دیا۔نسلِ نَو والہانہ رقص کرتی رہی اور خیبرپختونخوا کے وزیرِاعلیٰ پرویزخٹک کو بھی یہ کہناپڑا ”لوگ کہتے ہیں پرویزخٹک رقص کرتاہے لیکن میں کہتا ہوں کہ جہاں اتنا جنون ہو،وہاں رقص تو کرناہی پڑتاہے”۔
دروغ بَرگردنِ راوی وہاں تو پولیس والوں نے بھی سفارشیں ڈلوا ڈلوا کر اپنی ڈیوٹیاں لگوائیں کیونکہ مفت میں عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی سننے کو مِل جائے توکس کا وہاں جانے کو جی نہیں چاہے گا۔ میاں برادران اپنے دِل پرہاتھ رکھ کر کہیں کہ کیا اُن کے جلسوںمیں جناب چودھری نثار ،پرویزرشید ،خواجہ آصف ،خواجہ سعدرفیق اور خود خادمِ اعلیٰ ایسا والہانہ رقص کر سکتے ہیں ؟۔اور جس طرح کنٹینر پر کھڑے کپتان صاحب جھوم رہے ہوتے ہیں،ایسے میاں نوازشریف جھوم سکتے ہیں؟۔اگر نہیں تو پھر میاںصاحب مستعفی ہوکر حکومت کپتان صاحب کے سپرد کردیں کیونکہ نسلِ نَو کو عالمِ مستی میں جھومنے والے رہنما ہی پسند ہیں۔