تحریر : اقبال زرقاش ْْْ14 اکتوبر کو صبح 6 بجکر 59 منٹ پر اچانک موبائل فون کی گھنٹی بجی اور محترم سید رسول صید کا پیغام آیا کہ معروف شاعر محمد محمود احمد میانوالی میں انتقال کر گئے ہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ کچھ دن پہلے ہی میری ان سے فون پر بات ہوئی تھی وہ بتا رہے تھے کہ وہ اپنا نیاء شعری مجموعہ کلام شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں کام جاری ہے ان کی وفات کی خبر نے مجھے غم سے نڈھال کر کے رکھ دیا ابھی وہ عمر کے اس حصے میں تھے کہ انھیں اردو ادب اور سرائیکی کے لیئے بہت کچھ کرنا تھا مگر یہ پر سوز آواز ہمیشہ کے لیئے خاموش ہو گئی کافی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ محمد محمود احمد کے بارے میں کچھ لکھوں مگر قلم ساتھ نہیں دے پا رہا تھا۔
معروف شاعر، ادیب ونقاد ارشاد علی سے کہا کہ آپ محمود احمد کی ادبی خدمات پر کچھ تحریر فرمائیں مگر وہ بھی اپنی مصروفیات کے باعث شاید ان پر قلم نہ اٹھا سکے کافی عرصہ بیت گیا اچانک میرے عزیز دوست معروف صحافی و کالم نگار شہزاد حسین بھٹی نے محمود احمد کی شخصیت کے حوالے سے گفتگو کی تو سوچا کہ اب ضرور ان پر کچھ نہ کچھ لکھوں گا ویسے تو ان کی وفات کے بعدمختلف شعراء ان کی زندگی کے متعلق بہت کچھ لکھ چکے ہیں میرے خیا ل کے مطابق محمود احمد کا شاعرانہ ذوق ان کو فطرت کی طرف سے ملا ہی تھا لیکن ان کا شعر پڑھنے کا انداز بھی اپنے اند ر ایک خاص کشش رکھتا تھا ۔وسیع المطالعہ کی وجہ سے انکی معلومات کا دائرہ بھی بہت وسیع تھا وہ ہر موضوع پر بات کر سکتے تھے بلکہ سننے والوںکو متاثر کرتے تھے اور جب بھی کسی موضوع پر بولتے تو ان کے خیالات کی ندرت اور وسعت سامع کو حیران بھی کر تی تھی اور مرغوب بھی۔بقول محمود احمد
” شعور کون و مکاں آج مجھ پر واضح کر اجل کا ہاتھ بڑا ہے کہ میر ی ذات بڑی”
محمد محمود احمد کی شعری مجموعہ پر مشتمل کتاب ” عورت ،خوشبو اور نماز” دنیائے ادب میں نمایا ں اضافہ ہے جسے نہ صرف ادبی حلقوں میں بہت پذیرائی ملی بلکہ محمود احمد کی شہرت میں اضافے کا باعث بھی بنی۔محمود احمد کے ساتھ میرا دس برس پرانا تعلق تھا جب کبھی میانوالی (کندیا ں )بابائے تھل فاروق روکھڑی کے پاس جانے کا اتفاق ہوتا تو اکثر محمود احمد سے ملاقات بھی ہو جایا کرتی تھی کبھی کبھار جب وہ بذریعہ ریلوے ٹرین میانوالی سے اٹک آتے تھے تو ریلوے اسٹیشن پر انکے ساتھ ایک لمبی نشت ہوتی اور ہم کو انکا نیا خوبصورت پرسوز کلام سننے کو ملتا مگر اب ریلوے اسٹیشن کا منظر ویران ویران سا لگتا ہے کیونکہ اب کوئی محمود ہمیں اپنے درد بھرے دو ہڑے ،گیت ،غزلیں سنانے نہیں آئے گا کیونکہ وہ دھیمی آواز ہمیشہ کے لیئے خاموش ہو چکی ہے ۔محمود احمد فاروق روکھڑی کے بعد میانوالی میں ایک منفردلہجے کی آواز تھی جس کا اعتراف اہل فکرو نظر کرتے ہیں گو کے بعض انسانوں کے لیئے موت شہر ت و عظمت کی تمحید بن چکی ہے اور وہ انسان مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں مرگ و زیست کا سلسلہ پہلو بہ پہلو چلتا رہتا ہے انسان پیدا ہوتے اور ختم ہو جاتے ہیں ستارے ابھرتے اور مٹ جاتے ہیں۔
Muhammad Mahmood Ahmed
چاند نکلتا اور غروب ہو جاتا ہے یہ کائنات کا نظام ہے بعض انسانوں کو موت ہمیشہ کے لیئے سلا دیتی ہے اور بعض مر کر بھی امر ہو جاتے ہیں۔ محمود احمد اپنے گیتوں اپنی غزلوں اور اپنے اردو سرائیکی کلام کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہیں گے اردو اور سرائیکی ادب میں ان کا نام امر ہو چکا ہے محمود احمد محکمہ تعلیم میں درس وتدریس کے شعبہ سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ ریڈیو پاکستان میانوالی سے بھی وابستہ تھے ۔میانوالی میں ریڈیو پاکستان نے 2005 ء میں جب اپنی نشریات شروع کیں تو محمود احمد اردو اور سرائیکی کے پروگراموںکی میزبانی بھی کرنے لگے جن میں انتخاب غزل ،سندھ کنارے اور دھنک جیسے پروگرام شامل ہیں سرائیکی پروگراموں کے حوالے سے بھی ” پھل گجرے ،وسیب رنگ ،تھل سنگار ،دوہڑے تہاڈے گاونڑساڈے ” جیسے عوامی پروگراموں میں اپنی پرکشش شخصیت دھیمی آواز اور پر سوز لہجے سے سامعین کو محظوظ کرتے رہے ۔محمود احمد کے 200 کے قریب گیت مختلف گلوکاروں نے گائے جن میں عطا ء اللہ خان عیسی خیلوی ،منصور ملنگی،شازیہ خشک ،عارف لوہار ،غلام علی ،مراتب علی رخسانہ مرتضی ،نصیبو لال اور ارم حسن وغیرہ شامل ہیں آپ کا مشہور گیت جس نے شازیہ خشک کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا ” مینڈارانجھڑاں ” تھا آپکو بہترین نغمہ نگار کے حوالے سے کئی ایوارڈسے بھی نوازا گیا گو کہ آپ کو سب سے زیادہ شہرت سرائیکی گیتو ں کی وجہ سے ملی لیکن آپ کا اردو کلام بھی کسی سے کم نہ تھا۔
Muhammad Mahmood Ahmed
ہر رنگ بھری چیز کا انجام یہی ہے تتلی کا یہ ٹوٹا ہو ا پر ذہن میں رکھنا اک یاد رہے کچے مکان کی اداسی اک نیم کا سر سبز شجر ذہن میں رکھنا جی بھر کے فلک بوس امارات میں ٹھہرو اس شہر میں میرا بھی ہے گھر ذہن میں رکھنا رنگ لائیں گے اک روز محمود کے آنسو جو سیپ سے نکلے ہیں گوہر ذہن میں رکھنا گو آپ کی شاعری میں رومانوی عنصر زیادہ ملتا ہے اور فطری جذبات کو بہت سادگی سے بیان کرتے ہیں ۔ کچھ تو اپنی بھی شراکت ہو تیری راتوں میں اک شب کا ہی تیرا ساتھ نبھائیں جاگیں یاد رکھنا کہ نشیبوں میں بہاریں ہوںگیں جب تیری اونچی حویلی میں خزائیں جاگیں اک جگہ کہتے ہیں ۔ ان کہی بات کا اظہار بھی ہو سکتاہے پانی جم جائے تو دیوار بھی ہو سکتاہے کیا ضروری ہے مصلے پہ فقط زاہد ہو رونے والا کوئی مخوار بھی ہو سکتاہے پچھلے سالوں میں تو آیا تھا گھٹا کی صورت کیا وہی معجزہ اس بار بھی ہو سکتاہے جس کی پوشاک میں الماس جڑے ہوں احمد کیسے مانوں کے وہ فنکار بھی ہو سکتا ہے محمود احمد جو ش عشق کے ساتھ ساتھ ایک محتاط رویہ رکھنے کا بھی درس دیتا ہے ۔ یہ پھول یہ خوشبو یہ نگر ذہن میں رکھنا گر ساتھ چلے ہو تو سفر ذہن میں رکھنا کئی رنگ بدلتا ہے بھروسہ نہیں اسکا فلحال وہ مخلص ہے مگر ذہن میں رکھنا تم موم کا اک محل بنانے تو لگے ہو سورج بھی نکلتا ہے ادھر ذہن میں رکھنا محمود احمد بلا شبہ ایک بہت بااثر آواز تھی جو آج ہمیں گیتوں غزلوں اور نظموں کی صورت میں گونجتی ہوئی سنائی دے رہی ہے ۔محمود احمد نے نہ صرف اہل ادب کے لیئے لکھا بلکہ اپنے پسماندہ علاقے کے نا خواندہ لوگوں کو بھی اپنی ماں بولی سرائیکی میں شاعری کرکے محظوظ کیا۔ آسمان تیری لحدپر شبنم افشانی کرے سبز نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے