تحریر : عقیل احمد خان لودھی معذوروں کے عالمی دن کے موقعہ پر لاہور میں ریاست کے ہرکاروں نے نابینائوں پر حملہ آور ہو کر جو تصویر دنیا کے سامنے پیش کی ہے اس میں ان تمام باتوں کی صداقت سامنے آتی ہے جو دھرنے والے 110 روز سے دنیا کو بتانا چاہ رہے ہیں۔خواہ دھرنے والے سیاسی مخالفت میں ایسے تمام مسائل کو سامنے لا رہے ہیں جن کا حل عام آدمی کے دل کی دیرینہ آواز ہے مگر ان کی طرف سے موجودہ پاکستان میں دہرائے جانے والے رویوں بارے عکاسی حقائق کے قریب ترین ہے۔
ٹیلی ویژن چینلز پر دکھائے جانے والے لاہور پولیس کی طرف سے نابینائوں پر تشدد اور انہیں دھکے دینے کے واقعات سے ہر پاکستانی شرمسار بھی ہے اور ملک میں جاری لاقانونیت کے خلاف ہمیشہ کی طرح سراپا احتجاج بھی، مگر پاکستانیوں کے احتجاج کی اس مقدس جمہوریت زدہ دور میں اوقات ہی کیا ہے۔ ایسی لاقانونیت جس کے ذمہ دار وہی ہوں جو اس طرح کی لاقانونیت کو روکنے کے پابند ہیں تو پھر کوئی اپنا دکھڑا لے کر کس کے پاس جائے؟۔یہ واقعہ تو میڈیا کے سامنے ہوگیا تودبائو محسوس کر کے کسی ایک آدھ وردی والے کو نشان عبرت بھی بنا دیا جائے گا مگر اس کے حتمی ذمہ دارچند پولیس والوں کو ٹھہرانا اس معاشرے کیساتھ ایک بڑی زیادتی ہے اور مسلسل یہ زیادتی ہو رہی ہے۔ معاملے کو اس کی تہہ سے پکڑ کر ذمہ داروں کیخلاف جب تک کاروائی نہیں کی جاتی کسی ایک آدھ موٹی گردن کے گرد شکنجہ نہیں کسا جاتا تب تک ایسے واقعات ہم روز دیکھتے رہیں گے، ٹی وی سکرین پر دکھائے جانے والے وہ چند آخری درجہ پوسٹنگ کے اہلکار کانسٹیبل ، ہیڈ کانسٹیبل ہی اس واقعہ کے ذمہ دار نہیں ہیںبلکہ اس بار تو کم از کم ان رویوں کا قلع قمع ہونا چاہیئے کہ جن کی زد میں آکرروز حادثات رونما ہوتے ہیں کبھی ملک طاہر قتل ہوتا ہے تو کبھی کسی ماں کو اپنے لخت جگر سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ عام شہریوں کی ہتک انہیں گالی گلوچ کرنا تو ان کے نزدیک انتہائی معمولی سا معاملہ رہ گیا ہے انہیں پتہ ہے کہ جب ریاستی اداروں سے وابستہ تنخواہ دار افرادان کیلئے وہ فرائض سرانجام دے سکتے ہیں کہ جن کی انجام دہی سے ان پر نام آسکتا ہے تو وہ خود وہ کیوں کام کریں۔
گزشتہ روز معذوروں کے عالمی دن کے موقعہ پر اپنے حقوق کی آواز اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کیلئے نکلے، کہ انہیںروزگار دیا جائے ۔پڑھے لکھے نابینا افراد نے اپنی آواز بلند کرنا چاہی تو پولیس والوں کو مبینہ طور پر کسی وی آئی پی شخصیت کی آمد کی اطلاع ملی پھر کیا تھا۔۔۔ فرض بنتا تھا ہماری ریاست کے محافظوں کا کہ پاکستان میں بسنے والی اس اشرافیہ مخلوق کیلئے رستہ صاف کروا کے اپنے ثواب میں اضافہ کرتے اور جا کر اپنے افسران سے شاباش وصول کرتے کہ انہوں نے اعلیٰ مخلوق کیلئے حقیروں سے رستے پاک کروا کے کامیاب ترین کاروائی کی ہے۔
Disability People Protest
پولیس اہلکاروں نے پھر اس فرض کی بجا آوری میں وہی کیا جو اُن کا معمول ہے ڈنڈے اٹھالئے، معذور وں کو انہی دھکوں سے نوازا جن سے پاکستانی مخلوق کو روز نوازا جاتا ہے کبھی راشن کی لائنوں میں کبھی نوکریوں کے جھانسے میں این ٹی ایس کی فیسیں جمع کروانے کی لائنوں میں تو کبھی اپنی شہریت کو رجسٹرڈ کروانے کیلئے نادراآفسز کے باہر لائنوں میں۔نابیناافراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو وہ دہائیاں دیتے رہ گئے لیکن پولیس اپنے روایتی فرائض کی بجاآوری میں ریاست کے ان اندھوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو کر ان کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے رہے کہ جن کی وفاداری میں ملکی اداروں کا بیڑہ غرق کردیا گیا ہے اور اس پر وہ ان سے بھرپور داد کے مستحق ہیں جن کیلئے وہ روز ایسے واقعات کو دہراتے ہیں۔
بینائی سے محروم یہ افراد بھی وہ رونا رو رہے تھے جو آنکھوں والے برسوں سے رو رہے ہیں کہ ملک میں نام نہادمیرٹ نے اندھوں کو بھی نہیں بخشا اور میرٹ کے راگ الاپنے والوں نے اندھوں کے کوٹہ پر بھی کمال مہارت دکھاتے ہوئے انہیں روزگار سے محروم کررکھا ہے۔روزگار سے محروم ان اندھوں میںکوئی ماسٹر تو کوئی پی ایچ ڈی کا اسٹوڈنٹ مگر افسوس کہ عقل کے اندھوں نے یہاں بھی اپنی بہادری دکھانے میں ذرا لجاجت نہ دکھائی ۔لاہور پولیس کے شیر جوانوں نے اْن کا راستہ ہی روک لیا، نہ صرف راستہ روکا بلکہ ڈنڈے اْٹھائے دھکے دیئے، پولیس والوں نے وہ کارنامہ انجام دیا کہ انسانیت شرماگئی۔واقعے میں کئی نابینا افراد موٹر سائیکل پر گرے تو کوئی سڑکوں پر سے اپنی ڈگریاں جمع کرتا نظر آیا، نابینا افراد دہائیاں دیتے رہ گئے لیکن پولیس والوں کو ذرا رحم نہ آیا۔مرتے کیا نہ کرتے بیچارے نابینا افراد کا بس نہ چلا تو وزیراعلیٰ ہاؤس کے بجائے مسلم لیگ ہاؤس پر ہی دھرنا دیکر اپنے حق کیلئے آواز بلند کی۔وطن عزیز کا سب سے بڑ االمیہ یہ ہے کہ یہاں اقتدار پرستوں اور ان کے حواریوں نے قوانین کو ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھا ہے ۔ نابینا افراد جنہوں نے ابھی پاکستان میں ہونے والے تمام واقعات اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھے ان سے زیادہ حوصلہ ان کا ہے جو بینا ہیں مگر ہر روز ایک سے بڑھ کر ایک درد ناک واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے کانوں سے سنتے اور صبر کے گھونٹ پی کررہ جاتے ہیں وہ ان زیادتیوں کو برداشت کرکے اپنے اوپر جو جبر کرتے ہیں اس پر انہیں داد ہی نہیں دینی چاہیئے بلکہ وقت کے حکمرانوں سے اپیل یہ ہے کہ پاکستانی قوم کیلئے اس جبر کو برداشت کرنے پر تلافی کیلئے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا جائے۔وہ جو ہاتھ،بازو، آنکھیں غرض ہر لحاظ سے فزیکل طور پر فٹ ہونے کے باوجود ظلم کے نظام کے سامنے بے بس ہیں ظلم سہنے پر مجبور ہیں زبان کھولنے سے معذور ہیں ۔چند اشرافیہ خاندانوں کی نام نہاد جمہوریت ،عیاشیوں اوراقربا پروری جیسی عادات نے جنہیں برسوں سے دبا رکھا ہے ریاست پاکستان میں وہ بھی معذور ہیں اور برسوں سے معذور ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اس معذوری میں بہت بڑا ہاتھ نام نہاد جمہوریت کا ہے۔
ایک ایسے ملک میں جہاں چند سو یا ہزار ووٹوں سے ناخواندہ ، جعلی ڈگریوں والے عوام کی خدمت کے نام پر لیڈر بنیں اور اداروں میں تعینات اعلیٰ تعلیم یافتہ افسران بھی ان کی خوشامد اور چاپلوسیوں پر مجبور ہوں۔ جہاں ان سیاستدانوں کے چمچہ گیر وں،خوشامدیوں، حواریوں کیساتھ تعلقات میں بھی پولیس افسران اور دیگر انتظامی افسران عافیت تلاش کریں ، عوام کی انتہائی ناپسندیدہ ترین شخصیات ان کی سوچ پر حاوی ہوں وہاں کوئی پولیس افسر بھی کس طرح اپنی قابلیت دکھا سکتا ہے؟ جب تک اس ملک سے پروٹوکول کا خاتمہ نہیں ہوتا اداروں کو غیرقانونی تسلط اور وی آئی پی پروٹوکول سے آزاد نہیں کیا جاتا وی آئی پیز کو احتساب کے حقیقی دائرہ کار میں نہیں لایا جاتا اس وقت تک یہ ملک ترقی کرنے والا نہیں خواہ اس میں ایسی 3500 جمہوری حکومتیں آجائیں یہاں آنکھوں والے اندھے اور چشم نور سے محروم اندھوں کی داستان برابر ہی رہے گی۔وہ جنہیں حبیب جالب کا شعر بہت پسندتھا ” ظلم کے ان ضابطوں کو میں نہیں مانتا تو انہی اور ان جیسوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ جناب عوام بھی ان ضابطوں کو نہیں مانتی۔ اندھوں ، معذور وں اور معذور بنائے گئے سبھی پاکستانیوں کو ان کا حق دیا جائے۔ اسی میں سلامتی ہے۔ آخر میں احمد فراز صاحب کا ایک شعر پروٹوکول کے شوقین حضرات، قارئین کی نذر۔
ہم اس قبیلہء وحشی کے دیوتا ہیں کہ جو پجاریوں کی عقیدت پہ پھول جاتے ہیں۔