تحریر : شاہ بانو میر گزشتہ دِنوں 30 نومبر کا ہّوا ہر پی ٹی آئی مُخالف سوچ کے لیے عذابِ جاں بنا ہوا تھا٬ ایک دلچسپ واقعہ پاکستان کے ایک پیارے شہر کا سنا ُنا ٬ بہت اچھّا لگا٬ اُس شہر میں مین بازار میں کپڑے کا بہت کام ہے جہاں کئی خان صاحبان کا کاروباری لین دین بھی ہے اور اکثر اس شہر میں آنا جانا رہتا ہے٬ سادہ دِلانِ شہر کی سوچ باوجود بہت جدت پسند ماحول کے ابھی تک ویسی کی ویسی ہی ہے خصوصی طور پے سیاست کے مُعاملے میں ٬ ایک سادہ سے پٹھان بھائی کو ایک مارکیٹ کے تاجروں نے اُکسایا کہ آپ واپس پشاور جاکر پی ٹی آئی کے مُخالف بڑے دھیمے انداز میں گفت و شنید جاری رکھیں۔
کیونکہ دیکھیں یہاں ہماری مقبولِ عام سیاسی جماعت ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لئے دن رات کیا کیا منصوبے بنا رہی ہے ٬ سادہ سے پٹھان بھائی اتنی لمبی چوڑی ترقیاتی کاموں کی تفصیل سُن کر حیرت زدہ رہ گئ٬ اور اپنے سادے سے دماغ میں سوچا کہ واقعی یہ تو زیادتی ہے کہ اگر کوئی کام کر رہا ہے تو اس کا ساتھ دینا چاہیے نا کہ اس کے کام کو منفی طرزِعمل اختیار کر کے ماننے سے انکار کر دیا جائے۔
مارکیٹ کے تاجروں نے انہیں اپنے براہ راست پارٹی کے وفاقی عہدہ دارین سے تعلقات کا یقین دلایا اور کہا ہ وہ وہاں جا کر نوجوانوں کو سمجھائیں اور پھر اگر لوہا نرم ہوتا دیکھیں تو انہیں مطلع کریں وہ ان نوجوانوِں کے دل مزید جیتنے کے لئے کچھ انعامات و اکرامات کی نوازشیں کریں گے٬ پٹھان بھائی واپس گئے اور حسبِ ارادہ بازار نکلے اور کچھ نوجوانوں کا اکٹھا کیا ٬ اور کانوں سنا حال آنکھوں دیکھا بنا کر سُنا دیا۔
PTI Protest
بظاہر یہی لگا کہ وہ نوجوان بہت شرمسار ہیں کہ وہ اس سیاسی جماعت کے ایسے اعلیٰ کاموں سے ناواقف رہے٬ پٹھان بھائی دوسرے دن پھر بازار پہنچ گئے اور آج دوسرا پینترا پھینکا نوجوانوں کو نوکریوں کے ساتھ ساتھ دیگر کئی اہم نوعیت کے انعامات کا تزکرہ چھیڑا٬ غرض ایک مہینہ جاں توڑ محنت کے بعد جب ان کا دوسرے جانے کا وقت آیاتو انہوں نے تمام نوجوانوں کو اکٹھا کیا چائے پلائی اور دوسرے دن ساتھ لے جانے کی خواہش کا اظہار کیا٬ خان صاحب وقتِ مقررہ پے جب مارکیٹ پہنچے تو جن تاجران کو وہ روزانہ ٹیلی فون پے تازہ رپورٹ فراہم کرتے تھے ٬ کہ آج اتنے نوجوانوں سے میٹنگ کی اتنے لڑکوں کا ذہن تبدیل کر لیا ٬ وہ سب کے سب ان کو تنِ تنہا آتے دیکھ کر حیرت زدہ ہوئے۔
کیونکہ گزشتہ روز خان صاحب نے انہیں فون پے مُطلع کیا تھا کہ ایک مہینے سے جو چائے پانی کا وہ خرچہ کر کے ان لڑکوں کو ساتھ مِلانے میں کامیاب ہو گئے ہیں وہ سب ان کے ساتھ کل آئیں گے٬ کہاں ہیں وہ تمام کے تمام لڑکے؟ ایک تاجر نے آؤ دیکھا نہ تاؤ سوال جڑ دیا خوچہ کیا بتائیں یہ خانہ خراب کا بچہّ “” پی ٹی آئی “” کیسا پارٹی ہے ٬ منہ بند کر کے ایک مہینہ سے امارہ باتیں یوں یہ لڑکا لوگ سنتا رہا جیسا ام جیسا اچھا بات کبھی سنا نہیں ہو لیکن آج جب ساتھ چلنے کا بولا تو سب کا سب کہنے لگا ام بھوکا مر جائے گا لیکن رشوت میں ملا ہوا کوئی تحفہ قبول نہیں کرے گا٬ اوئے اللہ قسم یہ ایسا پارٹی ہے کہ ام حیران ہے ٬ کوئی روپیہ پانی کی طرح ان پر بہا دے یہ ٹس سے مس نہیں ہوتا ٬ کسی کا کوئی پوزیشن کوئی حیثیت نہیں ہے۔
سوائے کام کے کوئی چالاکی کرتا بھی ہے تو منہ کی کھاتا ہے اور چلائے ہوئے مُہرے کو واپس اٹھا کر درست جگہہ پے شرافت سے رکھ دیتا ہے کیونکہ کوئی دھونس دھاندلی برداشت کرنے کا مزاج ای نہی ہے اللہ قسم یہ جماعت باقی سب جماعتوں سے ہٹ کے ہے٬ تاجروں کے مُنہ تو لٹک گئے اپنے ناکام منصوبے پر لیکن مجھے خان صاحب کی معصوم اردو خوچہ خانہ خراب یہ ایسا پارٹی اے بہت اچھا لگا آپ سب کو بھی اچھاّ لگا٬ سلام ہے عمران کے نوجوانوں نہ جھکنے والو نہ بکنے والو یہی تو ہے نیا پاکستان انشاءاللہ۔