تحریر: میر افسر امان تین دسمبر کو عالمی برادری معذورں کا عالمی دن مناتی ہے۔ اس حوالے سے پوری دنیا میں یہ دن منایا جاتا ہے۔ شہر شہر معذوروں کے اجتماع منعقد ہوتے ہیں وہ اپنی پریشانیاں اور دکھ بیان کرتے ہیں۔ معذوروں کی باتیں سنی جاتیں ہیں اور حکومتوں کے ذریعے ان کا قابل عمل حل ڈھونڈا جاتا ہے۔ یہ دن منا کر تو اصل بات یہ ہے کہ معذور افراد کو بھی یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ان کے بھی معاشرے برابر کے حقوق ہیں وہ بھی ملک کے شہری ہیں۔
ان کو بھی ملک کے معا ملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے جس سے ان کو تسلی ہوتی ہے۔ اسی دن کے حوالے سے لاہور میں معذور نابینا ایک یاداشت حکومت کو پیش کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ان کو حکومتی اہلکاروں سے ملایا جائے تا کہ وہ ان کے سامنے اپنے مطالبات رکھیں۔وہ سفید چھڑیوں کے ساتھ پر امن طریقے سے چل رہے تھے۔
ان کے ہاتھوں میں اپنے مطالبات کے بینرزاور پلے کارڈ تھے۔ان کا مطالبہ تھا کہ ان کی نوکریوں کے کوٹے کو بڑھایا جائے۔ ان کو تونہ پولیس نظر آتی تھی کہ اس پر پتھرئو کرتے۔ نہ وہ دوڑ کر چھپ سکتے تھے نہ ان کے پاس اسلحہ تھا۔ جب کے دوسری طرف پولیس ہلمٹ سروں پر سجائے، ہاتھوں میں ڈنڈے لیے ان کو سبق سکھانے کے لیے موجود تھی۔الیکٹرونک میڈیا نے ساری صورت حال پاکستان کے شہریوں کے سامنے رکھی اسی طرح پرنٹ میڈیا نے بھی ہماری بہادر پولیس کے فوٹو اخبارات میں چھاپے کہ کس طر ح نابینا افراد کو دکھے دے رہے ہیں اور کس طرح نابینا افراد تشدد سے نیچے گھرے ہوئے ہیں ایسا لگتا تھا کہ شاید نابینا افراد پنجاب کی صوبائی پارلیمنٹ پر نئے پاکستان اور انقلابیوں کارکنوں کی طرح چڑھائی کرنے والے ہیں اور اس کے گیٹ کو توڑ کر اندر دھرنا دینے لگے تھے اور اُس وقت تک نہ اُٹھنے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ جب تک نیا پاکستان نہ بن جائے اور جب تک پاکستان میں انقلاب نہ آ جانے تک دھرنا جاری رکھتے۔
Blind People Protest
اُس وقت تک نہ اٹھتے جب تک ان کے مطالبات مان نہ لیے جائیں۔ اللہ کے بندوں وہ تو راستہ بھی اپنی سفید چھڑی کے ساتھ چلتے ہیں وہ تو معذور ہیں ان سے حکومت کو کیا خطرہ ہو سکتاہے کہ آپ نے ان پر وحشیانہ تشدد کیا۔ صحیح بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں انگریز کی عادت ڈالی ہوئی روش ابھی تک نہیں بدلی۔
انگریز عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے وڈیروں، خانوں، گدی نشینوں کو یہ کام سونپا ہوا تھا۔ ان کو نجی جیلیں تک بنانے کا اختیار دیا ہوا تھا یہ حضرات جب بھی عوام انگریز کے ظلم کے خلاف کبھی بھی اُٹھتے تھے تو پولیس کے ذریعے عوام کو وہ سزائیں دی جاتیں تھیں جو ان کی نسلیں بھی یاد رکھتیں تھیں۔ ان حالات میں پولیس کی یہ عادت انگریز کے زمانے سے چلی آ رہی ہے جو ابھی تک ٦٧ سال کے بعد بھی نہیں بدلی۔ اب بھی دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں پولیس کی یہی روش چل رہی ہے۔ رہا لاہور کا معاملہ تو ہمیں تو یہ محسوس ہوتا ہے پولیس میں کوئی نہ کوئی ملک دشمن انصر کام کر رہا ہے جو اس ملک کو افرتفری میں مبتلا دیکھنا چاہتا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح ١٨ افراد کی جان لے لی گئی اور ١٠٠ سے زائد افراد کو زخمی کر دیا گیا یہ جیانوالہ باغ کی یاد تازہ کر دینے کے لیے کافی تھا کہ اب پھر نابینا افراد پر تشدد کر کے دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش نظر آتی ہے۔ کتنی محصومانہ انداز سے مریم صاحبہ فرماتی ہیں کہ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم ملک میں ہوتے تو ایسا تشدد کرنے والے بچ نہ سکتے تھے کیا ساری انتظامیہ اس قابل نہیں کہ وہ ان تشدد کرنے والوں کنٹرول کرتی۔تشدد کرنے والے اہلکاروں کو تو اب بھی معطل کر دیا گیا ہے۔
بصارت سے محروم افراد پر تشدد سے قوم کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے فوری تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ ایس پی ہیڈ کواٹرز کو انکواری آفیسر مقرر کیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ٣ دسمبر کو دنیا میں ”بلائنڈ ڈے” منایا جاتا ہے۔اس دن نابینا افراد اکٹھے ہو کر معاشرے کی ناانصافیوں اور محرمیوں کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں۔ ٧ کلب روڈ پپُ ُپر امن احتجاج کرنے والے نابینا افراد پر پولیس نے وحشیانہ لاٹھی چارج کرتے ہوئے تشدد کا نشانہ بنایا۔ پولیس کے دھکوں اور ہاتھا پائی سے کئی نابینا افراد زخمی ہو گئے۔ پالیس نے مظاہرین کے بینرز پھاڑ دیے۔
جبکہ کئی نابینا افراد کی سفید چھڑیاں بھی ٹوٹ گئی۔پولیس تشدد کی وڈیوز منظر عام پر آتے ہی وزیر اعلیٰ نے فوری تحقیقات کا حکم دے دیا۔حکومت اور نابینا افراد کے درمیان کامیاب مذاکرات ہوئے اور نابینا افراد نے اپنا احتجاج ختم کر دیا ۔ ان کی تنظیم کے جنرل سیکرٹری عامر اشرف نے کہا کہ حکومت کی طرف سے مطالبات تسلیم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے اور ہمارا وفد وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات کرے گا۔ جمہوری ملکوں میں اپنے مطابات پیش کرنے کے لیے لوگ مظاہرے کرتے رہتے ہیں اور انتظامیہ ان ان کی بات سنتی ہے۔ کاش ہمارے ملک میں لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیتے ہوئے مظاہرے کریں جو ان کا جمہوری حق ہے اور ملک کی پویس بھی شاہستگی کا مظاہرہ کرے۔ نہ جانے کب ہم جمہوری ہوں گے۔
Mir Afsar Aman
تحریر: میر افسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان (سی سی پی) mirafsaraman@gmail.com