تحریر: انیلہ احمد اللہ کے با برکت نام سے جس کے قبضہ قدرت میں ہم سب کی جان ہے ٬ آجکل زمانے کے اطوار دیکھ کر ہر دوسرا شخص اپنے اوپر ہوئی زیادتی دیکھ کر بدلہ لینے پر خود کمربستہ ہو جاتا ہےـ کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ہر ظالم ظلم کرنے کے بعد اپنی ناجائز کمائی سے اکٹھی کی گئی دولت کی چمک دمک سے خود ہی بیچارگی کا لبادہ اوڑھ کر دوسروں کے سامنے مہان بن جاتا ہے٬۔
اور غریب بیچارہ بے گناہ ہوتے ہوئے بھی قاتل ٹھہرایا جاتا ہے٬ ظلم کرنے والے یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ جس ذاِت باری تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے جو ہر جان اور بے جان چیز کا مالک ہے وہ ظالم کی رسّی تو دراز کر سکتا ہے لیکن مظلوم کی “” ہائے “” کو کبھی بھی رائیگاں نہیں جانے دیتا ٬ چاہے ظلم کرنے والا پاتال میں ہی کیوں نہ چھپ جائے ٬ خُدا کی گرفت اسے پکڑ کر رہے گی٬ اسی طرز کا یہ چھوٹا سا لیکن سبق آموز واقعہ ہر عقل و شعور رکھنے والے ظالم کے لیے ایک تنبیہہ ہے٬ سیشن کورٹ میں نئے نئے تعینات ایک جج نے اپنی ذندگی کا ناقابلِ فراموش واقعہ کچھ یوں بیان کیا کہ ایک ایسا کیس عدالت میں پیش ہوا ٬ کہ تمام بیانات کی روشنی میں تمام شہادتوں اور ثبوتوں کے باوجود ایک شخص بے گناہ ثابت نہیں ہو رہا تھا٬۔
مجھے انتہائی حیرت تھی اور چاہتا بھی تھا کہ وہ باعزت بری ہو جائے ٬ لیکن کوئی بھی ٹھوس ثبوت کوئی بھی دلیل اس کے حق میں آسانی پیدا کرنے سے قاصر رہی ٬ اسی کوشش میں تقریبا تین ماہ گزر گئے اُسے بچانے کی میری ہر کوشش ناکام ہو گئی آخر کار میں نے اس کی پھانسی کا حکم دے دیا٬ دو دن بعد اُسے پھانسی ہونا تھی٬ نجانے کیوں میرے دل کی بے کلی بڑہتی جا رہی تھی کہ ایک بے گناہ کو پھانسی کی سزا دینا شرعا غلط بھی تھا ٬ میں دوسرے دن اُسے ملنے چلا گیا وہ سوچوں میں گُم دور کونے میں بیٹھا تھا٬ سلام دعا کے بعد میں نے اُسے پوچھا کہ اب سچ کہو تم نے قتل کیا ہے؟۔
Hanging
اس نے اپنے بار بار کہے الفاظ پھر سے دُہرائے کہ نہیں آخر زچ ہو کر میں نے پوچھ ہی لیا کہ تم سے ایسا کونسا گناہ سرزد ہوا ہے کہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہم سب کی آنکھوں پر پٹّی بندھ چکی ہے٬ کوشش کے باجود ہم تمہیں بچا نہیں پائے٬ وہ بولا حقیقت میں میں نے کبھی کسی کو تکلیف نہیں دی لیکن ہاں مجھے اپنی زندگی کا وہ واقعہ یاد آیا ہے جو میں نے دوستوں کے ساتھ مل کر مستی میں ایڈونچر کے طور پے کیا٬ ہم چند دوست سڑک کراس کر رہے تھے ٬ کہ کُتیا سامنے آگئی ٬ نجانے ہمیں کیا سُوجھا کہ اُسے پتھر مار دیا پہلے ایک پھر دو پھر تین ہم مارتے چلے گئے اسی اثنا میں اُس کُتیا نے آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر چیخنا شروع کر دیا٬۔
نامعلوم میں یکلخت پریشان ہو کر خوفزدہ ہوگیا٬ اُس خوف کو دور کرنے کے لئے میں نے ڈنڈا پکڑ کر اُسے اتنا مارا کہ وہ وہیں مر گئی٬ بس یہ گناہ مجھ سے ضرور سرزد ہوا ہے٬ یہ سُن کر مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا میں بھی کہوں اس لئے جب سے تمہارا کیس میرے ہاتھ میں آیا ہے تین ماہ سے میں تمہیں قاتل نہ ہونے کے باعث بچانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہوں٬ لیکن عدالت سے فارغ ہو کر جب گھر جاتا ہوں تو دروازے پر ایک سفید کُتیا بیٹھی مجھے آتا دیکھ کر آوازیں نکالنا شروع کر دیتی ہے ٬ جیسے مجھ سے انصاف کا تقاضہ کر رہی ہو٬ اب میں سمجھا کہ یہ انصاف میں نے نہیں بلکہ خُداوند کریم نے تمہارے اس گناہ کی پاداش میں مجھ سے کروایا ٬اب وقت کا تقاضہ ہے کہ تم اپنے ربّ سے سچےّ دل سے معافی مانگو ٬۔ بے شک وہ غفورو رحیم ہے۔
Justice
لیکن کسی پر ہوتا ظلم وہ معاف نہیں کرتا اس چھوٹے سے واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اپنی مخلوق پر ظُلم کرنے والے کو اللہ پاک سزا ضرور دیتا ہے خواہ دیر سے ہی سہی لیکن اس کا فیصلہ برحق اور اٹل ہے ہماری نظر میں وہ مخلوق نجس اور حقیر سمجھی جاتی ہے وہ بنانے والے کیلیے نجانے کتنی پیاری ہے ٬ انسان تو انسان جانوروں پر بھی ناجائز ظلم و زیادتی کرنے کا اس قدر بھیانک انجام بھی ہو سکتا ہے٬، یہ ہر ظالم کو ظلم کرنے سے پہلے ایک بار توضرور سوچنا چاہیے۔