تحریر : ڈاکٹر عارف محمود کسانہ پاکستان کی معروف قانون دان، سپریم کورٹ بار کی سابق صدر اور حقوق انسانی کے لیے مصروف جدوجہد عاصمہ جہانگیر نے سٹاک ہوم میں سویڈش انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل آفیئرز میںخطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں ہونے والے گیارہ ستمبر کے واقعہ نے دنیا میں بہت کچھ بدل دیا ہے اور حقوق انسانی کے حوالے سے بھی حالات مزید ابتر ہوئے ہیں۔ بہت سے ایسے لوگوں کوبھی انسدا دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے جو اس میں ملوث بھی نہیں تھے۔ ہر ایک کو قانونی امداد ملنی چاہیے اور مشتبہ لوگوں کے ساتھ حقیقی دہشت گردوں کا سلوک نہیں کرنا چاہیے اور اس سلسلہ میں انہوں نے امریکی رویہ پر کڑی تنقید بھی کی اور پاکستانی حکومتوں کے کردار کو آڑے ہاتھوں لیا جنہوں نے لوگوں کر پکڑ پکڑ کر سی آئی اے کے حوالے کیا جنہیں وہ گونتانامابے لے جاتے رہے۔ دوسرا تقصان یہ بھی ہوا کہ پاکستان میں سیکورٹی اور خفیہ ادراوں کو کھلی چھٹی مل گئی اور انہوں نے لاتعداد لوگوں کو غائب کردیا جن میںبلوچستان سے بھی بہت سے لوگ شامل ہیں۔ عدالتوںنے محض میڈیا کے لیے زبانی باتیں کیں لیکن حقیقت میں کچھ نہ کیا۔
عاصمہ جہانگیر نے بھارت پر تنقید کی کہ وہاں بھی حقوق انسانی کی صورت حال بہتر نہیںاور صحافیوں کو تشدد اور دبائو کا سامنا ہے اس سلسلہ میں انہوں نے علی گڑھ بوائے کی مثال بھی دی۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں صحافیوں کو شدید مشکلات درپیش ہیں۔ حقوق انسانی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ منتخب حکمران بھی بے بس ہیں جبکہ نان سٹیٹ ایکٹرز اپنا کرادار ادا کرہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں آنے سے قبل اسلام آباد میں وزارت خارجہ میں مجھے جو بریفنگ دی گئی اس میں یہ کہا گیا کہ حقوق انسانی کو ایشیائی نقطہ نظر سے دیکھیں نہ کہ یورپی انداز سے لیکن میں نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ مذہبی شدت پسندی صرف پاکستان میں نہیں بلکہ بھارت میں بھی مذہب کے نام پر قتل ہوتے ہیں ا ور آزادی رائے حاصل نہیں ہے۔
پاکستان میں موجود توہین مذہب کے قانون کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس وقت مذہبی شدت پسندی کے ماحول میں اس کو قانون کو تبدیل کرنا مناسب نہیں۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی حقوق انسانی کی صورت حال خراب ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کا مطلب بالادست طبقہ کی گرفت نہیں بلکہ معاشی انصاف اور آزادی رائے کے بعد قانون کا اطلاق ہے۔ اب آمروں کے لیے کوئی جگہ نہیں لیکن سول حکومتوں کو بھی عوامی مسائل حل کرنا ہوں گے لیکن بدقسمتی سے حکومتیں اس معیار پر پورا نہیں اتر رہیں۔ حالیہ کوٹ رادھاکشن کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ خوش آئند بات یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں نے بھی اس کی مذمت کی ہے۔
Arshad And Shama
انہوں نے کہا عورتوں کے حوالے سے مختلف قوانین نے پیچیدہ صورت حال بنا دی ہے۔ گھریلو تشدد اور غیرت کے نام پر قتل بھی بعض اوقات مذہبی تعلیمات کی آڑ میں ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا دراصل مذہب کی غلط تشریح نے صورت حال خراب کررکھی ہے اور المیہ یہ ہے کہ تعلیم یافتہ روشن خیال افراد کی بجائے قدامت پرست علما ء کی تشریح ہی کو قبولیت عام ہے۔ سویڈن کو انسانی حقوق اور پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل کی حمایت جاری رکھنی چاہیے۔ اس موقع پرمقامی صحافی اور کالم نگار عارف کسانہ نے سوال کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں اور وہاں عورتوں اور بچوں کے ساتھ ہونے والے ظلم پر وہ کیوں خاموش ہیں۔
عارف کسانہ نے سیمینار میں موجود سویڈش حقوق انسانی کے اداروں اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم سے بھی اپیل کی کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کا نوٹس لیں۔ اس سوال کو جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں جموں کشمیر کے دونوں جانب حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں پر تشویش ہے جو زیادہ تر بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہیں۔ انہوں نے کہا گلگت بلتستان واحد علاقہ ہے جہاں سیاسی قیدی ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج نے حقوق انسانی کے سنگین مسائل کھڑے کررکھے ہیں جس کا مشاہدہ خود انہوں نے اپنے وہاں دورہ کے دوران کیا تھا۔وہاں کی عورتوں بہت جبر کا شکار ہیں۔ عارف کسانہ کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں وہ صورت حال کی بہتری کے لیے مکمل پر امید ہیں اور آنے والے وقت میں وہاں حالت بہتر ہوں ہوں گے۔
ایک مضبوط جمہوریت اور قانون کی بالا دستی کے ساتھ عدالتی طریقہ کار میں بھی اصلاح ہوگی۔ سیمنار سے ایشین ہیومن رائیٹس کمیشن کے باصل فرنیڈو نے بھی خطاب کیا۔ یکم دسمبر کو سویڈش پارلیمنٹ میں عاصمہ جہانگیر کو لولی ہوڈ ایوارڈ جسے متبادل نوبل انعام کہا جاتا ہے دیا جائے گا۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والی وہ پہلی شخصیت ہیں جنہیں یہ ایوارڈ مل رہا ہے۔