لاہور میں مال روڈ پر معذوروں کے عالمی دن کے موقع پر اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرہ کرنے والے نابینا افراد پر پولیس نے لاٹھی چارج کردیا جس سےمتعدد معذور ا فراد زخمی ہوگئے۔ نابینا افراد پریس کلب سے وزیر اعلیٰ ہاؤس جانے کیلئے جب مال روڈ پر پہنچے تو کلب چوک پر صدر مملکت ممنون حسین کے گزرنے کیلئے پروٹو کول لگا ہوا تھا جس پر پولیس نے نابینا افراد کو آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کی اور تشدد کیا۔ پولیس نے بلکل صیح کیا ، پولیس اور خاصکر پنجاب کی پولیس تو حکمرانوں کی سب سے زیادہ خدمت گذار ہے۔ جس صدر مملکت کےلیے پنجاب کی بہادر پولیس نے نہتے نابینا افراد کو تشدد کا نشانا بنایا، چھ ماہ قبل میں نے اُس پر ایک مضمون لکھا تھا ، آپ بھی پڑھ لیں اور مملکت کے اس بوجھ، پنجاب کی پولیس اور خادم اعلی کو یاد کریں۔
صدرپاکستان کا عہدہ ختم کردیا جائے تاریخ 9 تحریر: جون 2014۔۔۔عمران خان اپنی سونامی اور چار حلقوں کی دوبارہ گنتی کے مطالبے کےساتھ سیاست میں گرمی پیدا کرتے ہوئے اب سیالکوٹ سے گذر چکے ہیں، اُنکے سارئے ہی جلسے کامیاب رہے ہیں مگر ان جلسوں کی کامیابی کا سہرا جہاں عمران خان کی ٹیم کو جاتا ہے وہاں ہی نواز شریف کے وزیروں کو بھی جاتا ہے جو ہر پانچ منٹ کےبعد عمران خان کے جلسے کے خلاف بیان بازی کررہے ہوتے ہیں، علامہ طاہرالقادری اور چوہدری شجات حسین اپنے دس نکاتی چارٹر کے ساتھ عنقریب دوبارہ سرگرم ہونگے۔ عمران خان کی موجودہ سیاست اور وزیراعظم نواز شریف کے دورہ بھارت پر میں لکھ چکا ہوں، آج صدر کے پارلیمینٹ سے خطاب اور کیا ہمارئے معاشی حالات میں ایک صدر کی ضرورت ہے یا نہیں کچھ اس پر بات ہوجائے، باقی الطاف حسین کی گرفتاری اور رہائی اور اگلے سال کے بجٹ پر آئندہ بات ہوگی۔
پاکستان کے بارویں صدر ممنون حسین نے گذشتہ سال ستمبر میں منصبِ صدارت سنبھالا تھا۔ پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے صدر کا خطاب ایک آئینی ضرورت ہے، یہ آئینی ضرورت سابق ڈکٹیٹر ضیا الحق کے زمانے سے شروع کی گی ہے، 1973ء کے اصل آئین میں یہ موجود نہیں تھی۔ صدر کی تقریر ایک رسمی کارروائی ہوتی ہے، اسے پارلیمنٹ سے مشترکہ خطاب بھی کہا جاتا ہے مگر ایسا پہلی بار ہوا کہ یہ خطاب صرف قومی اسمبلی کے ارکان کے سامنے کیا گیا، اس میں سینیٹ موجود نہیں تھی۔ صدر کی بلا سے کون آیا یا کون نہیں آیا اس سے صدرکو کیا فرق پڑتا ہے۔ صدر نے ایک آئینی ضرورت پورا کرنی تھی سو وہ پوری ہوگی۔
صدر ممنون حسین سابق صدر جنرل ضیاالحق کی بدت کی پیروی کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تقریبا پنتالیس منٹ وزیراعظم آفس میں تیار کی ہوئی تقریر پڑھتے رہے، انکی پہلی تقریر سے یہ تو بڑا واضع ہوگیا کہ وہ نواز شریف سے وفاداری میں سابق صدر رفیق تارڑ سے دو ہاتھ آگے ہیں۔اپنی پہلی تقریر میں صدر ممنون حسین نے یہ تو تسلیم کیا کہ عوام کو لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، بیروزگاری اور دہشت گردی جیسے مسائل کا سامنا ہے لیکن اسکے ساتھ ہی انہوں نے موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی تعریف کی اور ان اقدامات کا ذکر کیا جو ان مسائل کوحل کرنے کے لئے حکومت کررہی ہے۔صدرنے خود جن مسائل کی نشاندہی کی اُنکے لیے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے رہے کہ پاکستان کے تمام مسائل بس اب حل ہونے والے ہی ہیں۔
ملک میں بجلی کی فروانی ہونے والی ہے، مہنگائی کا جلدخاتمہ ہوجایگا، لا اینڈ آرڈر کی صورتحال مثالی ہوجایگی۔ ملک میں زر مبادلہ کے ڈھیر لگ چکے ہیں اور پاکستان ایک جدید اسلامی اور فلاحی ریاست بن چکا ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک ختم ہونے والی ہے۔صوبہ خیبر پختونخوا میں جلدامن امان ہوجایگا، کراچی میں مکمل امن ہے، بھتہ خوری، دہشت گردی اور ٹارگیٹ کلنگ کا نام و نشان مٹنے والا ہے ، اور ملک میں امن وامان ترقی اور خوشحالی کا دور دورہ ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے صدر کے خطاب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ ریاست کے سربراہ کی کم اور ایک سیاسی جماعت کے وفادار کی تقریر زیادہ لگ رہی تھی۔
Mohammad Khan Junejo
صدر وفاق کا سربراہ ہوتا ہے۔ پارلیمانی نظام میں یہ غیر انتظامی عہدہ ہوتا ہے کیونکہ صدر وزیر اعظم کے کہنے پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ البتہ پاکستان کے فوجی حکمران صدر کے عہدے کو اپنے لیے استمال کرتےرہے ہیں اور وزیر اعظم کے انتظامی اختیارات بھی اپنے پاس رکھتے رہے ہیں، چاہے ان کا اپنا مقرر کیا وزیر اعظم موجود ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی سب سے بُری دو مثالیں ضیاالحق کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو اور پرویز مشرف کے دور کے دو وزرائے اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی اورشوکت عزیز ہیں۔ پارلیمانی نظام میں صدرکو وفاق کا نمائندہ کہا جاتا ہے اور صدر سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر نامزد ہونے کے بعد اپنی سیاسی جماعت سے مستعفی ہو جائے۔ مثال کے طور پر صدر نامزد ہونے کے بعد فاروق احمد خان لغاری پیپلز پارٹی کی رکنیت سے مستعفی ہو گئےتھے جبکہ آصف علی زرداری پاکستان کےصدر ہوتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی کا سربراہ بنے رہے۔
قیام پاکستان سے لے کر اب تک صدر کے عہدے پر فائز رہنے والی شخصیات میں چارفوجی جنرل ہیں جبکہ آٹھ سول حکمران ہیں، فوجی صدر نے تو خود ہی سارئے اختیارات کا استمال کرنا ہوتا ہے تو اُنکے وقت میں وزیراعظم ایک شوپیس ہوتا ہے، ٹھیک اسطرح ہی جمہوری دور میں وزیراعظم انتظامی سربراہ ہوتا ہے جبکہ صدر غلامی کی نشانی ہوتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو فوجی اور سول حکومت میں کسی ایک کے پاس اختیارات ہوتے ہیں جبکہ دوسرا سوائے معاشی بوجھ کے کچھ نہیں ہوتا۔
ہمارئے وزیر خزانہ کے بقول پاکستان کی پچاس فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذار رہی ہے، دو ڈالر یا دو سو روپے یومیہ کمانے والے کو غربت کی لکیر سے نیچے ہی تصور کیا جاتا ہے، ایک طرف تو یہ صورتحال ہے جبکہ دوسری طرف آئندہ سال کے بجٹ میں صدر کے لیے مختص اخراجات 74 کروڑ 32 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں، جو گزشتہ سال کے 69 کروڑ میں مزید 6 کروڑ روپے کا اضافہ،یعنی اب مہینے بھرکا صدر کا خرچ سوا چھ کروڑروپے ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے صدر ممنون حسین کو کراچی کے حالات کے بارئے میں تو اپنی تقریر میں ایک لفظ کہنے کی توفیق تو نہیں ہوئی مگراخباری اطلاعات کے مطابق اپنے خاندان اور رشتہ داروں کی سیکوریٹی کے نام پر کراچی کے اسٹیٹ گیسٹ ہاوس میں رہائش پذیر ہیں
جسکی وجہ سے اسٹیٹ گیسٹ ہاوس میں ٹھرنے والوں کو بڑئے ہوٹلوں میں ٹھرانے کے اخراجات بھی حکومت کو ادا کرنے پڑتے ہیں۔ صدر مملکت نے گذشتہ سال فریضہ حج بھی ادا کیا، اُنکے ساتھ جانے والے اکتیس رکنی وفد میں صدر مملکت سمیت اُنکے بائیس رشتہ دار اور دوست شامل تھے، اُن سب نے سرکاری خرچ پر حج کی سعادت حاصل کی، یہ حج ہوا یا نہیں اور اس کا ثواب کس کو ملے گا، حج کرنے والوں کو یا پاکستان کے غریب عوام کو، جنہوں نے اخراجات برداشت کئے، جبکہ قوم تو مقروض ہے اور قرض دار پر حج واجب ہی نہیں، وہ بھی ایسے حالات میں جب پاکستان کے پچاس فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذار رہے ہوں اور فاقوں پر مجبور ہوں۔
کراچی کے علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کے بنگلے میں رہنے والے صدر مملکت ممنون حسین کے پاس شاید تین یا چار ملازم ہوں، لیکن ایوان صدر میں وہ 497 ملازمین کا اسٹاف رکھتے ہیں، جن میں 200 ملازمین کنٹریکٹ پر ہیں، صدر صاحب کے اِن ملازمین کی سال بھر کی تنخواہیں اور الاؤنسز 16کروڑ کے لگ بھگ ہیں۔ایوان صدر کو سرسبز وشاداب رکھنے کے لیے 85 مالیوں کی خدمات لی جاتی ہیں جن کی تنخواہیں 3 کروڑ 13 لاکھ ہیں۔ صدر مملکت کے غیر ملکی دوروں کے لیے54لاکھ 50ہزار روپے رکھے گئے ہیں جبکہ پہلے ہی سے شاہانہ فرنشڈ ایوان صدر کی آرائش و زیبائش کے لیے بھی 19 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔ ملک میں اس وقت سب سے بڑا مسلہ دہشت گردی ہے لہذا صدر کی مومنٹ پر سیکوریٹی کا انتظام لازمی ہے جس پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور عوام پریشان ہوتے ہیں۔
آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صدرِ کا عہدہ محض رسمی رہ گیا ہے کیونکہ ماضی کے برعکس اب بیشتر صدارتی اختیارات وزیرِ اعظم کو منتقل ہو چکے ہیں۔ صدر کا انتخاب کسی طرح بھی عوام سے تعلق نہیں رکھتا، صدر کا انتخاب پارلیمینٹ کے زریعے ہوتا ہے اور صدر وہی بنتا جس پارٹی کی پارلیمینٹ میں اکثریت ہوتی ہے بظاہر اسوقت آئینی طور پر صدر پر کسی بھی قسم کی سیاسی ذمیداری نہیں ہیں، صدر آرڈینس پر دستخط کرتا ہے، قومی اسمبلی یا سینٹ کے اجلاس طلب کرتا ہے، جب کبھی صدر ملک سے باہر جاتے ہیں تو سینٹ کے چیرمین قائم مقام صدر کی ذمیداری پوری کرتے ہیں۔ موجودہ دور حکومت ایک پارلیمانی جمہوری حکومت ہے لہذا تمام اختیارات وزیراعظم نواز شریف کے پاس ہیں
صدر کو کسی بھی قسم کا انتظامی اختیار نہیں ہیں توپھر اس نمایشی عہدئے کو ختم کردینا چاہیے، جہاں آئین میں اتنی ترمیم ہوچکی ہیں وہاں ایک ترمیم اور سہی جسکے زریعےصدر کی موجودہ ذمیداریاں سینٹ کے چیرمین کو سونپ دی جایں، اس سے نہ تو ہماری خارجہ پالیسی پر کوئی اثر پڑئے گا اور نہ ہی داخلی سلامتی پر البتہ صدر کے انتخابات سے لیکر اگلے پانچ سال تک صدر پر ہونے والے اربوں روپے کی بچت ضرور ہوگی، لہذا بہتر ہوگا کہ صدر پاکستان کا عہدہ ختم کردیا جائے۔