شکایات سیل وزیراعلیٰ پنجاب کے احکامات پر عملدار کیسے ہو گا؟ یہ سوال ان سائلوں کے ذہن گھوم رہا ہوگا۔ جواپنے حقوق کے حصول کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب کے شکایات سیل پہنچ ہونگے۔ عوام کے پاس شکایات کے سوا کچھ بھی نہیں عوامی شکایات کا حل محض وزیراعلیٰ پنجاب کے شکایات سیل کے ڈائریکٹر کے پاس نہیں اس کے لئے نظام کی تبدیلی ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بیورو کریسی کے تمام کل پرزے وزیراعلیٰ جیسی سوچ کے حامل اور عوام اور غریب دوست بننے کا تہیہ کر لیں ہر تھانے میں نماز مغرب سے نماز عشاء کے دوران کوئی وزیر سینیٹر، ایم این اے، ایم پی اے، ناظم یا بیورو کریٹ عوام سے ملاقات کا سلسلہ شروع کرے تو تھانیداروں کی اکڑ فوں میں کمی ضرور آئے گی۔
تھانیداروں کے اوپر محتسب بٹھانے کی ضرورت ہے ہر تھانے میں محتسب کا دفتر قائم ہو اور محتسب پوری طرح بااختیار ہو۔ تھانے میں آنے والے ہر سائل کی بات سْنے اور پوری طرح تحقیق کے بعد پرچہ درج ہو اس طرح جھوٹے پرچے درج ہونا بند ہو جائیں گے۔ تھانوں میں بے گناہوں کو رات گزارنا نہیں پڑے گی اسی طرح ہر محکمے میں شکایات کے ازالے کے لئے ضروری ہے کہ ہر سطح کا افسر اپنے دروازے کھلے رکھے صرف چیف سیکرٹری کی کھلی کچہری سے بات نہیں بنے گی۔ ہر ڈی ایس پی، ایس پی ایس ایس پی، ڈی آئی جی اور آئی جی تھانے لے کہ وہ ہر فریادی کی داد رسی کرے گا اور انصاف کرے گا تو عدالتوں تک جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
محکمہ تعلیم میں شکایات کی بھرمار ہے۔ محکمہ صحت اور محکمہ ایکسائز کا بھی یہی حال ہے۔ واپڈا اور ٹیلی فون کی کارکردگی سے بھی لوگ نالاں ہیں کالجوں میں داخلوں میں بے قاعدگیاں عام ہیں میرٹ اور میرٹ سے ہٹ کر دونوں طرح داخلے ہوتے ہیں۔ سفارشی داخلوں سے ان کی حق تلفی ہوتی ہے جن کے پاس کوئی سفارش نہیں وزیراعلیٰ ہر محکمے کا محتسب مقرر کریں ہر شکایت کے ازالے کے لئے ایک ہفتے کی مدت مقرر کریں تو بہت سے مسائل کا حل سامنے آ جائے گا۔ دکاندار خواہ وہ ریڑھی والے ہی کیوں نہ ہوں قیمتوں کو تحریری طور پر آویزاں کریں تو گرانفروشی پر بھی ضرب لگ سکتی ہے۔
جب وزیر اعلیٰ ”خادم پنجاب” ہوا کرتے تھے۔ مرکز میں ”غیروں” کی حکومت تھی۔ خادم پنجاب دن رات عوام کی خدمت میں مصروف نظر آتے تھے۔ کارکردگی” کا شورتھا۔ اخبارات میں شکایات سیل کے اعلانات مشتہر کئے گئے۔ 23 جون 2008ء کو شکایات سیل نے کام کا آغاز کیا۔ www.cm.punjab.gov.pk سے منسلک ”آن لائن کمپلینٹ ”کا ڈول ڈالا گیا۔ میںنے غالبا 2009ء کو پہلی شکایت درج کروائی۔ یہ شکایت قبضہ گروپ کے خلاف تھی۔ وزیراعلیٰ شکایات سیل کودی گئی درخواست پر مجھے وزیر اعلیٰ شکایات سیل سے ایک آرڈر وصول ہوا ،جس میں ڈی پی او سیالکوٹ کو مخاطب کرکے شکایت کے ازالے کی ہدایت تھی۔
میں خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ مجھے خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف میں مہاتیر محمد کی جھلک نظر آنے لگی، لیکن ہر بیتے دن کے ساتھ میری خوشی مرجھانے لگی، کیونکہ شکایت کے ازالے کی کوئی سبیل نظر نہ آئی۔ میں نے دوبارہ شکایت درج کروائی۔ لگ بھگ پانچ مرتبہ مختلف شکایات درج کروائیں، مجھے وزیراعلیٰ شکایات سیکرٹریٹ سے وہی آرڈر موصول ہوئے، جو پہلی بارملے تھے ۔ لیکن سوائے”آنیاں جانیاں” کے کچھ نہ ہوا۔
Court
بلکہ پولیس تھانہ صدر پسرور کے ایک اے ایس آئی کی سر پر ستی میں قبضہ گروپ عدالت میں پہنچ گئے اور ہمیں مختلف طریقوں سے ذلیل خوار کرواتے رہے،بلکہ جہاں تک میرے بررگوں کو معاشرے میں ذلیل کرنے کیلئے غلط ناموں سے پکار گیا لیکن پولیس اور حکومت پنجاب کی جانب سے کوئی دادرسی نہ ہوئی۔بعض اوقات تویہ صورتحال بھی پولیس اور قبضہ گروپ کی جانب سے سامنے آئی کہ ہم نے وزیراعلیٰ شکایات سیل جانے کا کو ئی سنکین جرم کرلیا ہے ۔جس کی ہمیں سزامل رہی ہے۔ ایک دفعہ پھر وزیراعلیٰ پنجاب کے شکایات سیل ”آن لائن ” درخواست کرنے کا جرم کیا ہے۔ جس کا نمبر سی ایم ایس 61413 ہے اب خدا جانے کیا ہو گا۔
موجودہ انفراسٹرکچر کوبے حالی سے بحالی کی سمت لانا بے حد ضروی ہے۔ یقینا وزیراعلیٰ اپنے دیگر ہم منصبوں سے بہتر دکھائی دیتے ہیں، لیکن حقیقی تبدیلی کی منزل بہت دورہے۔ ظلم کی رات اور جھل کی بات کا خاتمہ صرف دعویٰ ہے۔ وسائل کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم ابھی نعرہ ہے۔ کھلاڑی انفرادی پرفارمنس کا مظاہرہ کرے، ریکارڈ قائم کردے،لیکن ٹیم میچ ہار جائے تو کیسا لگتا ہے؟ ریکارڈ بنانے اور میچ جیتنے میں فرق ہوا کرتا ہے۔ 2008ء میں ایک قومی روزنامہ میں شائع شدہ اشتہارپر شکایت سیل کی جانب سے تحریرتھی: ”آپ آواز دیں گے۔۔۔۔ہم لبیک کہیں گے”
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف ریکارڈ ساز وزیر اعلیٰ ہیں۔ ریکارڈ بنانے اور توڑنے پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ کی زیر قیادت نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہورمیں چالیس ہزارسے زائد افراد نے قومی ترانہ گا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ آپ کی زیر سرپرستی چوبیس ہزارسے زائد افراد نے سب سے بڑا انسانی قومی پرچم بنانے کا ریکارڈ قائم کیا۔ آپ نے پنجاب میں آئی ٹی لیب کے اجراء کا ریکارڈ قائم کیا۔ آپ نے طویل ترین مدت کے لئے پنجاب کا وزیراعلیٰ بننے کا ریکارڈ قائم کیا۔
آپ نے اہل لاہور کے لئے اربوں روپے کا میٹرو بس پراجیکٹ 11 ماہ میں مکمل کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ آپ نے نااہلی کیس میں کامیابی کے بعد دوبارہ وزیراعلیٰ بننے کا ریکارڈ قائم کیا۔ آپ نے والٹن فلائی اوور دو ماہ کی قلیل مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچانے کا ریکارڈ قائم کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شکایات سیل کا ریکارڈ بھی قائم کریں تاکہ شکایات سیل میں آنے والے سائلوں کے مسائل حل ہوں بلکہ لوگوں با عزیت زندگی بسر کرسکیں۔