5سالہ عائشہ اپنے گھر سے نکلی تو گلی کے سامنے کھلے مین ہول میں گرگئی۔بدقسمتی سے پرہجوم راستے پر کسی نے بھی عائشہ کو مین ہول میں گرتے نہ دیکھا۔جب وہ دیر تک واپس گھرنہ پہنچی تو والدین نے پریشان ہوکر تلاش شروع کردی ۔قریبی مساجد میں اعلانات کروائے گئے۔آخر کار 4گھنٹے گزر جانے پر ایک محلہ دار کو خیال آیا کہ کہیں عائشہ کھلے مین ہول میں نہ گر گئی ہو۔بذریعہ ٹارچ لائٹ تلاش شروع ہوتے ہی گھر کے باہر موجود کھلے مین ہول کے گندھے پانی پر تیرتے ہوئے جوتے نے عائشہ کی موجودگی کی اطلاع دے دی ۔معلوم ہوتے ہی اُسے مین ہول سے نکال لیا گیاپر تب تک بڑی دیر ہوچکی تھی۔تقریبا 4سے5گھنٹے یخ ٹھنڈے، سیوریج کے گندھے پانی میں ڈوب کر معصوم عائشہ جاں بحق ہوچکی تھی۔جنرل ہسپتال لیجانے پر ڈاکٹرز نے بھی موت کی تصدیق کردی جس پراہل علاقہ میں دغم وغصہ کی لہر دوڑ گئی اوروہ مشتعل ہوکر مین فیروزپور روڈ پر پہنچ گئے۔
عائشہ کی میت کو سڑک پر رکھ دیا گیا اور تمام اہل علاقہ احتجاجاً سڑک پر بیٹھ گئے اُس کے بعد جو کچھ ہوا وہ آپ5دسمبر کے اخبارات میں پڑھ ، نیوز چینلزپر دیکھ اور سن چکے ہیں۔جن دوستوں نے ایسی کوئی خبر پڑھی یاسنی نہیں اُن کی معلومات کیلئے مختصر کہ مقامی پولیس نے مظاہرین کو سڑک سے ہٹانا چاہا پر رات دیر گئے تک کامیاب نہ ہوسکی۔جس کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کو واقع کی اطلاع ہوئی تو انھوں نے نوٹس لے کر ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کے احکامات جاری کردیے۔ڈی سی اور لاہورنے متعلقہ چیف کونسل آفیسر رائوعمرفاروق کو معطل جبکہ دیگر کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا۔عائشہ کے والد کی درخواست پر c oکاہنہ رائوعمر فاروق اور دیگر عملہ کے خلاف ”بجرم322ب،ت ”ایف آئی آر نمبر 135/14درج کرلی گئی۔
عائشہ کے والد محمد عباس نے درخواست میں موقف اختیار کیا کہ اہل علاقہ نے متعد دبارچیف کونسل آفیسر رائو عمر فاروق کو دفتر جاکر درخواست کی کہ گٹروں کے ڈھکن لگوادیں پر انہوں نے کسی بات کی پروا نہ کی ،جسکی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے عرصہ دراز نے گٹروں کے ڈھکن نہیں لگائے گئے۔ ہماری بچی کی جان چیف کونسل آفیسر اور دیگر عملہ کی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے گئی ہے۔ لہٰذا ذمہ داروں کے خلاف محکمانہ کارروائی کے ساتھ ساتھ مقدمہ درج کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔ہم جانتے ہیں کہ کرپشن،غفلت اور لاپرواہی ہمارے سرکاری دفاتر کا معمول ہے۔جناب اعلیٰ عائشہ بد قسمت رہی کہ اُسے کھلے مین ہول میں گرتے کسی نے نہ دیکھا ورنہ کچا شہزادہ روڈ پر روزانہ بچے ،بزرگ اور عورتیں کھلے مین ہولز میں گرتے رہتے ہیں جن کو آس پاس موجود لوگ فوری طور پر نکال لیتے ہیں ۔گٹرمیں گر کرچوٹیں لگنا تو ہمارے لیے معمول کی بات ہے۔
جیسا کہ آپ جانتے ہمارے ملک میں سانحات اور حادثات رونما ہونے کے بعد حکومتی مشینری حرکت میں آجاتی ہے۔یہاں بھی ایسا ہی ہوا معصوم عائشہ کے جاں بحق ہونے کے بعد سالوں سے کھلے درجنوںمین ہولزکو راتوں رات ڈھکن نصیب ہوگئے۔صبح تک نہ صرف کچاشہزادہ روڈ بلکہ ارد گرد کھلے مین ہولز پر لگائے جانے والے ڈھکنوں کی پرانی اور استعمال شدہ حالت صاف بتا رہی تھی کہ اُنھیں کسی دوسرے علاقے کے گٹروں سے اُٹھایا گیا تھا ۔عائشہ کے والدین اور اہل علاقہ کے جذبات کو ٹھنڈاکرنے کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب نے نوٹس بھی لے لیا ،ڈی سی او لاہور کے حکم پر متعلقہ آفیسر جوکچھ روز قبل کرپشن،خزانے میں خرد برد اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی وجہ سے معطل تھے کو ایک بار پھر معطل اور دیگر ذمہ داران کیخلاف مقدمہ بھی درج ہوگیا۔ آگے کیا ہوگا؟ ۔جی ہاں وہی کچھ ہوگا جو پہلے ہواکرتا ہے۔
سارے علاقے کے چوہدری غریب مدعی کے گھر جائیں گے اور چنددنوں بعد کچھ مالی امداد کے بعد مدعی تمام ذمہ داران کو معاف کردے گا۔قصہ مختصر پھر سے وہی کھلے مین ہولز کسی عائشہ کو نگلنے کیلئے تیار ہوجائیں گے۔بدقسمتی سے راقم بھی کاہنہ نو کچا شہزادہ روڈ کا رہائشی ہے ۔یہ علاقہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے انتخابی حلقہPP159میںواقع ہے۔مقامی ایم این اے محترمہ شازیہ مبشراقبال کی خدمت میں کئی بار اپنے مسائل پیش کرچکے ہیں جبکہ راقم کئی مرتبہ اپنے مضامین میں وزیر اعلیٰ پنجاب جناب میاں محمد شہباز شریف کوکچاشہزادہ روڈ کے مسائل کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرچکا ہے۔
Election
الیکشن 2013ء سے قبل5 سالہ دور حکومت میں ہمارے پنجاب اسمبلی کے حلقہPP-159 اور قومی اسمبلی کے حلقہ NA-129 دونوں میں پیپلزپارٹی کے اُمیدوار کامیاب ہوئے اور پنجاب میں حکومت مسلم لیگ(ن) کی بن گئی جس کی وجہ سے کسی نے ان حلقوں کے مکینوں کی فریاد نہ سنی ۔راقم خادم اعلیٰ کبھی ہمارے گلی آئونا، وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخابی حلقہ کا اہم مسئلہ کے عنوان سے اور اس کے علاوہ متعدد بار کچا شہزادہ روڈ کاہنہ نو کی حالت زارکے متعلق فریاد کرچکا ہے۔ میری فریاد ہر بار بے اثر رہی ۔کچھ عرصہ قبل کچا شہزادہ روڈکی تعمیر نو کیلئے 40لاکھ روپے کے فنڈ جاری ہوئے تو یوں لگا جیسے اب سالوں پرانا کیچڑ ،کھلے مین ہولز، اور کھڈے ختم ہوجائیں گے
پرہماری قسمت ایسی کہاں،ٹھیکیدار آیا اور سیوریج کی چلتی ہوئی لائن کے ساتھ ایک نئی پائپ لائن بچھا کر روڈ کو ہموار کئے بغیر رخصت ہوگیا ۔اہل علاقہ نے اپنی مدد آپ کے تحت راستہ ہموار کیا ۔40لاکھ کا فنڈ استعمال ہونے کے بعد روڈ کی حالت بجائے بہتر ہونے کے مزید خراب ہوگئی ہے جس کی وجہ سے بچوں کو سکول لے جانے والی وین کے مالک نے کچاشہزادہ روڈ سے بچوں کو اُس وقت تک سکول پہنچانے سے انکار کردیا جب تک روڈصاف، ہموار اور کھلے مین ہولزبند نہیں ہوجاتے۔میں گزشتہ 30سال سے دیکھ رہا ہوںکہ اس روڈ کی حالت کبھی نہیں سدھری،تازہ حادثے سے قبل ہم سوچ رہے تھے کہ بچوں کو محلے کے کسی کھوتی سکول میں داخل کروانا پڑے گایا پھر سوچتے ہیں کہ کسی چائے کے ہوٹل یا پنکچر کی دوکان پر کام سیکھنے بھیج دیا جائے تاکہ کھوتی سکول میں پڑھ کر کھوتے بننے کی بجائے چائے یا پنکچر کا کام سیکھ کراپنے پائوں پر کھڑے ہوجائیں۔
کیا کریں والدین ہیں دل کرتا ہے بچے پڑھیں لکھیںاور اپنے مستقبل کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کا مستقبل بھی روشن کریں ۔بلدیاتی الیکشن نہ ہونے کے باعث ہماری کہیں شنوائی نہ ہے ۔اس لئے آج پھر اپنے حلقہ کے ایم پی اے میاں محمد شہباز شریف کے دربار میں فریاد پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں جو خوش قسمتی سے وزیراعلیٰ پنجاب بھی ہیں اور اُس سے بھی بڑی خوش قسمتی یہ کہ اُن کے ترقیاتی منصوبوں کی کامیابی کی وجہ سے پوری دنیا میں جانے جاتے ہیں ۔ کبھی اپنے انتخابی حلقے کا چکر لگا کر دیکھیں کہ وہاں لوگ کس حال میں زندگی گزار رہے ہیں۔الیکشن2013ء کے موقع پر مسلم لیگ ن کے رہنمائوں نے اہل علاقہ کو یقین دلایا تھا کہ میاں شہباز شریف اس حلقے سے ایم پی اے منتخب ہوگئے تو وہ اپنے حلقہ کے تمام ترقیاتی کام مکمل کرواکے علاقہ شیشے کی مانند صاف اور شفاف بنادیں گے۔آج حلقہ کے مسائل کو میاں شہباز شریف کی توجہ درکار ہے۔اللہ کرے کہ وہ وقت جلد آئے تاکہ پھر کوئی معصوم عائشہ کھلے مین ہول کی نظرنہ ہو