کپتان کی فاتحانہ اور طوفانی اننگز

Imran khan

Imran khan

تحریر: لقمان اسد
کپتان کی طوفانی اننگز نے حکمران جماعت کے چھکے چھڑا رکھے ہیں حکومت کسی نہ کسی انداز میں ان کے کسی ایک اقدام کو بے اثر کرنے میں مصروف ہوتی ہے تو اگلے قدم پر انہیں اس سے بھی بڑا جھٹکا لگتا دکھائی دیتا ہے۔
اِک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

منیر نیازی کے اس شعر کے مصداق ہر روز نئی الجھن اور مسائل کے نئے بھنور میں حکومتی کشتی گرتی نظر آتی ہے۔30نومبر کو اسلام آبادکے اجتماع عام میں کپتان نے ملک کے بڑے شہروں کو بند کرنے کااعلان کیا تو حکومت نے اپنی مخصوص لابی کو تاجربرادری کے نام پر اس کے سامنے لاکھڑا کیا۔کراچی ، لاہور اور فیصل آباد کی مخصوص تاجر تنظیموں کے کرتا دھرتائوں سے اعلانات کروائے گئے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کو ایسے اقدام قطعاً اٹھانے نہ دینگے لیکن پہلے مرحلے میں فیصل آباد کی وکلاء برادری نے اپنا وزن کپتان کے پلڑے میں ڈالتے ہوئے ان کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا اور تحریک انصاف کے احتجاج میں شامل ہونے کا عندیہ دیکر حکومتی ایوانوں میں ہلچل مچادی۔فیصل آباد کے عابد شیر علی اور طلال چوہدری کیلئے نیا امتحان کھڑا ہوگیا ہے پریشانی کے اس عالم میں وہ دیواروں سے سرٹکراتے نظر آتے ہیں اور ان کے لہجے کی بیہودگی ان کے اس عالم مدہوشی کو واضح کرتی ہے کچھ بھی انہیں سجھائی نہیں دیتا۔اُدھر سندھ میں سید غوث علی شاہ نے ن لیگی قیادت کو اپنی بھرپور تنقید کانشانہ بنایا ہوا ہے یہ اطلاعات بھی ہیں کہ غوث علی شاہ جو حالیہ الیکشن میں دھاندلی کے سبب اپنی سیٹ ہارگئے تھے انہوں نے الیکشن کمیشن میں دھاندلی کے حوالے سے رٹ دائر کر رکھی تھی ان کی رٹ پر فیصلہ آگیا ہے۔ وہ اپنی سیٹ پر کامیاب قرار دیے جاچکے ہیں۔

وہ اب قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پر بھی ن لیگ کو آڑے ہاتھوں لیں گے۔پنجاب میں ذوالفقارعلی کھوسہ بھی ن لیگ کے خلاف باقاعدہ طور پر میدان عمل میں دکھائی دیتے ہیں ۔منڈی بہائوالدین سے تعلق رکھنے والے اعجاز چوہدری نے حال ہی میں ن لیگ کو خیر باد کہ کر پاکستان تحریک انصاف کو جوائن کیا ہے اعجاز چوہدری اپنی کہانی یوں بیان کرتے ہیں الیکشن 2013میں وہ اور ممتاز تارڑ ایک ہی حلقہ سے مسلم لیگ ن سے ٹکٹ لینے کی دوڑ میں شامل تھے آخر وقت تک انہیں میاں برادران کی طرف سے یہ یقین دلایا جاتا رہا کہ انہیں ہرصورت ٹکٹ دیکر امیدوار بنایا جائے گا لیکن وعدوں کے باوجود پارٹی ٹکٹ ان کے بجائے ممتاز تارڑ کو دیدیا گیا۔

انہوں نے ممتاز تارڑ کا مقابلہ ایک آزاد امیدوار کے طور کیا اور شکست ممتاز تارڑ کا مقدر ٹھہری۔فتح یاب ہونے کے باوجود اعجاز چوہدری نے غیر مشروط طور پر مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی مگر اس کے باوجود ان کے مدمقابل شکست کھانیوالے لیگی امیدوار ممتاز تارڑ کو میاں برادران نوازتے رہے اور انہیں مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا۔انہی وجوہات کی پیش نظر اعجاز چوہدری نے مسلم لیگ ن کو خیر باد کہا اور تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔

PML N

PML N

ایک طرف عمران خان جہاں مسلم لیگ ن کیلئے مشکلات کھڑی کررہے ہیں وہاں اندر کی کہانی یہ بات بھی عیاں کرتی ہے کہ خود مسلم لیگی قیادت بھی اپنی خامیوں کی اصلاح نہ کرنے کے سبب اپنے دیرینہ ساتھیوں سے محروم ہوتی نظر آتی ہے اور روز افزوں اپنے لیے گھمبیر مسائل پیدا کررہی ہے ۔حکومتی رٹ کو جہاں تین ماہ سے زائد عرصہ سے جاری عمران خان کے دھرنے نے پریشان کررکھا ہے وہاں ن لیگ کے اندر پھوٹتے اختلافات نے بھی بڑی زک پہنچائی ہے۔ن لیگ کی حکومتی کارکردگی اور حکومتی رٹ کو پنجاب پولیس نے بھی کئی نئے صدمات سے دوچار کررکھا ہے ابھی سانحہ ماڈل ٹائون کی بازگشت کی گونج سروں سے ٹکرارہی تھی کہ ڈیوس روڈ پرنابینائوں کے جلوس پر پنجاب پولیس کے شیر جوانوں کے لاٹھی چارج نے مسلم لیگی حکومت پر مخالفین کو انگلیاں اٹھانے کا ایک اور جواز فراہم کردیا اس سے بڑی مشکل ن لیگ کی حکومت کو اور کیا ہوسکتی ہے کہ پولیس کی بھاری نفری کے باوجود ہر تقریب میں اسے گونواز گو کے نعروں کا سامنا ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی جو اس اعصابی جنگ میں مسلم لیگ ن کو مکمل سپورٹ فراہم کررہی تھی مسلم لیگ ن سے عوامی نفر ت اور پارٹی کے تانے بانے بکھرتے دیکھ کر اب اس کے قدم بھی پیچھے ہٹتے نظر آتے ہیں۔جب کہ کل جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سردار سیف الدین کھوسہ،سابق ایم این اے ملک نیاز احمد جکھڑ اور سابق ایم این اے سردار بہادر احمد خان سیہڑ بھی تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کرچکے ہیں۔ان تینوں رہنمائوں کا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی سے تھاانہی عوامل کے پیش نظر 30نومبر کو ہی لاہور کے بلاول ہائوس میں پارٹی کی یوم تاسیس کی تقریب اور ورکرزکنونشن کے موقع پر کارکنوں کی طرف سے لگائے جانے والے جذباتی نعروں نے پیپلزپارٹی کی قیادت کو یوٹرن لینے پر مجبور کیا ہے

۔ سیاسی جماعتیں عوام میں جدوجہد کرتی نظر آئیں تو اس کے کارکن اور پارٹی ورکرز میں جوش وجذبہ برقرار رہتا ہے اگر وہ عوام کی بات چھوڑ کر مفادات کے نام پر جمہوریت بچائو کے ہی محض نعرے پر ڈرائنگ رومز کی سیاست پر اکتفا کرلیں تو ان کا ورکر مایوس ہوکر بیٹھ جاتا ہے یہی کچھ پیپلزپارٹی کے ساتھ ہورہا ہے اوربظاہر تو یہی لگتا ہے کہ وہ دھیرے دھیرے ن لیگ کی حمایت کے اپنے فیصلے سے دستبردار ہوتی نظر آتی ہے۔پیپلزپارٹی کا یہ یوٹرن شاید ن لیگی حکومت کیلئے عمران خان کے دھرنے کی طرح ایک کاری وار ثابت ہو اور اس کے بعد شاید حکومت کرنا مسلم لیگ ن کے بس میں نہ رہے ۔واقفان حال کو اندر کی ایک بات یہ بھی بتاتا چلوں کہ ن لیگ کے ممبران اسمبلی محض اقتدار کے مزے لوٹنے کیلئے شریف برادران کے ساتھ کھڑے ہیں۔

Luqman Asad

Luqman Asad

تحریر: لقمان اسد