لاہور میں مال روڈ پر معذوروں کے عالمی دن کے موقع پر اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرہ کرنے والے نابینا افراد پر پولیس نے لاٹھی چارج کردیا جس سے متعدد معذور افراد زخمی ہو گئے۔ نابینا افراد پریس کلب سے وزیر اعلیٰ ہاؤس جانے کیلئے جب مال روڈ پر پہنچے تو کلب چوک پر صدر مملکت ممنون حسین کے گزرنے کیلئے پروٹو کول لگا ہوا تھا جس پر پولیس نے نابینا افراد کو آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کی اور تشدد کیا۔ جب پولیس کی اس بہادری پر میڈیا اور سول سوسائٹی نے شور کیا تو وزیراعظم نواز شریف کی صابزادی مریم نوازنے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا کہ اگر ابا اور چچا پاکستان میں موجود ہوتے تو شاید ایسا نہ ہوتا۔ مریم نواز کے ابا نواز شریف جو غیرملکی دوروں کا ایک ریکارڈ بناچکے ہیں انگلینڈ کے دورئے پر اور اُنکے چچا وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف جو غیراعلانیہ پاکستان کے وزیر خارجہ بھی ہیں قطر کے دورئے پر تھے۔ مریم نواز اپنے ٹویٹ میں قوم کو یہ پیغام دئے رہی تھیں کہ اُنکے ابا اور چچا جب ملک میں موجود ہوتے ہیں تو سب کچھ اُنکی مرضی سے ہوتا ہے، جبکہ مسلم لیگ(ق)کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات سنیٹر کامل علی آغا کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہر محاذ پر فیل ہوچکی ہے اوراب وہ ہر کام لاٹھی گولی کے زریعے کرنا چاہتی ہے۔
تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے والےنواز شریف کا انداز حکومت اُنکے پہلے دو ادوار سے بھی زیادہ خراب ہے، ایک سال وہ قومی اسمبلی یا سینٹ میں جھانکے بھی نہیں، دہشت گردی ، قتل و غارت گری ، لاقانونیت، مہنگائی اور بےروزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے۔ عمران خان گذشتہ ایک سال سے انتخابی دھاندلی کا شور مچارہے ہیں، لیکن نواز شریف کو غیرملکی دوروں اور اپنے کاروبار سے فرصت ہو تو کچھ کرتے۔ نواز شریف اور اُنکے ساتھی یہ کہتے ہیں کہ عمران خان جو انتخابی نتایج پر احتجاج کررہےدراصل وہ جلدہی میں ہیں، وہ وزیراعظم بننا چاہتے ہیں، عمران خان جلدہی میں ہیں یا نہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن یہ صاف نظر آرہا کہ شریف برادران کا اس مرتبہ انداز حکومت بھارتی فلموں کے ڈان جیسا لگتا ہے۔ ڈان کی خصوصیت یہ دیکھی گی ہے کہ وہ صرف اپنے فاہدئے کی فکر کرتا ہے، اپنے فاہدئے کو حاصل کرنے کےلیے ڈان کو نہ کسی کی جان کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی کسی کے نقصان کی، اور اس مرتبہ شریف برادران کو عام لوگوں کا خون تک بہانے میں بھی کوئی ہچکچاٹ نہیں۔ 17 جون کو لاہور میں ماڈل ٹاوُن میں ادارہ منہاج القران پر پنجاب پولیس نے چڑھائی کردی، منہاج القران کے ورکروں پر سیدھے فائر کیےگے، جس سے 14 لوگ جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں زندگی کی بازی ہار گے جبکہ 90 کے قریب لوگ زخمی ہوئے۔ 31 اگست کو اسلام آباد میں پنجاب پولیس نے دھرنے کے شرکا پر گولی چلائی جس سے کم از کم چار لوگ ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگے۔ 17 جون اور 31 اگست کو مریم نواز کے ابا نواز شریف اور چچا شہباز شریف دونوں ملک میں موجود تھے۔
عمران خان نے فیصل آباد میں ہڑتال کی اپیل کی تھی، فیصل آباد کی تاجر برادری، وکلا اور ٹرانسپورٹ کھل کر دو حصوں میں بٹ گے تھے، آدھے ہڑتال کے حامی تھے اور آدھے نہیں، یہ بات حکومت کے حق میں جارہی تھی، لیکن شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار اور خود شہباز شریف کے صابزادئے حمزہ شہباز عمران خان کو فیصل آباد میں سبق سکھانے کا پروگرام بناچکے تھے، یہ ہی وجہ ہے کہ حکومتی وزرا کی طرف سے پی ٹی آئی اور عمران خان پر تابڑ توڑ حملے کیے جارہے تھے، رانا ثناءاللہ اور عابد شیر علی کی جانب سےدھمکی آمیز بیانات دیئے جارہے تھے۔ سات دسمبر کی شام کو مسلم لیگ (ن) اپنے کارکنوں کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف فیصل آباد کے روڈوں پر لےآئی، دونوں طرف سے زبردست نعرئے بازی ہوئی اور ان حالات کو دیکھ کر میڈیا یہ ہی رپورٹ کررہا تھا کہ نون لیگ کا اپنے کارکنوں کو پی ٹی آئی کے مدمقابل لانے کا انجام برا ہوگا۔ میڈیا کے زریعے دوسرئے سیاسی رہنما بھی کہہ رہے تھے کہ پی ٹی آئی کےاحتجاج کے دوران اگر کوئی خراب صورتحال پیدا ہو تو اُسکو پولیس کے ذریعے کنٹرول کیا جائے نہ کہ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے زریعے آٹھ دسمبر کی صبح تقریبا آٹھ بجے نون لیگ اپنے کارکنوں کوسڑکوں پر لے آئی۔
PTI Protest
ابھی پی ٹی آئی کے کارکنوں کا دور دور پتہ نہیں تھا۔ نواز شریف کے کارکنوں نے پی ٹی آئی کے بینر پھاڑنے شروع کردیے ، ابھی وہ یہ کرہی رہے تھے کہ پی ٹی آئی کے کارکن آنے شروع ہوئے اور پھر دونوں طرف سے ایک دوسرئے کے بینر پھاڑئے گئے، “گو نواز گو” اور “رو ُعمران روُ” کے نعرئےایک دوسرئے کے مدمقابل آکر لگائے گے ۔پولیس موجود تو تھی لیکن وہ اپنی ذمیداری پوری کرنے سے قاصر تھی۔ساڑھے دس بجے کے بعد اچانک ایک شخص نے پی ٹی آئی کے کارکنوں پر سیدھی سیدھی فائرنگ کردی ، اس فائرنگ کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے احتجاج میں شریک ایک نوجوان کارکن حق نواز جسکی عمر شاید 25 سال کے قریب تھی گولی لگنے کی وجہ سے موت کا شکار ہوگیا، بدقسمت مرحوم حق نواز کی صرف چار روز بعد شادی تھی۔
عمران خان اپنے پلان “سی” کے مطابق فیصل آباد میں آٹھ دسمبر کو احتجاج کا اعلان 30 نومبر کو کرچکے تھے۔ آٹھ دسمبر کو نواز شریف اور شہباز شریف دونوں ملک میں موجود تھے لہذا آٹھ دسمبرکو جو کچھ فیصل آباد میں ہوا وہ دونوں شریفوں کی مرضی سے ہوا۔ 1977ء کے انتخابات کےبعد پی این ائے نے ذوالفقار علی بھٹو پر الزام لگایا کہ انہوں نے انتخابات میں دھاندلی کی ہے ، پی این ائے نے بھٹوکے خلاف تحریک چلائی، اُس زمانے میں پیپلز پارٹی چاروں صوبوں میں موجود تھی اور بھٹو کے پاس اسٹریٹ پاوربھی موجود تھی۔ پی این ائے پورئے ملک میں جلسے جلوس کے زریعے بھٹو کےخلاف تحریک چلارہی تھی، بھٹو نے تشدد بڑھنے کی وجہ سے کراچی اور لاہور میں مارشلا لگایا، پولیس کے زریعے احتجاج کرنے والوں کو قابو کرنے کی کوشش کی لیکن ایک مرتبہ بھی پیپلز پارٹی کے ورکرز کو پی این ائے کے احتجاج میں شامل لوگوں کے مدمقابل نہیں لائے اور نہ ہی پیپلز پارٹی کے ورکر خود پی این ائے کے لوگوں کے مدمقابل آئے۔ مسلم لیگ (ن) نےاپنے کارکنوں کو پی ٹی آئی کے احتجاجیوں کے سامنے لاکر اور پھر پی ٹی آئی کے ایک ورکر کو مارکر یہ تو بتادیا کہ نواز شریف اور اُنکے حواری سیاسی طور پر اتنے دیوالیہ ہوچکے ہیں کہ وہ اب سیاست کا جواب سیاست سے نہیں بلکہ غنڈہ گردی سے دینگے۔فیصل آباد کی اس غنڈہ گردی کو رانا ثناءاللہ اور عابد شیر علی کی پوری پشت پناہی حاصل تھی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان کی گاڑی پر پتھر اور انڈئے مارئے گے۔
پی ٹی آئی کے مرحوم کارکن پر جب اُسکا قاتل گولی چلارہا تھا تو پولیس اُس کے بہت قریب موجود تھی لیکن چونکہ پولیس کو یہ حکم تھا کہ غنڈوں اور قاتلوں کو کچھ نہ کہا جائے، یہ ماڈل ٹاون کے سانحہ کا ری پلے تھا صرف اس فرق کے ساتھ کہ ماڈل ٹاون کے گلو بٹ نے گاڑیوں کے شیشے توڑئے تھے جبکہ فیصل آباد کے گلو بٹ کو بندئے مارنے کا حکم ملا تھا۔ اُس بندئے کا نام کیا تھا یہ بےکار کی بحث ہے جس میں الجھاکر رانا ثناء اللہ اُسکو بچانا چاہ رہا ہے، یہ بندہ کہاں گیا اسکے لیے پولیس کو صرف ایک ڈیرئے پر چھاپا مارنا ہوگا، اور وہ ڈیرہ ہے رانا ثنا اللہ کا، قوی امکان ہے کہ حق نواز کا قاتل وہاں ہی ملے گا، لیکن اس چھاپے کا حکم کوئی بھی نہیں دیگا۔ مسلم لیگ (ن) کی اس غنڈہ گردی سے لازمی نواز شریف بھی واقف ہونگے اور شہباز شریف بھی کیونکہ بقول مریم نوازاُنکے ابا اور چچا جب ملک میں ہوتے ہیں تو پھر سارئے کام اُن کی مرضی سے ہوتے ہیں، لگتا ہے مسلم لیگ (ن) شاید اس سیاست کی موجد بننے جارہی ہے کہ گلی کا غنڈا گلی کا لیڈر، محلے کا غنڈا محلے کا لیڈر، شہر کا غنڈا شہر کا لیڈر اور ملک کا غنڈا ملک کا لیڈر۔ وزیراعظم نوازشریف کو یہ بات سمجھ لینا چاہئے کہ حکومتیں غنڈہ گردی سے نہیں چلا کرتیں، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نواز شریف کو فیصل آباد میں مسلم لیگ (ن) کی غنڈہ گردی بہت مہنگی پڑئے گی، شاید یہ غنڈہ گردی اُنکی سیاسی موت بن جائے۔