تحریر: سید عرفان احمد شاہ آپ کے دربار سراپا اقدس کو عرصہ نو سو سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود الحمدللہ مر جع خلائق ہے اور انشاء اللہ رہتی دنیا تک عالم کو اپنے فیض گنجینہ سے سرفراز کرتا رہے گا۔ اقلیم تصوف کے نیر، حجت الکا ملین۔ سلطان طریقت، برہان شریعت، آفتاببِ رشد، ہدایت، المخدوم، السید، ابو الحسن، علی بن عثمان ہجویری الغزنعی المعروف داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ نے سب سے پہلے سر زمین ہند میں قدم رنجا فرمایا۔ آپ کے یہا ں تشریف لانے سے کفر کے گھنے سائے چھٹنے لگے۔ کفر سے آراستہ محلات میں لرزہ طاری ہو گیا۔ پیغام حق نے کفر یہ طاقتوں پہ جیسے یلغار کر دی۔آپ 5 ویں صدی ہجری میں غزنی سے ہندوستان تشریف لائے۔ آپ نے لاہور میں اقامت فرمائی اور لاہور ہی میں آپ کا وصال ہوا۔ گنج بخش کی وجہ سے تسمیہ خزینتہ الصیفا ء میں یہ بیان کی گئی ہے کہ حضرت خواجہ خواجگان سیدنا معین الدین اجمیری رحمتہ اللہ علیہ نے کچھ عرصہ آ پکی مرقد مبارک پر چلہ فرمایا ۔ کچھ عرصے متعکف رہنے کے بعد آپ کے لب مبارک پہ از خود یہ شعر جاری ہو گیا۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا نا قصاں پیر کامل کاملاں رارہنما
حضرت داتا گنج بخش کا اسم گرامی علی اور کنیت ابو الحسن ہے آپکی ولادت با سعادت افغانستان کے ایک مردم خیز خطے غزنی میں ہوئی جو بت شکن سلطان محمود غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کا آبائی وطن ہے۔ جس مٹی کی تاریخ غلامی پر موت کو تر جیح دے اس وطن سے آپ کا تعلق ہے۔ غزنی کے دو محلے تھے۔ ایک کا نام جلاب اور دوسرے کا نام ہجویر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک محلے میں آپ کے دحدیالی اور دوسرے محلے میں آپ کی ظاہری حیات طیبہ کا کچھ عر صہ محلہ جلاب اور کچھ عرصہ محلہ ہجویر میں بسر ہوا۔ اسی لئے آپ کے اسم گرامی کے ساتھ یہ دونوں نسبتیں مز کور ہیں۔ اپنی کتاب کشف ا لمجوب میں آپ نے اپنا نام نامی یوں رقم فرمایا۔ علی بن عثمان بن الجلابی ا لغزنی ظم ہجویری ۔ سوا نح نغاروں نے آپ کا سلسلہ نسب یوں بیان فرمایا۔علی ہجویری بن عثمان بن علی بن عبدالر حمن بن شجاع بن ابو الحسن علی بن حسن اصغر بن زید بن امام حسن بن سیدنا علی المرتضی و جہہ کریم ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ ہاشمی اور سید اور حسینی ہیں۔ غزنی میں آپ کا خانوادہ مقدسہ وہاں عام و خاص کی آنکھوں کا مر کز نگاہ تھا۔
آپ کی والدہ ماجدہ عابدہ زاہدہ سیدہ خاتون تھیں گویا حسن جمال اور حسینی جلال کی جملہ رعنائیاں آپ کی ذات با برکات میں بد رجہ اتم موجود ہیں۔ آپ کے ماموں تاج الاولیاء کے لقب سے مشہور ہیں۔ داراشکوہ جب اپنے والد کے ہمراہ ا فغانستان کی سیر کے لئے گیا تو اس نے دربار پر انوار تاج الا ولیا ء پر حاضری دی۔ حضرت تاج الاولیا ء کے مزار کے ساتھ ہی ان کی ہمشیرہ یعنی حضرت داتا گنج بخش کی والد ہ ماجدہ کا دربار مبارک بھی ہے۔ تاریخ دانوں نے آپ کے ذاتی اور خاندانی حالات کے بارے میں بڑے اختصار سے کام لیا ہے اس لئے تفضیلات کی جستجو کرنے والوں کی تشنگی برقرارہتی ہیں یہاں تک کہ آپ کے سال ولادت با سعادت کے بارے میں بھی تذکرہ نگاروں میں اتفاق رائے نہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آپ کا سال ولادت 400ہجری ہے۔ سیدنا داتا حضور نے اپنی ولادت با سعادت کے بارے میں کچھ نہیں تحریر فرمایا۔آپ کے حالات زندگی سے متعلق با وثوق مر جع آپ کی تصنیف کشف المجوب ہے۔
اسی کے مطالعہ سے آپ کی ظاہری حیات طیبہ پر روشنی پڑتی ہے۔ آپ نے اپنی کتاب میں جگہ جگہ ارشاتا ارشاد فرمایا ہے کی آپ کو بچپن ہی سے حصول علم کا جنون تھا۔ آپ کو یہ جنون بے چین کئے رکھتا تھا۔ آپ اپنے زمانے کے جلیل القدر علما ئے حق کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر ان سے فیض یاب ہوئے۔ آپ نے حصول علم کے لئے شام، عراق، بغداد، مدائن، فارس، آذربا ئیجان، طبرستان، خودستان، خراسان، اور ماورا ء انینان کے مشہور علما فضلا ء حق سے شرف تلمند حاصل کیا۔ حصول علم راہ میں آنے والی صعوبتیں بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کیں۔ علوم و مصارف کے سمندر پی جانے کے باوجود شوق علم کے سفر میں ذرہ برابر کمی نہ آئی۔ آپ خود فرماتے ہیں۔ کہ فقط خراسان میں تین سو مشائخ کی خدمت اقدس میںحاضری دی اور انکے علم وحکمت کے پر بہار گلستانوں سے گل چینی کر کے اپنے پاک دامن مارک کو خوب بھرتا رہا۔ آپ کے بیشمار اساتذہ میں سے شیخ ابو العاس احمد بن محمد الا شقائی، شیخ ابو القاسم، علی گر گائی سر فہر ست ہیں۔
پر وفیسر نکلسن کیمبرج یونیووورسٹی نے کشف المجوب کا انگریزی ترجمع کیا۔ وہ آپ کے شوق علم کے بارے میں لکھتے ہیںکہ آپ نے اسلامی مملکت کے دور دراز علا قوں کا سفر ا ختیار کیا ۔ شام سے ترکستان تک، سندھ سے بحر کیپسن تک کا علاقہ آپ کی دسترس میں رہا ۔ تحصیل علم کے بعد آپ نے مرشد کامل کی تلاش میں طویل سفر کئے۔ آپ کی طلب صادق پر رحمت الٰہی نے آپ کی رسائی اس شیخ کامل اکمل تک کر دی جن کے حسن تربیت اور فیض نظر کے با عث آپ پر معرفت آفتاب عالم تاب بن کر طلوع ہوے اور آج تک دنیا آپ کی ضوفشانیوں سے فیض یاب ہو رہی ہے۔ اولیا ء کا ملین کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک بات ہمیں قدر مشترک نظر آتی ہیں کہ یہ نفوس قدسیہ پہلے ثاہری علوم میں مہارت وکمال حاصل کرتے ہیں اور اسکے بعد جادواں عشق و محبت والٰہی پر قدم رکھتے ہیں اوراس وقت تک مصروف جہاد رہتے ہیں جب تک شاہد حقیقی ان شوق کی بے تابیوں پر رحا فرماتے ہوئے حریم ذات کے دروازے ان کے لئے کھول نہ دے۔ آپ کے مرشد کامل کا سم گرامی شیخ ابو الفضل بن حسن ختلی رحمتہ اللہ علیہ ہے۔ جو سلسلہ منیدیہ کے شیخ کامل تھے۔ آپ کئی سال شبانہ روز مرشد اکمل کی خدمت اقدس میں حاضر رہے یہاں تک کہ جب آپ کے مرشد نے دار فانی سے پردہ فرمایا تو ابو الفضل ختلی رحمتہ اللہ علیہ کا سر مبارک آپ داتا ری علی ہجویری کی گود میں تھا۔ حضرت داتا گنج بخش ہجویری رحمتہ اللہ علیہ حضرت امام اعظم حضرت ابو حنیفہ رضی اللہ تعا لٰی عنہ کے مقلد ہیں۔ آپ کی عقیدت، محبت وعشق امام ابو حنیفہ سے بے پناہ ہے۔
Hazrat Data Gunj Bakhsh
کشف المجوب میں جہاں بھی امام اعظم کاذکر مبارک آیا آپ نے معزز القابات کے ساتھ آ پکو یاد فرمایا۔ کہیں آپ نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کو امام اماماں مقتدائے سنیاں کہاہے ۔ تو کہیں فقہ کے معتبر ناموں سے یاد فرمایا حضرت داتا گنج بخش مرشد کامل کے وصال کے بعد آپ نے اپنے آبائی وطن غزنی کو خیر باد کہا اور تبلیغ اسلام کی تڑپ آپ کو کشاںکشاں بت کدا ہند کی جانب لے آئی۔ اس وقت آپ کے ہمراہ دو دوست شیخ احمد سرجنی اور شیخ ابو سعید ہجویری بھی تھے۔ اسلام کے روشن اسلاف کے یہ روشن مبلغین ا گرچہ تعداد میں صرف تین تھے پر باوجود اس کے ماحول کی امنیت سازوسامان کے فقدان ، مخالفین کا جورو جبر، طوفان بد تمیزی، تشدد، تعصبالغرض کسی بھی چیز کو کبھی خاطر میں نہ لائے۔ ملت اسلامیہ کا یہ روشن مینار فریضہ دین ملت حنیفہ لیلئے لا ہور کی جانب روانہ ہوئے تو راستے بھر کفر و ظلمت کے اندھیروں میں توحید کی شمع فروزاں کرتے ہوئے آئے۔ جب سر زمین لاہور ان نفوس قدسیہ کی قدم بوسی سے سرفراز ہوئی تو اس وقت لاہور کا حاکم مسعود غزنوی تھا۔ جو محمود غز نوی کا بیٹا تھا۔ اس کا عہد حکومت 421 ہجری تا432 ہجری ہے۔ لاہور میں آپ کی آمد کے سال کا تعین مشکل ہے اگر آپ کا وصال465 ہجری تسلیم کیا جائے تو شہر خوش قسمت لاہور میں آپ کے قیام کی مدت عرصہ 30سال سے زائد بنتی ہے ۔ اس تمام عرصہ مبارک میں شبانہ روز آپ نے تبلیغ دین ملت حنیفہ کو جاری و ساری رکھا ۔آپ کی بے داغ، دلکش، خو بصورت اور پر نور شخصیت مبارکہ قول و فعال کی یکساں طور پر عملی مظاہر ہیں۔
ولی قلندر کے منصب کے سبب آپ کے و عظ کا ایک ایک لفظ مبارک لوگوں کے قلوب کو دین اسلام کے نور سے منور فرما دیا کرتا ۔ کفر و شرک کی ضلا لت سے نکل کر لوگ صراط مستقیم کے عظیم المرتت راستے پر گامزن ہو تے۔جن خوش نصیب لوگوں نے آپ کے دست مبارک اور ہدایت پر فلسفہ فکر دین اسلام پر بیعت کی آپ کے فیض کی برکت سیان کے لعح و قلب پر کلمہ توحید یوں نقش ہوا صرف تا دم واپسی اس کی لزت سے سرشارنہیں رہے بلکہ آج ساڑھے نو سوسال بیت جانے کے بعد ان کی نسلیں بھی اسی ذوق کے ساتھ کلمہ توحید کا وردکر رہی ہیں جب بھی کوئی ایسا وقت آیا تو انہوں نے پرچم توحید کو تھام کر بلا تامل بصد مسرت و ایکان اپنے سروں کے نذرانے پیش کئے اور انشا ء اللہ عزو جل پیش کرتے رہے گے۔ ولی کامل کی یہی خصوصیت ہمیشہ تا قیامت بلکہ بعداز قیامت یعنی روز حشران کا پڑ ھایا ہوا سبق حق ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ گردش لیل و نہار، حوداثدہر کے با وجود اس کی سر مستیاں بڑھتی رہتی ہیں۔ بلکہ ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ اور خصو صا ًوقت آذان اس کی آب و تاب میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایک درویش کامل بظاہر جس کے پاس نہ خزانہ ہے، نہ لشکر نہ دنیاوی وسائل، نہ جاہ و حشمت، تن تنہا جنگل بیاں باں میں بغیر چھت و مکاں کے شبانہ روز معبود بر حق کی یاد میں مشترق اللہ عزوجل کے انوار تجلیات کے نزول کے باعث اسے وہ شان دلربائی عطا کر دی جاتی ہے کہ لوگ جوق در جوق اس مرد حق کی جانب دیوانہ وار کھینچے چلے جاتے ہیں۔ لوگ ان کے رخ زیبا کو دیکھتے ہی اپنے نقار روڑ ڈالتے ہیں۔ اپنے آبائی عقیدوں کو ہمیشہ کیلئے ترک کر دیتے ہیں۔ کل تک وہ جن بتوں کی پر ستش کر رہے تھے اب اپنے ہا تھوں سے ان کو پاش پاش کر دیتے ہیں۔ وہ رب ذولجلال کی بارگاہ میں یوں پیش ہوتے ہیں کہ انہیں اپنا ہوش ہی نہیں رہتا۔ انہیں سجدہ حق کے سبب جو کیف سرور، نظف انعام اکرام میسر آتا ہے اس پر وہ اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیتے ہیں۔
Tomb of Hazrat Data Ganj Bakhsh
غزنوی خاندان کے با ہمت جری، نڈر فا تحین نے ممالک فتح کئے ، قلعے سر کئے، شاہی محلات پر پرچم لہرائے۔ مگر ہجویر سے آئی ہوئی اس ہستی مبارک، غریب الدایار درویش نے قلوب کی اقالیم کو مسخر کیا۔ تعصب اور ہٹ دھرمی کے قلعوں کو پیوند خاک کیا۔ جہالت اور گمراہیوں کے پردوں کو سرکا کر حقیقت کے رخ زیبا کو یوں بے نقاب کیا کہ ہر صاحب قلب سلیم دیوانہ وار ان پر سو جان سے نثارہونے لگا۔ آپ ایک بلند پایہ عالم، بالغ نظر ، محقق اور معقول و منقول کے امام تھے۔ جبکہ آپ باطن نور فرفان سے جگمگ تھا۔ کشف المجوب ، تصوف پر ایک انتہائی د ستا ویز ہے جو آپ کا قلمی شاہکار ہے۔ یہ ایک بین الااقوامی مسلم اصول و قانون ہے۔نیز فطرت بھی ہے کہ تنصیف کی قدرو قیمت کا اندازہ اس کے منصف سے لگایا جاتا ہے جس کتاب کے منصف مرد قلندر، ولی کامل، عارف کامل، عالم ربانی حضرت ابو الحسن علی بن عثمان ہجویری ا الجلابی جیسی فقید ا لمثال بر گز یدہ ہستی ہوں اس کتاب کے بارے کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ ہر زمانے کے اہل علم، ارباب طریقت کا بر ملا اعتراف کیا ہے ۔ کشف المجوب کے زندہ جاوید ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس زمانے میں جبکہ لوگوں کا مکمل ذہن مادہ پرستی کی جانب ہے اپنے اور بیگانے آج بھی اس کتاب کی تحقیق اور اس کی معیاری طباعت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے پر کو شاں ہیں۔ مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم مشر قین میں سے پروفیسر نکلسن جو کیمبرج یونیورسٹی میں عربی اور فارسی کے پر وفیسر تھے انہوں نے اس کا انگریزی زبان میں تر جمہ کیا اور خوب کیا۔ بلکہ یوں کہیں کے انہوں نے حق ادا کر دیا۔ اسی طرح روس کے مستشرق پروفیسر ژو فسکی نے اس کتاب کی اہمیت و افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے کشف الم جوب کو ایک قدیم نسخے کی تصیح کے کئے اپنی زندگی کے کئی قیمتی سال صرف کئے اور فارسی زبان میں ایک محققانہ مقدمہ لکھ کر اسے لنن گراڈ سے شائع کیا۔ وہ خطہ جو رب العزت کے وجود (نعوز باللہ ) کا منکر ہے دین اور روحانیت کو لغو( معازاللہ ) اور فضول گرادنتا ہے۔ اس ملک کے ایک فاضل نے بھی اس کتاب کی تحقیق صیح اور تشریح میں اپنا قیمتی وقت لگایا اور محققانہ مقدس کا اضافہ کیا اور اس کتاب کی اہمیت اور افادیت کا معترف ہوا۔ حضرت داتا گنج بخش ہجویری کی ذات انور کی دلکشی کا یہ عالم ہے کہ رات دن طالبان حق کا تانتا باندھا ہوا ہے۔ موسم کوئی بھی ہو، سردی، گرمی، بارش، طوفان، رات ہو یا دن تشنگان لب، بندگان خدا کا ہجوم، اللہ عزوجل کے اس پیارے اور بر گزیدہ بندے کی زیارت سے مستفید ہونا باعث خیروبرکت وطمانیت گردانتے ہیں۔ پر وفیسر نکلسن نے آپ کے وصال مبارک کے بارے میں لکھا ہے کہ 456 ہجری تا465 کا کوئی درمیانی سال آپ کا وصال ہے۔ جبکہ جامی لاہوری کا جو کتبہ آستانہ عالیہ کے دروازے پر نصب تھا۔ اس میں وصال کی تاریخ لفظ سردار سے نکالی گئی ہے اور اس طرح وصال 465 بنتا ہے۔