تحریر:ایم اے تبسم ماضی ہو حال یا مستقبل کتابوں کی اہمیت سے کبھی انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ہاں فرق صرف اتنا ہے کہ آج اس کے قدر دان پہلے کی نسبت کم ہو گئے ہیں ۔دن ہو یا رات جب بھی کتاب ہاتھ میں اٹھائی جائے تو سینکڑوں لکھنے والے انسان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہو جاتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ کتاب امیر و غریب دونوں کو نہایت کم خرچ میں معلومات و تفریح فراہم کرنے کا فریضہ بھی سر انجام دیتی ہے ۔لیکن یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ اتنے فوائد رکھنے کے باوجود بھی آج کتاب کے پڑھنے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے یہ کوئی پرانی بات نہیں ہے کہ کچھ ہی سال پہلے کتب خانوں کی صورتحال یہ تھی کہ جب آپ کسی لائبریری میں جائیں تو لائبریری کے اندر کتاب دوست لوگوں کی کثیر تعداد موجود ہوتی تھی۔
ان میں سے کچھ لوگ کتاب جاری کروا کر وہیں بیٹھ کر پڑھنے کو ترجیح دیتے تھے اور بعض الماری کے اندر رکھی ہوئی کتابوں کا سر سری جائزہ لے رہے ہوتے اور پھر واپس چلے جاتے ۔غرض کتاب سے دوستی رکھنے والے ہر نوع کے لوگ لائبریریوں کا ذوق و شوق سے رخ کرتے اور لائبریریوں کے اندر کتاب دوست کا ایک بھر پور ماحول ملتا تھا ۔ اس کے برعکس موجودہ دور میں لائبریریوں کے اندر شاذو نادر ہی رش دیکھنے کو ملتا ہے صرف گنتی کے چند لوگ ہی لائبریریوں کا رخ کرتے نظر آتے ہیں ۔اس کی ایک وجہ لائبریریوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہے ۔کیونکہ پہلے ان کی تعداد میں کمی تھی لیکن اب ان کی تعداد میں خاطر خواہ حد تک اضافہ ہو چکا ہے نہ صرف پبلک لائبریریاں مزید بنائی گئی ہیں بلکہ ہر تعلیمی ادارے کے اندر ایک لائبریری لازما موجود ہے۔
جہاں کورس کتب کے علاوہ بھی دیگر مضامین اور معلومات کیلئے کتابیں رکھی جاتی ہیں جن میں تفریحی کتب بھی شامل ہیں ۔دوسری وجہ کتاب سے دوری کی ٹائم کا نہ ہونا بتائی جاتی ہے ۔آج انسان اپنی فکر معاش میں اس قدر مصروف ہو چکا ہے کہ وہ اپنے شوق کی تسکین بھی نہیں کر پاتا۔صرف زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول ہی انسان کا مقصد بن کر رہ گیا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے باقی شوق کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ لوگ اپنی مطلوبہ کتاب خود خرید لیتے ہیں اور فارغ اوقات میں پڑھنے کا سوچ کر الماری کی زینت بنا دیتے ہیں جو سالہاسال زینت بننے کے بعد سٹور روم میں قید ہو جاتی ہیں جہاں دیمک ان کا انجام ہوتا ہے ۔ موجودہ دور میں الیکڑانک آلات کی ترقی نے کتاب دوستی کے سفر کو روکا ہوا ہے۔
Young Generation
اس کی بڑی وجہ انٹرنیٹ کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔ جس نے لائبریریوں کو ویران کر ڈالا ہے الیکڑانک آلات کے استعمال سے کم وقت میں مطلوبہ مواد آپ کے سامنے آجاتا ہے جس کو کبھی بے شمار کتابوں کی مدد سے اکٹھا کیا جاتا تھا۔ آج کل کی نوجوان نسل اول تو ویسے ہی کتابوں سے پناہ مانگتی ہے لیکن اگر غلطی سے کچھ پڑھنے یا تحریری مواد سے بیشتر انٹرنیٹ کی طرف رخ موڑ لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ طلبا ء پر اپنے ہی سلیبیس کا بوجھ اس قدر لاد دیا جاتا ہے کہ وہ دیگر معلوماتی کتب کا مطالعہ کرنے سے گریز کرنے لگتے ہیں اور دوسرا بڑا عنصر وقت کی قلت ہے جو دیگر معلوماتی کتب کے مطالعے کے درمیان حائل ہے۔
ہاں یہ درست ہے کہ ہر دور کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں اور نئی ایجادات سے مستفید ہونے میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن کسی بھی چیز کا استعمال اس قدر نہیں کرنا چائیے کہ اس سے دوسری چیزیں متاثر ہو کر اپنا وجود کھو ڈالیں ۔تا ہم آج کل کی بھیڑ چال اور نفسا نفسی کے دور میں زیادہ تر لوگ لائبریریوں کی بجائے انٹر نیٹ کو قابل بھروسہ سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود آج بھی کتابوں کے اصل قدر دان لائبریری جاتے ہیں اور اپنے شوق کی تسکین کرتے ہیں وقت چاہے کوئی سا بھی ہو ۔کتاب دوستی ہر زمانے میں ہر دور میں اپنی الگ حیثیت رکھتی ہے۔ اگر ہم حکومتی اقدامات کا جائزہ لیں تو ملک کے بڑھتے ہوئے مسائل میں حکومت اس طرح الجھ چکی ہے کہ وہ بجٹ میں بھی تعلیم کو نظر انداز کر دیتی ہے جو لائبریریاں ملک کے اندر موجود ہیں ان پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی جس کی وجہ سے نہ تو نئی کتب لائبریریوں میں موجودہوتی ہیں اور نہ ہی جدید سہولتیں عوام کودی جاتی ہیں ۔جس کی وجہ سے کتاب سے دوستی کم ہو کر رہ گئی ہے۔
حکومت کو چائیے کہ وہ موجودہ لائبریریوں کی حالت کو بہتر بنائیں انہیں متنوع موضوعات کی کتابوں کی فراہمی کو یقینی بنائے ۔تا کہ زیادہ سے زیادہ افراد لائبریریوں کی طرف رجوع کریں جس سے کتاب دوستی کو بھی فروغ ملے گا اور لائبریریوں کی رونق بھی بحال ہو گی کتاب دوستی کیلئے ورکشاپ کا وسیع پیمانے پر آغاز ہو نا چائیے۔ تا کہ عوام اس میں بھر پور دلچسپی لیں اور عوام کو شعوری طور پر بہتر بنیادوں پر استوار کیا جائے۔
M A Tabassum
تحریر:ایم اے تبسم EMAIL:matabassum81@gmail.com,0300-4709102