یہ دنیا آزمائش کا گھر اور خیر وشر،حق و باطل کی کشمکش کا میدان ہے۔اِنسان کو دُنیا کی بھلائی، خیرکے حصول اور اس دُنیا کے تمام ترشرسے حفاظت کے لئے صرف اور صرف د ِین اِسلام ہی مکمل گارنٹی اور ضمانت دیتا ہے۔ اسی لئے دِین اِسلام کو مکمل ضابطہ حیات کہا گیا ہے۔ جس میں قیامت تک آنے والے انسان کی ہدایت اور زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق بنیادی اصول و ضوابط واضح کردئیے گئے ہیں۔ اِسلام ہمیں قول وفعل میں سچائی اور راست بازی کا حکم دیتا ہے۔اگرچہ اللہ رب العزت نے دارالجزاتوآخرت کو بنایاہے اوردُنیا میں انسان کو اجازت دی گئی کہ وہ جوچاہے کرے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے انسان کو صحیح راہ دکھانے کے بعداسے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ چاہے تو ہدایت کی سیدھی راہ اختیار کرے یا غلط راستہ کا انتخاب کرے۔ قرآن مجید کی سورة زلزال میں ارشاد ِ باری تعالی ہے۔”پس جس نے ذرا برابر بھلائی کی ہوگی، وہ ( اللہ)اسے دیکھ لے گااور جس نے ذرا برابربرائی کی ہوگی،وہ ( اللہ)اسے بھی دیکھ لے گا۔”
آج ہم میں تین طرح کی سوچ واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ سب سے پہلے اوراکثریت ایسی سوچ کے حامل لوگوں کی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ(حلال وحرام، جائزو ناجائز کی تمیز کئے بغیر) خوب مال کماؤ،کیونکہ مال ہوگاتو وسائل ہوں گے، وسائل ہوں گے تو مسائل کم ہونگے۔مال ہوگا تو عزت ہوگی،مال ہوگا توسکون ہوگایعنی دُنیا میں آئے توخوب عیش کر لو،آخرت کی آخرت میں دیکھی جائے گی۔دوسری سوچ کا حامل طبقہ جوحالات کی خرابی پردن رات پریشان تو ہے اور معاشرہ کے بگاڑپر آہیں بھی بھرتا ہے ۔لیکن اس بگاڑ، گراوٹ، بدامنی کے خاتمہ اور معاشرہ کی اصلاح کے لئے صرف دوسروں کومخاطب کرتاہے۔ اپنی ذات ،اپنے کردار کی فکرواصلاح سے یکسر بے نیاز ہوکردوسروں کو راہ راست اختیار کرنے، دوسروں کی خامیاں، برائیاں اور دوسروں کے کردار کی اصلاح کی کوشش پراپنی ساری توانائی صرف کرتا نظر آتاہے۔
اس طبقہ نے آسان کام کواختیار کرلیاکیونکہ کسی پر تنقید کرنا، کسی کے خلاف لکھنا، کسی کے خلاف تقریر کرنا اور کلام کی آرائش انتہائی آسان کام ہے مگراس پر عمل کرنا اور اپنے آپ کو عظیم مقصداور بلند اقدار میں ڈھالنابہت ہی مشکل ہے۔اسی لئے آج ہم میں سے اکثریت اپنے کردار کی اصلاح جیسی ذمہ داری ادا کرنے کو تیار نہیں۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے ترجمہ:-“کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔ حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں۔” (۲:۴۴)۔جبکہ تیسری قسم ان لوگوں پرمشتمل ہے
جو انتہائی قلیل تعداد میں ہیں اور پہلی دونوں قسم کے لوگوں کے بالکل برعکس خود تو حتی المقدوربرائی اور ناجائز امرسے اجتناب کرتے ہیں،مگرکسی بھی غیر معروف امرکے واقع ہونے پر ناپسندیدگی کا اظہاراور اس ناجائز فعل کی کھل کرمخالف نہیں کرتے۔اس اقلیتی طبقہ میں بنیادی طورپریہ غلط سوچ اور خیال عام ہوگیا ہے کہ دوسرے جو چاہیں کرتے پھریں، ہمیں ان سے کیا لینادینا، ہمیں ان سے قطعاََ کوئی سروکار نہیں۔کیونکہ ہر انسان اپنے اعمال چاہے نیک ہوں یا بد، خود ذمہ دار اور جوابدہ ہے۔
ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے۔ “مومن مرد اور مومن عورتیں،یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں،یہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے اور زکواة دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں”۔بے شک ہرانسان کی فلاح اور کامیابی اسی میں ہے کہ وہ خود کو احکاماتِ الٰہی کا پابند بنائے اور اپنے آپ کو اللہ عزوجل کی نافرمانیوں سے دُور رکھے۔لیکن نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُمتی ہونے کی وجہ سے قیامت تک آنے والے انسان اپنے اعمال اور کردار کے ساتھ ساتھ دوسروں کی اصلاح کے بھی ذمہ دارہیں۔ہرانسان کے ذمہ پوری انسانیت کی فلاح و بہبودکی ذمہ داری ہے۔شاید اسی لئے کہاجاتا ہے ایک انسان سے پوری انسانیت کے بارے سوال ہوگا اور پوری انسانیت سے ایک انسان کی مظلومیت اور دادرسی کے متعلق پوچھا جائے گا۔
Muslim
ہم نے سمجھ لیا کہ مسلمان ہونا اتنا آسان اور سہل کام ہے، نہیں ہرگز نہیں اے اُمت ِمسلمہ کے ہرفرد تم ذمہ دار ہو نہ صرف اپنی ذات کے بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ ہرمسلمان پر قیامت برپا ہونے تک کے آخری انسان کو جہنم کی آگ سے بچاکر ہمیشہ کی کامیابی دلانے کی ذمہ داری عائد کردی گئی ہے۔ ہزارہا صلوةوسلام ہوں اس طلعت زیبا پرجس کی آمد سے گلشن ِ عالم میں بہار آگئی اور انسانیت کو شرف حاصل ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُمتی ہونے کی نسبت سے دعوت کی محنت بلاتفریق رنگ ونسل، امیر غریب، جوان بوڑھے ، مرد عورت ،بادشاہ و فقیرہر مسلمان کی اولین ذمہ داری ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے،”تم میں سے کچھ لوگ ایسے ضرور ہونے چاہیں جونیکی کی طرف بلائیں۔بھلائی کا حکم دیں اوربرائیوں سے روکتے رہیں۔جولوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔”(سورة آل عمران) اِسلام معاشرہ میں اجتماعی ذمہ داری کا درس دیتاہے ،اسلام انفرادی واجتماعی اصلاح اور مثالی انسانی معاشرہ کی تعمیر وتشکیل کے لئے واضح ہدایات اور قابل عمل احکامات دیتاہے اورایک ایسامعاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے، جہاں نیکیوں کو قائم کیا جاتا ہو، جہاں برائیوں کو اجتماعی طور پر روکا جاتا ہو، جہاں ایسا بھائی چارہ ہو، کہ ہرانسان ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کررنگ ، نسل، علاقہ،عقیدہ، مسلک اور فرقہ پرستی سے بالاتر ہوکر انسانیت کی بھلائی اور بہتری کے لئے کوشش کرتا ہو۔اسلام میں ایسے معاشرہ کی ہرگز گنجائش نہیں،جہاں دوسروں کے حقوق کو نظرانداز کردیا جائے، جہاں ہر شخص اجتماعی ذمہ داری کے تصور سے عاری ہو
امانت کومال ِ غنیمت سمجھا جاتاہو، جہاں امیراورغریب کے لئے قانون پر عملداری کاالگ الگ طریقہ کار ہو، جہاں اندھے اورمظلوم انسانوں کی داد رسی کے بجائے ان پر لاٹھی چارج کیا جاتا ہو، جہاں حاکم عوام کو اپنا غلام اور بدترین مخلوق سمجھتا ہو،جہاں آدمی کا احترام اُس کے شرسے ڈر کرکیاجاتا ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کامفہوم :- “جب مال غنیمت کو ذاتی دولت اور امانت کومال غنیمت اورزکواة کو تاوان سمجھا جانے لگے اور لوگ اپنی بیوی کی فرماں برداری کریں اور اپنی ماں کی نافرمانی کریں اور اپنے دوستوں کو گلے لگائیں اور باپ کو دورکریں۔
مسجدوں میں شور ہواور قبیلے کی سرداری ان کا فاسق کرے اور قوم کا سربراہ ایسا شخص ہوجوان میں سب سے برا ہواورجب کسی آدمی کا اِکرام اس کے شر کے ڈر سے کیا جائے اور (پیشہ ور)گانے والیاں اورباجے گاجے عام ہوں اورشرابیں پی جائیں اوراُمت کے بعدوالے اس کے اگلے لوگوں پر لعنت کریں تواس وقت انتظارکرو سرخ آندھیوں کا اور زلزوں کااورزمین میں دھنسائے جانے اور صورتیں مسخ کئے جانے کا اور پتھر برسنے کااور(ان کے علاوہ اس طرح کی)اور نشانیوں کا جوپے در پے اس طرح آئیں گی جس طرح ایک ہارہو،اس کا دھاگہ کاٹ دیا گیاہوتواس کے دانے پر دانے گرنے لگیں”(ترمذی شریف) ہماری تمام تر پریشانیاں اور مصیبتیں ہماری اجتماعی بے حسی ،لاپرواہی، بداعمالیوں اورغلطیوں کا نتیجہ ہیں۔ہمیں اپنی اس اجتماعی ذمہ داری کا کب احساس ہوگا اور ہماری اجتماعی بے حسی کب ختم ہوگی؟ کیا ابھی ہمارے غفلت سے جاگنے کا وقت نہیں؟ کیا ابھی شیطان کے راستہ کوترک کرکے رحمان کے راستہ پر چلنے کا وقت نہیں؟ یاشاید !ہم سب کو ابھی تک سُرخ آندھیوں کاانتظار ہے؟ اے رب العزت ہمارے گناہوں کو معاف فرما اور ہمارے ملک پاکستان سمیت پُورے عالمِ اسلام میں امن سکون عطاء فرما آمین ثم آمین یارب العالمین۔