تحریر: تجمل محمود جنجوعہ میرا دوست قسور عثمان بہت حساس طبیعت کا مالک ہے۔ وہ ملک کی دگرگوں صورت حال اور معاشرہ کی بگڑتی ہوئی حالت کے بارے میں بہت فکرمند رہتا ہے۔ وہ پڑھا لکھا ہے اور خود کو حالات حاضرہ سے باخبر رکھتا ہے۔ ہم جب بھی ملتے ہیں وہ ملکی صورت حال اور بگڑتے ہوئے معاشرتی رویوں پر ضرور بات کرتا ہے۔ غالباً وسط نومبر کی بات ہے جب ہم ایک تقریب میں شرکت کے لئے مقامی میرج ہال میں اکٹھے ہوئے۔ کھانا کھانے کے بعد ہم چائے پینے میں مصروف تھے کہ اس کا کوئی جاننے والا اس کے پاس آیا اور اس سے حال احوال دریافت کرنے لگا۔ مختصر مگر شیریں گفتگو کے بعد وہ مصافحہ کر کے رخصت ہو گیا۔
میں اس کے اخلاق سے بہت متاثر ہوااور اس کی تعریف کئے بنا نہ رہ سکا۔ میں نے کہا، قسور بھائی ماشاء اللہ ان صاحب کا اخلاق قابل تعریف ہے۔ ابھی میں اپنی بات مکمل بھی نہ کر پایا تھا کہ چائے لاتا ایک بیرا ان سے جا ٹکرایا۔ بس پھر کیا تھا ان صاحب نے آئو دیکھا نہ تائو۔ بیرے کو دو تھپڑ جڑ دئیے اور ساتھ دو چار گالیاں بھی دے ڈالیں۔ ان کی یہ حرکت دیکھ کر قسور مجھ سے مخاطب ہوا۔
لو بھئی یہ تھا ان کا اخلاق۔ میں نے کہا غصہ کے تیز ہوں گے۔ قسور کہنے لگا کہ غصہ میں خود کو کنٹرول کرنا ہی تو اصل بہادری ہے۔ میں چپ رہا تو وہ کہنے لگا کہ میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں۔ ان کا اخلاق بھی بناوٹی ہے۔مجھے قسور جیسے بندے سے اس قسم کی بات کی توقع بالکل بھی نہ تھی۔ میں جھٹ بولا، یار اس کا علم تو صرف خدا کی ذات کو ہے۔ کسی کے بارے میں بدگمانی اچھی بات نہیں۔
میری بات سن کر اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بولا۔ تجمل بھائی یہ بات بجا ہے کہ سب لوگ برے نہیںاور ”بد سے بدنام برا” کے مصداق چند لوگوں کی وجہ سے سب بدنام ہو رہے ہیں۔اب آپ پڑوس میں رہنے والے بابا دین کی ہی مثال لے لیں۔ حاجی صاحب کہلوانے کے شوقین یہ صاحب اپنے یتیم بھتیجوں کی ساری جائیداد دبا کر بیٹھے ہوئے ہیںاور دوسروں کو نصیحتیں کرتے تھکتے نہیں۔میںجواباً کچھ نہیں بولا تو وہ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بولا، آپ کریانہ کی دکان چلانے والے مشتاق صاحب کو ہی دیکھ لیں۔ زمانہ جانتا ہے انہیں۔ کیا کیا ہیرا پھیری نہیں کرتے وہ۔ گھٹیا شے کے اعلیٰ ہونے کی اس قدر قسمیں کھاتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ اب آپ ہی بتائیں کہ لوگ چہرے پر سجی داڑھی اور سر پر رکھے امامہ کو دیکھ کر آپ کو ایک معقول انسان سمجھ کر آپ کے پاس آئیں اور آپ انہیں دھوکہ دیں تو کیا یہ درست ہے۔
Islami Society
اور اگر آپ یہ کہیں کہ پڑھے لکھے اور ان پڑھ کو میں ایک ہی کیٹگری میں شامل کر رہا ہوں تو کرامت صاحب کو ہی دیکھ لیں جو کہ صاحب علم ہیں۔ ان کے علم کا ہر کوئی معترف ہے مگر عمل کتنا ہے یہ صرف ان کے قریبی لوگ ہی جانتے ہیں۔ ایک طرف کرامت صاحب کا بھائی ہے شرافت جو اپنی ماں کو سلام تک نہیں کرتا اور دوسری طرف کرامت صاحب ہیں جو اپنی ماں کے تو پائوں دھو دھو کر پیتے ہیں مگر اپنی زوجہ کے ساتھ انسانیت سوز سلوک روا رکھتے ہیں۔ سب لوگ شرافت کو غلط قرار دیتے ہیں مگر مجھے بتائیے کیا کرامت صاحب ٹھیک کر رہے ہیں۔ بلاشبہ ماں جیسی ہستی کا کوئی ثانی نہیں مگر کیا اللہ تعالیٰ نے آپ سے جڑے ہر بندے کے الگ حقو ق متعین نہیںکیے ۔ بھائی یہ لوگ ہمارا قبلہ کیا درست کریں گے جن کو خود حقوق العباد ادا کرنے کی فکر نہیں۔
وہ بولتا چلا جا رہا تھا اور میں سر جھکائے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ ذہن اس کی باتیں دہرا رہا تھا اور زبان کو اس سے اتفاق کرنے پر اکسا رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ زبان بے قابو ہو کر اس کی باتوں کے درست ہونے کی تصدیق کرتی، میں شاعر مشرق کے الفاظ میں قسور کو بس یہی کہہ سکا۔ تم حیاو شریعت کے تقاضوں کی بات کرتے ہو ہم نے ننگے جسموں کو ملبوس حیا دیکھا ہے دیکھے ہیں ہم نے احرام میں لپٹے کئی ابلیس ہم نے کئی بار مے خانے میں خدا دیکھا ہے میں نے اسے کہا کہ بعض اوقات آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا بھی غلط ہو سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ سب کچھ ویسا ہی ہو جیسا ہم سوچ رہے ہوتے ہیں۔
مگر سچ یہ ہے کہ میرے پاس اس کی باتوں کو جھٹلانے کے لئے کوئی دلیل نہ تھی کیونکہ روزمرہ زندگی میں ایسے بہت سے کرداروں سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے۔ میں نے اس حوالہ سے اپنی مسجد کے امام حافظ محمد یسین سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ہمیں اپنی وضع قطع سنت طریقے کے مطابق ڈھالنی چاہیئے اور کردار سازی کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیئے۔ لوگوں کو دھوکہ دینے اور حقوق العباد پورے نہ کرنے والوں پر یقینا اللہ کی پکڑ ہوگی اور علم رکھنے کے باوجود اس پر عمل نہ کرنے والوں کو عام لوگوں کی نسبت زیادہ سزا ہو گی۔
میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا۔ ہاں مگر اپنے معاشرے میں قدم قدم پر ملنے والے مشتاق صاحب، کرامت صاحب اور ان جیسے دیگر اصحاب سے اتنا ضرور کہوں گا کہ خدارا! اپنے آپ کو ایسا بنانے کی کوشش کریں کہ لوگ آپ کو دیکھ کر دین اور سنت کی طرف راغب ہوں نہ کہ آپ کے قول و فعل میں تضاد اور بناوٹی پن کی وجہ سے اچھے لوگوں سے بھی بدگمان ہو جائیں۔