تحریر : ایم ایم علی تحریک انصاف کے پلان (سی) کا پہلا مرحلہ گذشتہ روز لاہور میں اختتام پذیر ہو گیا، کپتان کے پلان (سی)کے پہلے مرحلے میں فیصل آباد ،کرچی اور لاہور کو بند کرنا تھا اور دوسرے مرحلے میں میں پورے پاکستان کو بند کر نا ہے۔ میں نے 2 دسمبر کو شائع ہونے والے اپنے کالم میں یہ لکھا تھا کہ تحریک انصاف کیلئے لاہور اور فیصل آباد کو بند کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا البتہ کراچی میں یہ کال کارگر ثابت ہو سکتی ہے ۔تحریک انصاف نے جب 8 دسمبر کی صبح کا آغاز معمول کے دنوں کی طرح ہو فیصل آباد کی سڑکوں پر ٹریفک معمول کے مطابق راوں دواں تھی ،طالبعلم کالجوں اور سکولوں کا رخ کر رہے تھے ،پرئیوئٹ اور سرکاری آفسز کھلے ہوئے تھے اور شہری اپنے اپنے دفاترز میں معمول کے مطابق پہنچ رہے تھے اور پھر آہستہ آہستہ فیصل آبادکے بازار بھی کھلنا شروع ہوگئے۔
دوسری طرف تحریک انصاف کے کارکنوں نے فیصل آباد کی مختلف شاہرہوں پر ٹائر جلا کر اور رکاوٹیں کھڑی کر کے روڈ بلاک کرنا شروع کر دئیے اور اس کے بعد ٹریفک کی راوانی میں مشکلات پیدا ہو ناشروع ہوں گئی ۔بہر حال روڈز بلاک کر نے کے باوجود تحریک انصاف فیصل آباد کو مکمل بند کر وانے میں یکسر ناکام ہو چکی تھی اور واضع طور پر حکومت فیصل آباد کو کھلا رکھنے کی حکمت عملی پر کامیاب ہوتی نظر آرہی تھی، لیکن حکومت میں موجود چند شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کو اپنی ہی کامیابی ہضم نہ ہوئی۔
انہوں نے تحریک انصاف کے کارکنوں کے مقابلے میں اپنے کارکنوں کو فیصل آباد کی سڑکوں پر نکال دیا اور اس طرح دونوں جماعتوں کے کارکن ایک دوسرے کے سامنے آن کھڑے ہوئے اور دونوں جماعتوں کے کارکنوں کے بابین تصادم کا آغاز ہوا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک انصاف کا ایک کارکن گولی لگنے سے جاں بحق ہو گیا اور اس کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہونے لگا اور جب تاجروں نے حالات کشیدہ ہوتے ہوئے دیکھے تو انہوں نے اپنی دکانیں بند کر نا شروع کر دئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے فیصل آباد کے تمام کاروباری ماراکز اور بازار بند ہو گئے ۔اس طرح حکومت میں موجود چند نااہل لوگوں کی وجہ سے وہ کام جو تحریک انصاف سب کوششوں کا باوجود نہیں کر سکی وہ کام ان حکومتی ارکان نے خود کروا دیا ۔اب بات ہو جائے شہر قائد کراچی کی تو کراچی میں تحریک انصاف کی یہ کال کافی حد تک کامیاب رہی۔
PTI
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے تحریک انصاف کے احتجاج میں کسی بھی قسم کی مداخلت کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی شہر کراچی میں اپنا بھر پور اثرورسوخ رکھنے والی جماعت ایم کیو ایم نے کسی قسم کی مزاحمت یا مداخلت نہیں کی ،بلکہ (یار لوگوں) کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو ایم کیو ایم کی خاموش حمایت حاصل تھی ۔تحریک انصاف کی کراچی میں احتجاج اور ہڑتال کو اس لحاظ سے بھی کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس احتجاج اور ہڑتال کے باعث کوئی لوٹ مار اور ہنگامہ آرئی دیکھنے میں نہیں آئی اور نہ ہی کوئی جانی نقصان ہو ا ،حالانکہ کراچی میں احتجاج کے دوران اس طرح کی مثالیں بہت کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں ۔اب بات ہو جائے پلان (سی ) کے پہلے مرحلے کے آخری شہر لاہور کی ،پاکستان کی سیاسی تاریخ میں لاہور کاکردار ہمیشہ اہم رہا ہے ۔چونکہ لاہور کے بارے میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ لاہور مسلم لیگ (ن) کا قلعہ ہے شائد یہی وجہ تھی کہ تحریک انصاف کا سب سے زیادہ فوکس بھی اس شہر پر تھا،۔
لاہور کی تاجر تنظیموں اور ٹرنسپوٹرز تنظیموں نے تحریک انصاف کی کال سے لاتعلقی کا اعلان کر رکھا تھا ۔لاہور میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے صبح ہی سے مختلف شاہرہوں کو بند کرنا شروع کر دیا تھا البتہ اہلیان لاہور معمول سے ہٹ کر اور وقت سے پہلے ہی اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کی کوشش کرتے نظر آئے ،سرکاری تعلیمی ادارے مکمل اور پرئیوئٹ تعلیمی ادارے جزوی طور پر کھلے رہے یہی حال سرکا ری اور پرئیوئٹ دافاتر کا بھی تھا ۔میٹرو بس نے بھی صبح معمول کے مطابق اپنی سروس کا آغاز کیا لیکن تحریک انصاف کے کارکنوں کے پتھرئوں کے باعث میٹروبس کی سروس معطل کر دی گئی ۔تحریک انصاف نے لاہور کے 18 مقامات کو بند کرنے کا اعلان کر رکھا تھا لیکن اس احتجاج کا دائرہ تقریبا چالیس مقامات تک پھیل چکا تھا ۔لیکن اس کے باوجود بھی موٹر سائیکلوں ،ذاتی گاڑیوں اور آٹو رکشوں کی ایک بڑی تعداد لاہور کی سڑکوں راواں دواں نظر آئی ،البتہ پبلک ٹرنسپورٹ غائب رہی ۔ لاہور کے بازار بھی جزوی طور پر کھلے رہے اور کئی مقامات سے تحریک انصاف کے کارکنوں کی طرف سے زبردسی دوکانیں بند کرونے کی خبریں بھی آتی رہیں۔
اس بار حکومت نے بھی فیصل آباد واقع سے سبق سیکھتے ہوئے تحریک انصاف کے احتجاج میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کی اور ماسوائے ایک دو مقامات کے مسلم لیگ (ن) کے کارکن سڑکوں پر نہیں نکلے ،البتہ کئی مقامات پر تحریک انصاف کے کارکنوں اور عام شہریوں مڈ بھیڑ کی خبریں میڈیا پر رپورٹ ہوتی رہیں اور کئی جگہوں پر تاجروں اور تحریک انصاف کے مابین ہاتھا پائی اور ایمبولینسز کو روکنے کی خبریں بھی آتی رہی ایمبولینسز کو روکنے باعث تین انسانوںکو اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے ۔مختصر یہ کہ لاہور میں جزوی طور پر یہ ہڑتال کامیاب رہی ،اب ایک طرف تو حکومت اور تحریک انصاف میں مذکرات کا آغاز ہو چکا ہے مگر دوسری طرف تحریک انصاف کا احتجاج اور دونوں فریقوں کے درمیان الفاظ کی جنگ جاری ہے اور ابھی پلان(سی) کے دوسرے مرحلے میں تحریک انصاف نے پورے پاکستان کو بند کرنے کا اعلان کر رکھا (یار لوگوں) کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں دونوں فریقوں کہ مابین مذکرات وور دور تک کامیاب ہوتے نظر ہوتے نظر نہیں آتے۔