کابل (جیوڈیسک) افغان وزارت دفاع کے ترجمان جنرل ظاہر عظیمی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ فوجی اہلکاروں کی گاڑی کابل میں سڑک کنارے نصب بم کی زد میں آگئی جس کے نتیجہ میں 5 اہلکار اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تاہم انہوں نے حادثہ کی درست جگہ کے بارے میں نہیں بتایا۔
دوسری جانب افغان وزارت دفاع نے فوجیوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کے باعث انکی کھلے عام نقل و حرکت پر پابندی لگادی ہے ۔عالمی میڈیا کے مطابق امریکی اور اتحادی افواج کے تیرہ سالہ آپریشن کے اختتام پر پر تشدد کارروائیوں میں اضافے سے افغان و اتحادی حکام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
یاد رہے کہ ہفتے کو ہونیوالے خود کش دھماکے میں بھی سات افغان فوجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے وزات دفاع کے ترجمان دولت وزیری کے مطابق حکومت نے فوجیوں کی سکیورٹی یقینی بنانے کیلئے بسوں کے ذریعے انکی آمد و رفت پر پابندی عائد کردی ہے، اب انکے لیے متبادل ذرائع استعمال کیے جارہے ہیں تاہم انہوں نے ان کی تفصیلات میڈیا کو بتانے سے گریز کیا۔
ذرائع کے مطابق فوجیوں کو سول یونیفارم پہن کر پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ انہیں کرایوں کی مد میں ماہانہ تین ہزار افغانی کرنسی دی جارہی ہے۔ ترجمان کے مطابق ملک کے مختلف صوبوں میں جاری آپریشن کے دوران مزید درجنوں طالبان جنگجو ہلاک کیے گئے ہیں۔
آپریشن کے دوران49 بارودی سرنگوں کو ناکارہ بھی بنایا گیا ہے۔ آپریشن صوبہ غزنی، خوست، سرائے پل، بدخشاں، ننگرہار، قندھار اور فریاب میں کیا گیا۔ دوسری جانب افغان انٹیلی جنس نے شدت پسند تنظیم داعش کے کمانڈر کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
مقامی حکام کا کہنا ہے کہ گرفتار کمانڈر کی شناخت قاری امنداللہ کے نام سے ہوئی ہے جو قاری خالد کے نام سے بھی مشہور ہے۔