تحریر : فرخ شہباز وڑائچ میں نے کتنی ہی بار سوچا کہ کچھ لکھ پائوں مگر ناکام رہا، جب سے یہ اندوہناک خبر سنی ہے دل کے ساتھ آنکھیں بھی بھر آئیں ہیں۔قلم ساتھ چھوڑ گیا،الفاظ میرا ساتھ چھوڑ کر کہیں دور نکل گئے ہیں۔خواہشیں بھی کتنی عجیب ہوا کرتی ہیں ۔ناجانے کتنی مرتبہ میرے دل میں یہ خواہش ابھری کہ کاش ایسا ہوا ہی نہ ہو،کہ کاش سکرینیں جو چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں وہ سب جھوٹ ہو۔یہ سب کیسے ہوسکتا ہے ۔۔؟یہ قہر کیسے ٹوٹ سکتا ہے۔؟ہمارے کن گناہوں کی سزا ان ننھی کلیوں کو مل گئی۔۔۔سوچا یہ کیسے ظالم لوگ تھے جنہوں نے ان معصوموں کو نشانہ بنایا۔
کیا عجب سانحہ ہے۔۔جدھربھی نظر گئی ہر آنکھ اشکبار پائی،پورا پاکستان سوگ میں ڈوبا ہے۔ میں کس سے سوال کروں کہ ان معصوموںکا کیاقصور تھا وہ تو علم کی تڑپ لیے اپنی معصوم مسکراہٹوں کے ساتھ سکول گئے تھے ،کیوں تم نے انھیں اس درندگی کی بھینٹ چڑھادیا۔۔؟ یہ کس کی جنگ ہے،یہ کس کی جنگ تھی۔۔؟ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں ان پھلتی پھولتی کلیوں کو کیوں بے دردی سے مسل دیا گیا۔۔۔میں کس کا گریبان پکڑوں ،میں کہاں اپنے مجرم تلاش کروں۔۔؟عزیزم نسیم الحق نے بی بی سی کا سانحہ پشاورپر بی بی سی کا تبصرہ مجھے بھیجا ہے۔”جب تک آپ یہ تحریر پڑھیں گے جنازے اٹھ چکے ہوں گے۔ پرائمری سیکشن کے بچوں کے لیے چھوٹے کفن، ہائی سکول کے لیے نارمل سائز کے قبروں پر پانی چھڑکنے کے بعد پھول چڑھائے جاچکے ہوں گے۔ مائیں ان بچوں کی تصویروں کو چوم کر بیحال ہوں گی۔
جنہیں انہوں نے صبح سبز کوٹ میں، یا سبز جرسی میں اور لڑکیوں کو سبز چادر پہنا کر سکول بھیجا تھا اور اب جنہیں دفنانے کے بعد مرد لوگ قبرستانوں سے واپس آرہے ہیں۔سرد موسم میں ماؤں کو ویسے بھی بچوں کی پڑھائی سے زیادہ یہ فکر ہوتی ہے کہ انہیں ٹھنڈ نہ لگ جائے۔ ان بچوں کو شہید کہا جا رہا ہوگا۔ شہید سیدھے جنت میں جاتے ہیں تو یہ کہہ کر دلوں کو تسلی دے لیتے ہیں کہ پشاور کی سردی ان بچوں کی قبروں کے اندر نہیں پہنچے گی۔پشاور میں ایک انتہائی اہم اور ہنگامی اجلاس بھی ہو چکا ہوگا جس میں انتہائی سخت الفاظ میں اس قتل عام کی مذمت کی جائے گی۔
Peshawar Incident
شاید طالبان کا نام لیا جائے یا انہیں قوم اور ملک کا دشمن جیسا تخلص عطا کیا جائے اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کا عزم دہرایا جائے۔ یقیناً اس انتہائی اہم اجلاس میں انتہائی اہم فیصلے کیے جائیں گے لیکن اجلاس کے آغاز میں مرحومین کے لیے دعائے مغفرت پڑھی جائے گی۔میرا خیال ہے یہ دعا غیر ضروری ہے۔میٹرک کرنے والے یا مڈل سکول میں پڑھنے والے یا پرائمری جماعت کے طالب علم نے آخر کیا گناہ کیا ہوگا کہ اس کی کی بخشش کے لیے دعا مانگی جائے۔پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سے درخواست ہے کہ وہ ان بچوں کی آخرت کے بارے میں پریشان نہ ہوں اور جب کل دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں تو اپنی مغفرت کی دعا مانگیں اور دعا کے لیے ان ہاتھوں کو غور سے دیکھیں کہ ان پر خون کے دھبے تو نہیں۔ہو سکتا ہے کسی نے کینٹین والے کا بیس روپے ادھار دینا ہو۔
ہو سکتا ہے کسی نے اپنے کلاس فیلو کو امتحان میں چپکے سے نقل کرائی ہو۔ کسی نے ہو سکتا ہے کرکٹ کے میچ میں امپائر بن کر اپنے دوست کو آؤٹ نہ دیا ہو، کوئی کسی سے ایزی لوڈ لے کر مکر گیا ہو۔ ہو سکتا ہے کسی نے کلاس میں کھڑے ہوکر استاد کی نقل اتاری ہو، ہو سکتا ہے کسی شریر بچے نے سکول کے باتھ روم میں گھس کر اپنا پہلا سگریٹ پیا ہو۔خبروں میں آیا ہے کہ جب سبز کوٹوں اور سبز جرسیوں اور سبز چادروں پر خون کے چھینٹے پڑے تو سکول میں میٹرک کی الوداعی تقریب بھی چل رہی تھی۔ اس تقریب میں ہو سکتا ہے کہ کسی نے کوئی غیر مناسب گانا گا دیا ہو۔اگلے ہفتے سے سردیوں کی چھٹیاں آنے والی ہیں کئی بچوں نے اپنے رشتہ داروں کے پاس چھٹیاں گزارنے کا پروگرام بنایا ہو گا جہاں پر ساری رات فلمیں دیکھنے یا انٹرنیٹ پر چیٹ کرنے کے منصوبے ہوں گے۔
آخر سولہ سال تک کی عمر کے بچے اور بچیاں کیا گناہ کرسکتے ہیں جس کے لیے اس ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت ہاتھ اٹھا کر دعائے مغفرت کرے؟ہوسکتا ہے سکول میں ایک دوست نے دوسرے سے وعدہ کیا ہو کہ چھٹیوں کے بعد ملیں گے۔ اب ان میں سے ایک واپس نہیں آئے گا کیوں کہ وہ پشاور کی مٹی میں ایک ایسی سرد قبر میں دفن ہے جو کہ ایک ایسا کلاس روم ہے جہاں کوئی کلاس فیلو نہیں اور جہاں کبھی چھٹی کی گھنٹی نہیں بجتی۔تو پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سے درخواست ہے کہ وہ ان بچوں کی آخرت کے بارے میں پریشان نہ ہوں اور جب کل دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں تو اپنی مغفرت کی دعا مانگیں اور دعا کے لیے ان ہاتھوں کو غور سے دیکھیں کہ ان پر خون کے دھبے تو نہیں”۔آنسوئوں کا سمندر ہے جو کسی ساحل سے نہیں ٹکرا رہا،سوشل میڈیا کی تصاویرہیں،کیسے کیسے مناظر ہیں جن کاپیوں کو قلم کی سیاہی سے سیاہ ہونا تھا وہ خون کے چھینٹوں سے سرخ ہوچکی ہیں۔سچ پوچھیں تو ایسا لگتا ہے جیسے انسانیت کی موت واقعہ ہوگئی ہے۔ کسی نے کہا ہے”The smallest coffins are the heaviest’ خالد احمد یاد آئے کوئی تو روئے لپٹ کر جوان لاشوں سے اسی لئے تو وہ بیٹوں کو مائیں دیتا ہے۔