سقوط ڈھاکہ ، بھارت اور جہاد کشمیر

Sakoot Dhakka

Sakoot Dhakka

تحریر: علی عمران شاہین
ہر سال ماہ دسمبر آتے ہی سقوط ڈھاکہ کی تلخ یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔بظاہر چھپے لیکن گہرے زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔میڈیا میں سارا مہینہ اس سانحہ عظیم پرطرح طرح کی باتیں ہوتی ہیں۔کچھ لوگ اسے سیاسی غلطیوں کے کھاتے میں ڈالتے ہیں تو کچھ اسے اہل بنگال سے ناانصافیوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں تو کچھ اسے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ۔اس سالانہ بحث میںاس بات کا تذکرہ کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ تاریخ کے حادثہ میں بھارت کا کردا ر کیا تھا جس نے دنیا کے تمام تر قوانین اور ضابطے روندتے ہوئے بین الاقوامی سرحد کو روند کر پاکستان پر باقاعدہ حملہ کر دیا تھا اور پھر وہاں محصور 34 ہزار پاکستان فوج پرہر طرح کی عالمی مدد و حمایت اور ہر طرح کے سامان جنگ سے آراستہ و پیراستہ لاکھوں کی بھارتی فوج نے پاکستانی فوج کو گھیرکر اسے پہلے ہتھیار ڈالنے اورپھر انہیں قیدی بننے پر مجبور کر دیا تھا۔اس حوالے سے کچھ تازہ ترین رپورٹس منظر عام پر آئی ہیں جن میں ایک بار پھر کھ کر تسلیم کیا گیا ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان ہر لحاظ سے بھارتی سازش اور حملے کا نتیجہ تھا۔ اس میںسیاسی عوامل اور انتقال اقتدار کی تاخیر کو وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

سچ یہی ہے کہ مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کیلئے بھارت نے بی ایس ایف، را کے ذریعے مکتی باہنی کو تربیت اور مالی وسائل فراہم کئے۔ 1971ء سے لے کر اب تک پاکستان کے خلاف مسلسل پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ 1971ء میں بنگال میں صرف 34 ہزار پاکستانی فوجی تعینات تھے تو 93ہزار فوجیوں نے کیسے سرنڈر کیا، بھارت ایک بار پھر بلوچستان میں مشرقی پاکستان کی طرح سازش کر رہا ہے، مشرقی پاکستان کو عالمی سازش کے تحت الگ کیا گیا، جس میں شیخ مجیب الرحمن اور ان کی پارٹی ملوث تھی، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب اقتدار کی منتقلی میں تاخیر نہیں بھارتی مداخلت تھی۔

سابق بھارتی ، پاکستانی فوجیوں اور غیر ملکی دفاعی تجزیہ نگاروں کے تاثرات پر مبنی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ1971ء سے لے کر اب تک اخبارات جرائد و رسائل ، ٹی وی چینلز، ویب سائٹس پر سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے مسلسل پاکستان کے خلاف بے بنیاد اور جھوٹا پروپیگنڈہ جاری ہے جس میں پاکستان پر الزام لگایا جاتارہا ہے کہ پاکستانی افواج نے بنگالی عوام کے خلاف مظالم کئے اور انہیں جان سے مارا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سابق پاکستانی کرنل جو راولپنڈی میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں کے مطابق 1970 ء میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد اقتدار کی منتقلی میں تاخیر خالصتاً پاکستان کا اندرونی معاملہ تھا لیکن بھارت نے اس طرف اس معاملہ میں کھلی مداخلت کی بلکہ اسی کو بنیاد بناکر پاکستان پر حملہ کیا اور پاکستان کے خلاف مکتی باہنی کی امداد اور انہیں بھارتی افواج، بی ایس ایف اور را کے ذریعے تربیت فراہم کی اور ان کی امداد کیلئے بھارتی پارلیمنٹ سے قرار داد منظور کرائی۔

رپورٹ کے مطابق 3دسمبر 1970 ء کو ہی بھارت نے ان باغیوں کو تربیت دیناشروع کردی جنہوں نے بعد ازاں مشرقی پاکستان میں سرکاری املاک پر حملے، قبضے اور پاکستانیوں کو بے رحمی سے قتل کیا۔ ستارہ جرات حاصل کرنے والے ایک اور پاکستانی فوجی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انڈیا نے جو کچھ مشرقی پاکستان میں کیا وہی کھیل اب بلوچستان افغانستان اور کشمیر میں کھیل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کی تشکیل ایک عالمی سازش کے تحت ہوئی جس میں شیخ مجیب الرحمان اور ان کی عوامی لیگ شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ 25مارچ 1971ء کو پاک فوج کی جانب سے ایکشن لینے سے قبل عوامی لیگ کے ورکروں نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے لئے پرتشدد حملے شروع کر دیئے تھے اور عوامی لیگ نے یوم پاکستان 23 مارچ کو بطور یوم سیاہ منایا تھا۔

Pakistan

Pakistan

پرتشدد واقعات کے بعد حکومت اور افواج پاکستان کے پاس کارروائی کے سوا اور کوئی آپشن نہیں تھا۔ رپورٹ کے مطابق بعض ممالک کی جانب سے 26 مارچ تا 16 دسمبر 1971ء کے عرصے کو سیاسی، فوجی ، سماجی، عالمی جنگ کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے تاہم پاکستان کے مطابق یہ خانہ جنگی تھی جس میں معاشرہ کے چند افراد کو ہمسایہ ممالک کی حمایت حاصل تھی، بنگالی عوام جانتے تھے کہ اس ساری صورتحال میں مکتی باہنیوں کو بھارتی امداد حاصل تھی۔ رپورٹ کے مطابق اس ساری خانہ جنگی میں کتنے بنگالی مارے گئے ، اس معاملہ پر بہت سی آراء سامنے آئی ہیں، چند بھارتی حلقوں کے مطابق اس میں 30 لاکھ، بعض کے مطابق 3 لاکھ اور بعض کے مطابق 1 لاکھ تھے تاہم پاکستان کے مطابق اس میں تقریباً26 ہزار لوگ لقمہ اجل بنے جبک حمود الرحمان کمیشن رپورٹ نے بھی پاکستانی تعداد سے اتفاق کیا ہے۔

معروف دفاعی تجزیہ نگار شرمیلا بوسے نے اپنی کتاب”ڈیڈری کوننگ” میں کہا ہے کہ اس حوالے سے افواہیں پھیلائی گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بعض حلقوں نے بنگالیوں کے مرنے کی جانب تو توجہ مبذول کرائی ہے لیکن مکتی باہنیوں کے ہاتھوں مرنے والے پاکستانیوں اور غیر بنگالیوں کی اموات کے حوالے سے کہیں نہیں بتایا گیا ان کی تعداد 30 سے 40 ہزار بتائی گئی ہے جسے بنگالیوں نے تسلیم کیا ہے۔ عالمی تبصرہ نگاروں کے مطابق 20 ہزار سے 2 لاکھ جبکہ امریکی کونسل کے مطابق 66 ہزار کے لگ بھگ غیر بنگالیوں کو مارا گیا۔ رپورٹ کے مطابق مشرقی پاکستان میں پہلے پاکستانی افواج کی تعداد 20 ہزار تھی۔ بعد ازاں اس کو دسمبر میں بڑھا کر 36ہزار کر دی گئی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ 93ہزار فوجیوں کو قید کیا گیا۔

یہ بات کس سے پوشید ہ ہے کہ بھارت نے ہی اپنے ہاں اگر تلہ میں عوامی لیگ کا ہیڈ کوارٹر بنایا۔ بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت بھارت میں قائم ہوئی اور پھر وہیں سے سارا مذموم سلسلہ آگے بڑھتا رہا۔ آخر کار بھارت نے لاکھوں فوجیوں کے ساتھ مشرقی پاکستان پر چاروں طرف سے ہلہ بول دیا اور بھارتی افواج بین الاقوامی سرحد روند کر پاکستانی حدود میں داخل ہو گئیں۔ پھر انہوں نے وہاں موجود پاکستانی فوج کو گھیر کر ہتھیار پھینکنے پر مجبور کر کے انہیں قیدی اور پھر غلام بنایا۔

نصف صدی ہونے کو آئی، آج تک دنیا میں کبھی کسی نے بھارت سے یہ نہیں پوچھا کہ اس نے دنیا کے کس قانون اور کس ضابطے کے تحت پاکستانی کی سرحد روندی تھی۔ لوگ کہتے ہیں بنگلہ دیش کے بننے میں فلاں سیاسی غلطیاں، فوجی آپریشن اور اس جیسے دیگر فیصلے اور عوامل تھے۔ یہ بھی صحیح ہے اور اس سے انکارنہیں کر سکتے، لیکن یہ سوال تو اپنی جگہ آج بھی وہیں کا وہیں ہے کہ آخر بھارتی فوج کو پاکستانی سرحد عبور کر کے پاکستان میں داخل ہونے اور پاکستانی فوج کو ہتھیار ڈال کر سرنڈر کر کے قیدی بنانے کا اختیار کس نے دیا تھا۔ مشرقی پاکستان کے ساتھ اگر مغربی پاکستان کے سیاسی اختلافات تھے تو ایسے اختلافات دنیا کے ہر ملک میں ہوتے ہیں۔ ہر ملک میں صوبوں اور ریاستوں کی باہمی چپقلش بھی ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ کیسے نکل یا کہ اس بنا پر پڑوسی ملک دوسرے ملک کی سرحد روند کر اس پر چڑھ جائے۔

اگر بھارت میں جگہ جگہ آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں تو کیا اس بنیاد پر پاکستان اور چین کو بھارت میں اپنی فوج داخل کر دینی چاہئے؟ اس پر تو سبھی انکار کریں گے کہ ایسا نہیں ہو سکتا لیکن پاکستان کے معاملے پر یہ بات کوئی کہنے کو تیار نہیں کہ بھارت نے ایسا کیوں کیا تھا؟ اگر بھارت اس طرح کا مکمل غیر قانونی اقدام کر کے لاکھوں پاکستانیوں کے قتل اور ایک عظیم ملک کے توڑنے کو روبہ عمل بنا سکتا ہے تو وہ اور اس کی باقی ہمنوا دنیا کشمیر کے مسئلہ پر کیوں شور مچاتی ہے کہ پاکستانی وہاں کی تحریک آزادی کا ساتھ کیوں دیتا ہے حالانکہ کشمیر میں مشرقی پاکستان میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

مشرقی پاکستان سو فیصد پاکستان کا طے شدہ حصہ تھا اور عالمی سطح پر سرحد تسلیم شدہ تھی جسے بھارت نے روندا تھا جبکہ مقبوضہ کشمیر تو دنیا کے ہر قانون اور ضابطے کے تحت ایک متنازعہ علاقہ بلکہ تقسیم ہند کے ضابطے کے تحت پاکستان کا ہی حصہ ہے پھر وہاں مخالفت کیوں؟ سانحہ مشرقی پاکستان کے 43سال مکمل ہونے پر یہی کہنا چاہیے کہ ہم اس سانحہ کو بھولنے اور مٹی ڈالنے کے بجائے اس کا حساب برابر کریں۔غیرت مند قومیں کبھی نہ تاریخ کو بھلاتی ہیں اور نہ اپنا بدلہ اور حساب لینا بھولتی ہیں۔ کم از کم کشمیر کو ہر ممکن راستہ اختیار کر کے آزاد کروائیں تاکہ سانحہ مشرقی پاکستان کا کچھ بوجھ تو ہماری گردنوں سے کم ہو۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر : علی عمران شاہین