تحریر: روہیل اکبر ایک بار پھر دہشت گردوں نے آرمی سکول پشاور میں بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا ڈالاوحشی درندوں اور ناسوروں کی طرف سے معصوم بچوں پر یہ کوئی پہلا حملہ نہیں تھابلکہ اس سے قبل بھی وہ کئی بار ہمارے پھولوں کو مسل چکے ہیں ان حیوانوں کے ظلم سے ہماری عبادت گاہوں سے لیکر تعلیمی درسگاہوں تک، بسوں ویگنوں سے لیکر ہوائی جہازوں تک، فٹ پاتھوں سے لیکر جلسے جلوسوں تک ،قبرستانوں ،درگاہوں اور درباروں سے لیکر شادی ہالوں تک اور این جی اوز کے دفاتر سے لیکر جی ایچ کیو تک کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں رہی جہاں وہ چاہتے ہیں۔
وہی پر دہشت گردی کی کاروائی کرڈالتے ہیں جسے ہم ان دہشت گردوں کی بزدلانہ کاروائی کہتے ہیں تو کبھی اسے بربریت کا نام دے دیتے ہیں جب بھی پاکستان کے کسی بھی شہر میں ایسی کوئی کاروائی ہوتی ہے تو حکومت میں موجود وزیر اعظم سے لیکر ایک مقامی تھانے میں بیٹھا ہوا منشی تک یہ بیان جاری کردیتا ہے کہ ہم ان دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے ہمیں اس دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہوئے تقریبا 20سال ہونے کے قریب ہیں مگر ان 20سالوں میں کسی بھی حکمران نے ان دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی کوشش کرنا تو درکنار اپنے گوشت پوست کے ہاتھوں سے بھی لڑنے کی زحمت گوارا نہیں کی بلکہ آج تک ہوتا تو یہی آیا ہے کہ جیسے جیسے ملک میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں اضافہ ہوا ویسے ویسے ہی ہمارے حکمرانوں انکے بچوں اور انکے حواریوں کی سیکیورٹی مزید سخت ہوتی گئی ایک گارڈ کے ساتھ نکلنے والا سیاستدان اب پورے پروٹوکول کے ساتھ باہر نکلتا ہے رہی بات حکمران طبقے کی ان کے لیے تو سینکڑوں گاڑیوں کا قافلہ انکی حفاظت کے لیے سات چلتا ہے اور سڑکوں کو مکمل بند کردیا جاتا ہے جن کے ووٹوں سے یہ سیاستدان حکمران بنتے ہیں۔
بعد میں پھر انہی ووٹروں کو مرنے اور مارنے کے لیے آزاد چھوڑ دیتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے ملک میں جمہوریت اور حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے جسکے ہاتھ میں ڈنڈا ہے اسی نے سب کو آگے لگایا ہوا ہے ایک طرف خیبر پختون خواہ کی پوری حکومت احتجاجی دھرنوں اور جلسے جلوسوں میں مصروف ہے تو دوسری طرف حکومت انہیں سبق سکھانے پر اپنا پورا زور لگا رہی ہے ملکی معیشت کا جنازہ پچھلے پانچ سالوں میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے نکال دیا تھا جو رہی سہی کسر باقی تھی وہ موجودہ حکومت پوری کرنے میں دل وجان سے کوشش کررہی ہے ملک کا سارا نظام درہم برہم ہوچکا ہے ایک طرف عوام بھوک ،افلاس اور غربت سے تنگ آئے خود کشیاں کرنے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف دہشت گرد ہمیں تباہ برباد کرنے میں لگے ہوئے اس وقت ملک میں خوشحال طبقہ صرف وہی ہے جو دیہاڑی باز ہے کسی نہ کسی طریقے سے انہوں نے اپنا الو سیدھا کر رکھا ہے۔
Peshawar Incident
انہیں نہ تو غریب عوام سے ہمدردی ہے اور نہ ہی ملک کے ساتھ کوئی حب الوطنی کا چکر ہے رہی سہی کسر ہمارے سیکیورٹی کے اداروں جن میں پولیس اور انٹیلی جنس اداروں نے پوری کررکھی ہے جن کی اکثریت ایسے افسران پر مشتمل ہے جو مختلف صحافیوں اور انکی رپورٹوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوتے ہیں ہمارے ان اداروں کی کارکردگی بہت اعلی رہتی اگر ان میں سیاسی بھرتیاں اور سیاسی اثرو رسوخ نہ ہوتا یہی وجہ ہے کہ آج ان سیاستدانوں کی وجہ سے ہمارے ہر ادارے کا برا حال ہو چکا ہے کہیں کوئی کام کا آدمی نہیں ہے اگر ہے تو اسے کام کرنے نہیں دیا جاتا بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گذرنے والی گذشتہ نصف نے ہماری تربیت ہی ایسے کردی ہے کہ ہم لوٹ مار کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور ہر جانے والے دن کے ساتھ ہی ہم اپنی قدریں بھی کھو رہے ہیں ملک اس وقت عجیب قسم کی صورتحال سے گذر رہا ہے ایک طرف لوٹ مار کا بازار گرم ہے تو دوسری طرف لوٹ مار کرنے والے للچائی ہوئی نظروں سے لوٹ مار کرنے والوں کی طرف دیکھ رہے ہیں یہاں موقعہ ملنے کی آس میں سبھی انتظار کررہے ہیں کہ شائد کسی نہ کسی طرف سے ایک صاف ستھری اور لمبی دیہاڑی لگ جائے تو پھر باقی کی زندگی سکون سے گذر جائیگی ہر انسان اپنی ضروریات کو پوری کرنے کے چکر میں پہلے اپنی خواہشوں کا گلہ گھونٹ رہا تھا اب اس نے دوسروں کا گلا دبانا شروع کردیا ہے صنعت کار طبقہ مزدوروں کا خون پی رہا ہے اور شوگر مل مافیا ہمارے غریب کسانوں کا رس نکال رہا ہے اور رہ گئی حکمران طبقے کی بات وہ نہ تو کسی کی بات سنتے ہیں اور نہ ہی کسی کو قریب آنے دیتے ہیں جو انکے قریب ہیں وہ صرف انکی ہاں میں ہاں ملانے والے ہیں کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرینگے تو پھر انکی وزارت اور مشاورت خطرے میں پڑ جائیگی۔
گذرنے والے ہر دن کا اگر ہم موازنہ کریں اور دنیا میں ترقی کی رفتار دیکھیں تو ہماری آنکھیں کھل جائیں گی کہ ہم تو ترقی یافتہ قوموں سے صدیوں پیچھے ہیں اور یہ فاصلہ دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے ہمیں جس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے اسکی تو کوئی منزل ہی نہیں ہے اور خود ہمارے لیڈروں نے اپنی آنے والی نسلوں کو بھی حکمرانی کے لیے تیار کرلیا ہے رہ گئی بات عوام کی وہ اور انکی نسلیں اپنی مدد آپ کے تحت بچ جائیں تو غازی دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ جائیں تو پھر شہید۔