تحریر: یاسر عرفات کوئی بتائے کہ ہم میں سے کتنے ہیں جنہیں یاد ہے کہ ابھی کل ہی مردان کے ایک اسکول میں معصوم بچوں کے چیتھڑے خود کش حملے میں اڑادیئے گئے تھے۔ کس کے حافظے میں وہ دل دوز منظر سلامت ہے جب پشاور میں بچوں کی ایک وین کو گھیر کر تین اطراف سے گولیاں چلائی گئی تھیں۔ کس کی نگاہیں اب تک گواہی دیتی ہیں بولان میڈیکل کالج کی کہ جب کمروں میں گھس کر خواتین کے بھیجوں میں گولیاں اتاری گئی تھیں۔ کسے یاد پڑتا ہے کہ معصوموں کی اس وین پر بھی مجاھدینِ فی سبیل اللہ نے گولیاں برسائی تھیں جس میں کم سن ملالہ یوسفزئی بیٹھی ہوئی تھی۔ کیا کسی کو یاد ہے مون مارکیٹ کا وہ دھماکہ جس میں خواتین بوڑھے اور بچوں کی دھجیاں دو کلو میٹر دور تک پھیلی ہوئی ملی تھیں۔ کسے پتہ کہ ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب پشاور کی مسیحی برادری کے دیڑھ سو سے زائد بچوں عورتوں بوڑھوں کو نیزوں پہ اچھالاگیا تھا۔
جمعہ کی نمازوں میں وہ سجدہ ریز پیشانیاں بھی کسی کو یاد ہیں جو بارگاہِ ایزدی سے واپس اٹھ نہیں سکیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ ابھی جو کچھ دیر پہلے واہگہ بارڈر سے جو چیخیں سنائی دے رہی تھیں وہ اب بھی یماری سماعتوں کو یاد ہوں گیں۔ نہیں ۔ ہمیں یاد نہیں۔ ہمیں کیوں یاد ہوں۔ ہم منظر کے اسیر ہیں۔ یہ جو ہم ماتم کررہے ہیں اور سروں پہ خاک ڈال کر بین کررہے ہیں یہ ہم اپنی جبلت کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ ہم پاکستانی ڈراموں میں دکھنے والے منظر پہ رودیتے ہیں تو ان بچوں پہ کیوں نہیں روئیں گے؟ ہمارے دل کمزور ہیں۔ ہم سے خون دیکھا نہیں جاتا۔ ہم سے چیخیں سنی نہیں جاتیں۔ ہماری سماعتیں کسی کی گریہ وزاری کی تاب نہیں لاتیں۔ کسی کی آہ وفغاں برداشت نہیں کرسکتی۔ ہمارے اعصاب چٹخے ہوئے ہیں ہم اس لیئے سوگ منارہے ہیں۔ یہ سوگ کتنے دن ہوگا۔ تین دن؟ چار دن؟ اس سے زیادہ دس دن؟ مجھے قسم ہے میرے رب کی کہ اس سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ بالکل نہیں ہوسکتا۔ جاؤ ایک نگاہ ڈال لو پورے سماجی میڈیا پہ۔ ایک ایک شخص کی وال کنگال لو۔ آپ کو خون میں تڑپائے جانے والے صرف ان بچوں کی تصویریں ملیں گیں جو خوبصورت ہیں۔ جو حسین ہیں۔ جن کا لباس اجلا ہے۔ جن کے پوز دل کو موہ لینے والے ہیں۔
جن کے بال سلیقے سے بنے ہوئے ہیں۔ کیوں؟ کیا وہ غریب کا بچہ جو مرا وہ انسانیت کی تعریف پر پورا نہیں اترتاتھا؟ وہ کسی کی ماں کا جو بدصورت بچہ خون میں نہلایا گیا وہ اس قابل نہیں ہے کہ اس سے پیار کیا جائے؟ کیا ان کی تصویریں ہمارے ہاتھ نہیں لگیں؟ یہ سوگ ہے؟َ یہ ماتم ہے؟ یہ درد و الم ہے؟ ہمدردی ہے؟ کوئی جائے اور اس منافق معاشرے کو بتائے کہ تمہارے اس رویئے کو لونڈے بازی تو کہا جاسکتا ہے انسان پروری نہیں کہا جا سکتا۔ جو منہ اٹھاتا ہے وہ کہتا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین سانحہ تھا۔ کیا تم واقعی اتنے سیدھے ہو؟ اگر ہاں تو پھر نہاؤ دھو اور منہ کو تالے لگا کر اپنے اپنے کام پہ نکلو۔۔۔ اگر سیدھے نہیں تو پھر سوچو کہ یہی الفاظ ہم ابھی پچھلے برس ہونے والے سانحات پہ بھی دوہرا چکے ہیں۔ جب تم آج کے سانحے کو بدترین سانحہ کہتے ہو اس کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ تمہارے حافظوں سے ابھی کل کے سانحے اترچکے ہیں۔ یہ کیسا تماشا ہے؟ طالبان مجرم ہیں؟ مولوی مجرم ہے؟ فوجی مجرم ہے؟ نہیں۔
اس قوم کا اجتماعی شعور مجرم ہے۔ ہر وہ انسان مجرم ہے جو معاشرتی علوم اور پی ٹی وی کی ترتیب دی ہوئی تاریخ پہ یقین رکھتا ہے۔ مولوی اسے نہیں کہتے جو مدرسے سے پڑھ کر نکلا۔ یہاں ڈاکٹر کے دانت چیک کرو اس کی ذات میں ایک مولوی عبدالعزیز بستا ہے۔ انجینیئر کا جائزہ لو اس کی گفتگو میں ابوبکر البغدادی سانسیں لیتا ہے۔ لبرل جرنیل کے سینے پہ ہاتھ رکھو تو اندر کوئی حکیم اللہ محسود دھڑک رہاہوتا ہے۔ اصل معاملہ کیا ہے؟ معاملہ یہ ہے کہ آج بھی ہمارا اجتماعی شعور تاریخ کے چوراہے پر بے غیرتی کی بکل مار کے بیٹھا ہوا ہے۔ ہم روئیں گے زار زار اور ہزار بار، مگر یہ دیکھنے کو تیار نہیں کہ یہ تباہی کن کے ہاتھوں پھیلی؟ جن کے ہاتھوں پھیلی ان کی راہوں میں تم دیدہ وہ دل فرش راہ کیئے رکھتے ہو۔۔۔ ایسا نہیں ہے؟
Facebook
اس اسلامی جمہوریہ فیس بک کا کیا کیجیئے؟ چڑھ چڑھ کے آتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ملاؤں نے مذمت کی ہے۔ میری جان مذمت تو ان کے اچھے بھی کریں گے۔ سوال مگر یہ ہے کہ ان مذمتوں میں ’’مگر‘‘ کا مکر کیوں شامل ہے؟ چونکہ چنانچہ میں گفتگو کیوں لپٹی ہوئی ہے؟ اگرچہ مگرچہ کا سہارا کیوں لیا جارہاہے۔ مان لیجیئے کہ یہ اسی تعلیم کا برگ وبار ہے جو تعلیم مقدس درس گاہوں میں دی جاتی ہے۔ انہی غلط تعبیروں کا شاخسانہ ہے جو شیخ کے مکتب میں الفاظ بدل بدل کر دی جاتی ہے۔ آپ انکار کریں۔ سو بار کریں۔ ہم اظہار کریں گے۔ ہم نام لیں گے۔ ہم بتائیں گے اپنے تجربات اور اپنے مشاہدات۔۔۔ دل پہ ہاتھ رکھیئے اور سنیئے کراچی کے سب سے بڑے مدرسے کے سب سے بڑے مفتی کا فتوی میرے سامنے ہے۔ فرماتے ہیں وزیرستان میں قتل کیئے جانے والے فوجی اہلکار جہنمی ہیں اور ان کا جنازہ جائز نہیں ہے۔ آؤ اس پہ لعنت کرو۔ کرو گے؟
کراچی کے سب سے بڑے مدرسے کے استاد کی چھ تقریریں انہی طالبان کے حق میں یہ رہیں میرے سامنے۔ کہتے ہیں کہ وزیرستان میں ہونے والی شورش در اصل خراسان والی حدیثوں کی تکمیل کا نقطہ آغاز ہے۔ آؤ اس کی مذمت کرو۔ کروگے؟ اکوڑہ خٹک کے بہت معروف مدرسے کے بہت نامور استاد الحدیث کی تاویلیں میرے سامنے پھیلی ہیں۔ واضح تاویلیں آؤ ان سے سوال کرو۔ کرو گے؟ ابھی کل مینار پاکستان پہ جن صاحب نے قتال کے کلچر کی بات کی انہی صاحب نے ببانگِ دہل کہا کہ یہ دہشت گرد شہید ہیں۔ ان کا بیان میرے سامنے ہے۔ آؤ ان کا گریبان پکڑو۔ پکڑو گے؟ صرف کراچی میں تیرہ مدارس کے نام میں بتاؤں گا جہاں ٹی ٹی پی کے غنڈوں اور بدمعاشوں کو پناہ دی جاتی ہے۔ عزت دی جاتی ہے۔ سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ تم بھی جانتے ہو میں بھی جانتاہوں۔
آؤ ان مدارس کا اور شخصیات کا گھیراؤ کرو۔ کروگے؟ بے شمار منبروں پہ وزیرستان کے لفنگوں کے حمایتی بیٹھے ہیں۔ تم بھی جانتے ہو میں بھی جانتاہوں۔ آؤ ان کو ٹانگ سے پکڑ کر نیچے اتارو۔ اتاروگے؟ ٹی ٹی پی نے ایک خط لکھا۔ ملک بھر کے اکتالیس علما کو بھیجا۔ عنوان دیا کہ اگر ہم غلط ہیں ہماری اصلاح کیجیئے۔ خط بھی یہ رہا میرے سامنے۔ آج تین برس ہوگئے۔اکتالیس علما میں سے ایک نے بھی جواب نہ دیا؟ کہاں گئے وہ اہلِ حق اہلِ حق کے دعوے اور نعرے؟ کہاں چھپا کے رکھ دیا اپنا مبلغ علم؟ ایک کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی وہ زبان موڑ کے پیٹ میں کیوں رکھ لی۔؟ یہ سوال ہے آؤ ان اکتالیس علما سے یہ سوال کرو۔۔۔ کروگے؟ کل رات مولانا عبدالعزیز نے میڈیا کے سامنے واقعے کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا۔ حملے کے جواز پر ایسے ویسے کے سہارے لیئے۔ آؤ ان کو گدی سے پکڑکر اذیتوں کا حساب مانگو۔ مانگو گے؟ نہیں؟ کوئی کسی سے سوال نہیں کرے گا؟ کوئی گریبان نہیں پکڑے گا۔ کوئی حساب نہیں مانگے گا۔ کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔ یہ کائنات الٹ کر کیوں نہ رکھ دی جائے کوئی کسی بھی معتبر ہستی کے گرد گھیرا تنگ نہیں کرے گا۔۔ جب نہیں کرے گا، تو پھر اے اسلامی جمہوریہ فیس بک کے پوپ کارن ڈھکو سلو۔!! ہٹادو اپنی ڈی پی سے یہ سیاہ تصویریں۔ روک لو اپنی ان آہوں اور سسکیوں کو۔ مٹادو اپنی یہ گھسی پٹی شاعریاں۔ ختم کردو یہ سوگ۔ بند کردو یہ ڈرامے۔
جب بات پہ ہی نہیں آتے تو کہاں کی سوگواری۔ سارے مجرم تمہاری صفوں میں بیٹھے ہیں۔ اگر تم کل مارے جانے والے ان معصوم پھول بچوں سے مخلص ہو اگر تمہارے آنسو وں میں ملاوٹ نہیں ہے، تو آؤ ایک ایک کو پکڑو اور اپنی صفوں سے باہر نکال پھینکو۔ ان کی تقدیس کی دھجیاں بکھیر دو۔ ان کی حرمت کے بخیئے ادھیڑدو۔ ان کی عود و عنبر میں بسی ہوئی قباؤں کو بے باکی سے نوچ لو۔ ان کی دستار کا ہر تار کھینچ ڈالو۔ یوں ہوگیا تو تمہارے آنسووں سے میں اپنے قلم کو وضو کرواؤں گا۔ تمہاری سو گواریوں کی میں بلائیں لوں گا۔ تمہاری مذمتوں کو میں عقیدت کے غلاف میں لپیٹ کر احترام کے طاقچوں میں سجاؤں گا۔ ورنہ تمہاری ہر تاویل کو میں قلم کی نوک پہ اور ایڑھی کے نیچے رکھتاہوں۔ ڈنکے کی چوٹ پہ۔ سینہ ٹھوک کے۔