تحریر: ملک جمشید اعظم میں کس کے نام لکھوں جو الم گزررہے ہیں میرے شہرجل رہے ہیںمیرے لوگ مررہے ہیں کیا لکھوں کچھ سمجھ نہیںآرہا،آج معلوم ہوادراصل الفاظ ختم ہوناکسے کہتے ہیں۔آج دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ آج پہلی باراندازہ ہواہے کہ یوم سیاہ کیا ہوتا ہے۔ دنیا کی تاریخ میںایسے بدترین سانحے کی مثال نہیںملتی۔پاکستان دہشت گردی کی زدمیںتوکافی عرصے سے ہے مگراب اس دہشت گردی کے سفاک پنجوںنے پاکستان کے اسکولوںکوبھی اپنی لپیٹ میںلے لیاہے۔درندہ صفت حیوانوںنے پشاورمیںآرمی پبلک اسکول وکالج میںموجودقوم کے130سے زائدمعماروںکوموت کی نیندسلادیا۔یہ واقعہ قیامتِ صغریٰ سے کم نہیںہے۔
جس پرہرملک کی فضاسوگوار اورہرآنکھ اشکبارہے۔آنسو،آہ وبکا،چیخیں،تکلیف،فریاد،آہیں،بین کرتی مائیںاورضبط کے آخری لمحات سے گزرتے باپ کودیکھ کرپتھردل انسان بھی آنسوبہائے بغیرنہیںرہ سکتا۔وہ ماںجس نے اپنے لعل کے یونیفارم کی استری تازہ کی ہوگی اوراس کی گال پرممتابھرابوسہ دے کررخصت کیاہوگا،اگراسے معلوم ہوتاکہ یہ اس کے بچے کے رخسارپراس کادیاگیابوسہ آخری ہو گا تو وہ ہرگز وہ بوسہ نہ دیتی۔اسے اگرکوئی بتادیتاکہ بیٹے کی تقدیرمیںماںکے بوسوں اور دعائوں کی تعدادبھی مقررہوتی ہے تووہ ہزارللچانے کے باوجودآخری بوسہ ابدالآبادتک بچائے رکھتی۔
آخری باردعانہ دیتی۔سوگ، مذمتی بیانات ،دکھ، افسوس کااظہار،متفقہ قراردادوںکی منظوری مجھے یہ سب اس ماںکے سامنے بہت چھوٹے محسوس ہورہے ہیں۔جس ماںکویہ تک نہیںپتہ کہ اس کے پھول جیسے خوبصورت بیٹے کوکس جرم کی سزادی گئی ہے۔ پاکستان کہ ہرشہری کہ ذہن میںاس وقت ایک ہی سوال ہے ۔کہ آخریہ دہشت گردکون لوگ ہیں؟کوئی ان دہشت گردوںکومسلمان کہتاہے اورکوئی کافر،کوئی انہیںطالبان کہتاہے اورکوئی انڈین۔میرے خیال میںیہ جولوگ بھی ہیںلیکن مسلمان نہیںہیں۔ان کی اصلیت جاننے کہ لئے صرف اتناجوازہی کافی ہے کہ جو لوگ نعوذباللہ مساجدکے اندردھماکے کرتے ہیں،وہ کسی صورت بھی مسلمان نہیںہوسکتے۔ایک بدترین سے بدترین اورانتہائی نچلے درجے کا مسلمان بھی ایساکام نہیںکرسکتا۔اسی طرح اسلام میںایک بے گناہ انسان کاقتل،پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ان بے غیرتوںنے تومعصوم بچوںکے خون کی ندیاںبہادی ہیں۔پھریہ کیسے مسلمان ہوسکتے ہیں۔یہ منافق ہیںیہ کافرہیںبلکہ یہ انسان ہی نہیںہیںیہ جانورہیں۔
Pak Army
پاکستان میں عرصئہ دراز سے دہشت گرد تباہی مچا رہے ہیں لیکن ہربم دھماکے کے بعد، ہرقتل کے بعد حکمرانوں کے مذمتی بیان آ جاتے ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتاہ ے ۔آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا ؟پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے ۔پاکستانی فوج دنیاکی بہترین فوجوں میں سے ایک ہے۔ جس کہ پاس اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے وسائل اورطاقت کی کمی نہیںہے۔ہمیںپاکستانی فوج پرفخرہے ۔اورمیںیہ بات بہت فخرسے کہہ رہاہوںکہ اگرپاکستانی فوج کھل کرکام کرے توان دہشتگردوں کا صفایا دنوں میں کر دے۔
پھرکیوںپاکستانی حکمران صرف مذمتی بیانوںپرگزارہ کرتے ہیں۔کیوںان دہشت گردوںسے نجات حاصل کرنے کیلئے کوئی جامع پلان نہیںبناتے۔مجھے تویہ سمجھ نہیںآرہی ہے کہ پشاورواقعہ پرجاری ہونیوالے مذمتی بیان اُن معصوم بچوںکی مائوںکے زخموںپرمرہم کااثرکریںگے یامرچوںکا،جوخون کابدلہ خون چاہتی ہیںلیکن اُنہیںصرف دلاسوںاوراُمیدوںپربہلایاجارہاہے۔ دہشت گردکسی پاکستانی کوقتل کرتے ہوئے یہ نہیںسوچتے کہ یہ سندھی ہے،بلوچی ہے،پنچابی ہے ،پٹھان ہے،سنی ہے،وہابی ہے،شیعہ ہے یادیوبندہے،مقتول کاتعلق تحریک انصاف ،ن لیگ ،پیپلزپارٹی ،ایم کیوایم سے ہے یاعوامی نیشنل پارٹی سے ہے۔
دہشت گردوںکیلئے وہ ہرآدمی قتل کے لائق ہے جواُن کی بات نہیںمانتا۔جواُن کی آمریت کاانکارکرتاہے۔پاکستانی حکمرانوںکوچاہیئے کہ اب وہ بھی سندھی ،بلوچی،پنچابی اورپٹھان کی جنگ سے باہرنکل کرایک پلیٹ فارم پرجمع ہوجائیںاوردہشتگردوںکاجتنی جلدی ہوسکے مکمل صفایاکرنے کی کوشش کریں،اس سے پہلے کہ یہ بزدل لوگ مزیدکسی ماںکی گوداُجاڑدیں،مزیدکسی معصوم بچے کی زندگی کوموت میںبدل دیں،مزیدکسی ماںکالال گھرسے حصولِ علم کیلئے نکلے لیکن سکول سے ہی جنت میںپہنچ جائے،گھرجانے کاموقع ہی نہ ملے۔ مائیں دروازے تکتے رہ گئیں بچے اسکول سے جنت چلے گئے