تحریر : فرحین ریاض ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز ظالم اب کے بھی نہ رویا تو مر جائے گا اے میرے مالک، اے میرے پرورگار! دن کو رات اور رات کو دن میں بدلنے والے میرے دیس پر چھائی اس کالی رات کی سحر کر دے ” امین ” رو رہا تھا کہ آج اسکول نہ جاؤں گا ماں کاش آج میں نے اُس کی سنی ہوتی جانے کیا بات تھی! میرا بچہ رات بھر مجھ سے لپٹ کر سویا تھا ، صبح ! روتے ہوئے اُٹھا تھا” اماں میں اسکول نہیں جاؤں گا ”، میں نے پیار سے، ڈانٹ ،کر اسے کپڑے پہنائے تھے پیار سے سمجھا یا بہت ضد کرنے لگے ہو، میرا بچہ پھر بولا ” اماں میری اسکول سے آج کی چھٹی کروالو میں اسکول نہیں جاؤں گا ”، ہلکے سے ڈانٹ کر میں نے پر اٹھے کا نوالہ اُس کے منہ میں ڈالا ، اور اُسے سمجھا یا ”تمھیں کرنی ہے اس قوم کی خدمت ، تمھیں اس ملک کو دشمنوں سے محفوظ رکھنا ہے ، پڑھ لکھ کر ہی اس ملک کا نام روشن کر نا ہے ایک فوجی جوان بننا ہے جب پڑھو گے نہیں تو کیسے اس ملک دشمنوں سے کو محفوظ کر سکوگے ؟” اس نے جاتے وقت میرا آنچل مٹھی میں جکڑ لیا ، جانے کیا بات تھی آنسوں بھری آنکھوں سے وہ مجھے مڑ مڑ کردیکھتا رہا، دل میرا بھی اُداس ہوگیا جانے کیا بات تھی میرا دل کیوں بار بار گھبرا رہا تھا ، گھر کے کاموں میں بھی دل نہیں لگا ، دھیان میرا بھی اپنے بچے کی طرف جا رہا تھا ، اس کی پسند کے کھانے بنائے ، ناراض ہے وہ مجھ سے مگر، میں اُس کو منا لوں گی ، اس کی تمام چیزوں کو صاف کر کے رکھا۔
کپڑے اس کے نجانے کیوں چومے تھے ، پھر اچانک دل ایک دم زور سے دھڑکا تھا میری آنکھیںبند ہونے لگیں ایک قیامت کا منظر تھا . . . . ! ، آنچل کسی نے میرا زور سے کھینچا تھا ، ”اماں مجھے آج اسکول نہیں جانا ، اماں مجھے اسکول نہیں جانا” میں نے کہا تھا نا مجھے اسکول نہیں بھیجو آج اس سے پہلے میں اسکا ہاتھ تھام لیتی وہ دور بھاگا ، میرا بچہ مجھ سے خفا ہو گیا میرے بچے میں پھر اسکول نہیں بھیجوں گی ، ہر طرف اندھیرا تھا ، آجا میرے بچے مجھ سے خفا مت ہو ، اندھیرا ہر طرف پھیل گیا تھا ، میرا بچہ مجھے مل نہیں رہا ، میرا بچہ مجھ سے جدا ہو گیا ،میرا بچہ مجھ سے خفا ہوگیا، میرا بچہ مجھ سے کہیں کھو گیا . . . . . . ! میں انتظار کرتی ہی رہ گئی کاش میں نے اپنے بچے کو اسکول نہ جانے دیا ہوتا ، ہ میرے پاس ہوتا . . . . . ؟ پھر لہو صبح کا ستارہ ہوا پھر وہی سانحہ دوبارہ ہوا۔
یہ ایسا سانحہ ہے اس میں دکھ ، تکلیف، صدمہ، بے بسی ، لاچاری وہ سب الفاظ مگر اس سانحہ کے بعد اب تو لغت کے تمام الفاظ کم پڑتے نظر آرہے ہیں اب درد تھمنے میں کس قدر سمے لگے گا ، یوں ہی تو دسمبر اداس نہیں تھا ، کاش ہم اپنا حافظہ بھی کھو سکتے ، یا صرف جی بھر کہ رو سکتے ،مگر کیا کہیں یہ کیسا کھیل تماشہ ہے کوئی آتا ہے کوئی جاتا ہے آنا جانا ایک کھیل بنا ہوا ہے کل جس کے بچے بھوکے تھے آج بھی بھوکے ہیں کل جو مر رہے تھے آج بھی مر رہے ہیں کیا فائدہ ان حکمرانوں کا . . . .؟ یہ حاد ثہکوئی نیا نہیں بس طریقہ کچھ نیا ہے مرنے والے کچھ نئے خاندان ہیں، پہلے بھی کتنی ماؤں نے اپنے کلیجے اپنے جسم سے الگ کر دئیے ہوں گے ہماری حکومت صرف کرسی بچا سکتی ہے یا نسلوں کی سیاست کر سکتی ہے اب تو خدا را ان مرجھائے ہوئے پھولوں پر رحم کھاؤ ، ان 100سے زائد خاندانوں پر رحم کرو اب تو اس ملک پر رحم کرو ایک دوسرے کو الزام دیتے ہیں کہ اس نے یہ کیا اِ س نے وہ کیا پشاور کا سانحہ پر ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہیں کہ اس نے سکیورٹی نہیں دی ، اُس کی ذمہ داری تھی اب تو ان معصوم بچوں کی بے گناہ لاشوں کو ہی دیکھ لو جو پہچانے نہیں جا رہے ، ان کو کیا صرف پاکستانی ہونے کی سزا ملی ہے . . . . ؟ ان132ماؤں کو کس بات کی سزا ملی ہے۔
Injured Children
انھیں ابھی اپنی زندگی شروع کرنا تھی ماں باپ کے سپنے پورے کرنا تھے ، اپنی بھنوں کی حفاظت کرنا تھی ، یہ انسانیت کے دشمن ، ان کو بچوں کی معصومیت نظر نہیں آئی وہ کس طرح تڑپ رہے ہوں گے اپنے ماں باپ کو پکار رہے ہوں گے آہوں اور سسکیوں میں کتنے چراغ گل ہو تے جارہے ہیں یہ کون سا مذہب ہے جو معصوم بچوں کو شہید کرنے کا حکم دیتا ہے یہ کون لوگ مذہب کے نام پر ان معصوم بچوں کو موت کی نیند سلاگئے یہ کیسی دشمنی ہے جو ان ماؤں کی گود اجاڑ کربھی ختم نہیں ہوپا رہی ، ہر آنکھ میں آنسو ہیں ، پوری قوم اداس ہے ، ایک دوسرے کی لڑائی میں صرف دشمن ہی فائدہ اُٹھاتا ہے ، یہ کیسی روایت ہے یہ کیسا بدلہ ہے جو ان بچوں کو خون سے نہلا دیا ہے یہ صرف اسلام دشمن لوگ کا کام ہے یہ ہمارے مذہب اسلام کو کسطرح استعمال کیا جا رہا ہے کیا یہ جہاد ہے یہ انسانیت کی اس طرح تزلیل ، یہ کیسی بر بریت ہے ، یہ انسانیت کے دشمن ، یہ ملک کے دشمن ان کو انسان کہنا انسانیت کی تزلیل ہے ، یہ وہ حیوان ہیں جو اپنے بچوں کو بھی بھوک میں کھا جاتا ہے ، ہمیں صرف قانون بنا بنا کر جمع کر نے کا شوق ہے ، لاتعداد قانون بن کر بھی دہشت گردی ختم نہیں کر سکے کس طرح آرام سے معصوم بچے اُس ظالم موت کے ہتے چڑ گئے کس طرح معصوم بچے اس کی لپیٹ میں آگئے؟یہ صرف اسلام دشمن لوگ کا کام ہے یہ دشمن ہمیں ختم کر سکتے ہیں ہمارے حوصلہ نہیں ، ہم آج بھی ایک قوم ہیں ،ہم وطن کی خاطر شہید ہیں ہم ان دشمنوں کی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہیں ، ان دشمنوں کو کہیں منہ بھی چھپانے کی جگہ نہ ملنے ہمیں اپنے درمیان چھپی ان کالی بھیڑ کو تلاش کرنا چاہیے ان دشمنوں کو عبرت ناک سزا دینی چاہیے تاکہ کوئی اور ان ماؤں کے جگر چھلنی نہ کر سکے ، ان غمزد ہ باپ کو سہارا نہ چھین سکے اڑنے کے لیے صرف پر کافی نہیں ہوتے طاقت کافی نہیں ہوتی عزم و حوصلہ بھی چاہیے ہوتا ہے جو ان دشمنوں کے پاس نہیں ہے ان بچوں کے ماں باپ سے حوصلہ سیکھو ، ان لوگوں سے حوصلہ سیکھو، تو تمہیں ڈوبنے کے لیے پانی بھی نصیب نہیں ہوگا
ہمیں یہ نہیں چاہیے کہ فلاح سڑک دنیا کی سب سے بڑی سڑک ہے ، یہ پیسے آپ کے ہیں یا کسی سے مانگے ہیں ؟ آپ نے کتنے کام ہماری بھلائی کے لئے کئے ؟کتنے لاکھوں کے تحفہ تحائف بھیجے گئے ؟ لاکھوں کے بیگ کی نمائش نہیں کریں ہمیں کچھ نہیں جاننا ان غریب لوگوں کو اپنا سمجھیں ، ہمیں کچھ نہیں سمجھنا ہمیں صرف ہمارے بچوں کا تحفظ چاہئے ، ہمیں اس ملک میں صرف تحفظ چاہیے اس خون کی سیاست بند کردو ، اپنے ساتھ جوسیکیورٹی دستہ رکھا ہے اس میں سے تھوڑے ان غیر محفوظ جگہ کو محفوظ کرنے میں لگا دیں خدا کے واسطے اس سانحہ کو صرف قومی سانحہ قرار دے کر جان نہیں چھڑائیں ، اس کی روک تھام کے لیے کچھ اقدامات کریں ، جب قیامت گزر جاتی ہے تو انتظام کیوں ہوتے ہیں ،. . . . .؟ یہ کھیل تماشہ بند کرو ، ہمیں چہرے نہیں نظام بدلنا ہے ہمیں چلنا تھا سو ہم چلتے رہے ، ہم چلتے چلتے گرتے ہیں پھر رو پڑتے ہیں رات کو مات نہیں ہوتی ہے ایک نیا دن نکلتا ہے مگر پیروں میں نہ جان ہے باقی نہ آنکھوں میں ہیں خواب . . . ! کیا یہی ہے ہماری اہمیت کیا یہی ہے انسانیت ؟ آج ہماری قومی زندگی کے چراغ بھی ہواؤں کی زد پر ہیں ، داخلی اور خارجی طور پر ہم تیز تند ہواؤں کا سامنا ہے چھیاسٹھ برس سے ہم اس طوفان کی زد میں ہیں ہمیں تو دنیا کے سامنے محکوم و مظلوم قوم کے لیے مشعلِ راہ بننا تھا عالم ِ اسلام اور تیسری دنیا کے لیے حرکت و توانائی کا سر چشمہ بننا تھا کیا روشنی کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوگا. . .. . . ؟ ہم اس دئیے کی سب سے بے مایہ ، بے جوت کرن سہی مگر مجھے یقین ہے کہ روشنی کے خواب کبھی نہیں مرتے اور پھرہمارے ساتھ ہم سفر، ہمنوا ، ہم نفس تو18کروڑ جگمگاتی کرنوں کے خواب ہیں جن کی تاریخ کہتی ہے کہ نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے راستے میں چراغ ہم نے جلائے ہوا کے راستے میں
اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو تقدیر سمجھلینا اپنی ناکامیوں کو قسمت کا لکھا سمجھ لینا ، خود کو مظلوم و محکوم سمجھ لینا یہ زندہ لوگوں کو زیب نہیں دیتا ، کیونکہ تند و تیزہوا صرف بجھانے اور بکھیرنے کے لیے نہیں چلتی بلکہ اونچی اُڑان کے لیے بھی چلتی ہے جو دشمنوں کی تباہی اور بر بادی کو سامان بنتی ہے ان سے ڈر نے والے بلوں میں منہ دے کر ہی بیٹھ سکتے ہیں ا فرد اور قوموں کی زندگی میں نشیب وفراز آتے رہتے ہیں ، روشن راستوں پر ہموار سفر کے دوران تنگ وتاریک سرنگیں بھی آتی ہیں ، دشوار گزار گھاٹیاں بھی پڑتی ہیں گہری کھائیاں بھی قدم ڈانوڈول کرتی ہیں ، ایسے میں کئی لوگ اس دعوے کے ساتھ سامنے آتے ہیں کہ قافلے کو ان پر ُپیچ راہوں سے ہم ہی منزل تک لے جاسکتے ہیں ،ہر ایک دعویٰ دار ہے کہ صرف وہی چراغِ سفر ہے اور باقی سب محض مصنوعی دیے ایسی صورتحال میں صرف فیصلہ ہوا کے ہاتھ میں ہوتا ہے اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا ان معصوموں کو اللہ نے اپنی آغوش میں چھپا لیا ہے ، اس منافق، جھوٹے لوگوں کے بیچ ان معصوموں کا کیاکام ، یہ دُعا ہے میرے رب رحم کر رحم کر ،میرے یارب ہوئے ہیں بہت گناہ پیشماں ہیں ہم اپنی نگاہ ِ کرم کر دے یا رب جو اس حادثے کی نظر ہوئے وہ تیرے بندے ہیں جنت کے وہ معصوم پھول ہیں وہ ان پر کرم کر میرے مالک تجھ سے دُعا ہے بخش دے، اے میرے مالک، اے میرے پرورگار! ان لوگوں کو صبر دے میرے مالک ، اے میرے پاک پروردگار ان انسانیت کے دشمنوں کا خاتمہ کر دے اور ان معصوموں کی قربانی رائیگاں نہیں کرنا دن کو رات اور رات کو دن میں بدلنے والے میرے دیس پر چھائی اس کالی رات کی سحر کر دے ” امین ”