تحریر : ڈاکٹر خالد فواد الازہری ایک آدمی بہت زیادہ نشہ کرتا تھا، ہمیشہ وہ نشہ کی حالت میں گرفتار ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو وہ حالت نشہ میں تھا۔حاضرین میں سے ایک نے کہا کہ ”لعنت ہوتم پر ہمیشہ سزاکے لیے اس حالت میں لائے جاتے ہو”۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ناراض ہوئے اور آپ نے فرمایاکہ” تم اس کو ملامت نہ کرو !برابھلانہ کہو!کیوں کہ یہ اللہ اور اس کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسند کرتاہے”۔بہت سے علما ء نے اس واقعہ کو تعجب و حیرت سے لیا اور انہوں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک آدمی اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتاہواور پھر بھی نافرمانی کرے ؟کسی پر حکم اس کے ظاہر کو دیکھ کر نہیں لگایا جاسکتا۔
بلکہ ہمیشہ کوئی بھی حکم انسان کے باطنی اعمال پر مرتب لگایا جاتاہے،کوئی بھی کسی انسان کی اندرونی کیفیت کو نہیں جان سکتا۔ممکن ہے کہ ایک آدمی نماز و روزوں کا پابند ہو لیکن اس کا دل تاریکیوں سے معمور ہو۔مگر وہ دوسروں پر یہ حکم لگاتاہو کہ وہ مرتد ہے یا اسلام سے خارج ہے۔ممکن ہے کہ وہ گناہوں میں اس قدر لت پت ہو کہ وہ ان سے دامن نہ بچاسکے جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ”انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے”۔ایمان کم و زیادہ ہوتارہتاہے ،ایمان کی کیفیت و حالت میں زیادتی عبادات کے دوام کے ساتھ دل کی صفائی کے ساتھ ہوتی ہے،جب کہ ایمان میں کمی و تخفیف دل کی سختی و برے اعمال کے سبب ہوتی ہے۔
امام ابوحنیفہ کے خواب میں ایک نشہ کرنے والاآیا تو اس کو جنت میں پایا ،انہوں نے اس کی بیوی سے پوچھا کہ تمہارا شوہر کیا عمل کرتاتھا کہ وہ جنت میں ہے تو اس کی بیوی نے کہا کہ اس کا ویسے تو ایساکوئی خاص قابل ذکر عمل نہیں ہے،البتہ جمعہ کے دن یتیم و مساکین کو کھانا کھلاتاتھا اور اسی طرح ان کے سروں پر دست شفقت پھیرتاتھا اور روتاتھااور ان سے کہتا تھا کہ میرے لیے دعاکیا کرو۔امام ابوحنیفہ نے کہا کہ یہ آدمی مقبول القلب ہے یعنی کہ اس کا عمل عنداللہ پسند کیا گیاہے اس کی نیک نیتی اور دل کی صفائی کے سبب۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم کسی گناہ گار پر سب و شتم نہ کریں اور نہ ہی اس پر اترائیں یا اس کو حقارت کی نظر سے دیکھیںکیوں کے ہمارے عیوب پر اللہ تعالیٰ نے پردہ داری کی ہوئی ہے اگر وہ لوگوں پر منکشف ہوجائیں تو اس کے بعد زندہ رہنے کو عذاب تصور کریں۔زیادہ نماز و روزے رکھ کر تکبر و غرور کو ہر گز نہ اختیارکریں کیوں کہ یہ کون جانتاہے کہ اللہ کے ہاں کون مقبول و محترم ہے۔
Islam
ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ وعلیہ وسلم کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا تو اس پر حد جاری کی گئی اس موقع پر ایک صحابی نے اس عورت کو برابھلاکہا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا”کہ اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر یہ زمین والوں پر تقسیم کردی جائے تو سب کو کافی و شافی ہوجائے”بیشک وہ عورت صدق دل سے اللہ رب العزت سے اپنے گناہ سے درگزر و مغفرت کی امید رکھتی تھی ۔یہاں پر بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس علم تو ہے مگر اسی کے ذریعہ سرکشی کے مرتکب ہوتے ہیں اور یہی علم بعض کو گمراہ بھی کرتاہے ۔وہ علم جس سے انسان سرکشی کا مرتکب ہوتاہو وہ ایسے ہے کہ انسان کے پاس علم تو ہو مگر اس کا دل ایمان سے خالی ہو۔۔۔ایسی عبادت جو بلاتاثیر ہو یعنی اس میں کچھ حقیقت نہ ہو۔
حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ ابھی جو آدمی آپ پر داخل ہوگا وہ جنتی ہے۔جب وہ آیا تو صحابہ نے دیکھا کہ وہ بہت عاجز انسان تھااور اس کو جانتے بھی نہیں تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس موقف کا متعدد بار اظہار فرمایا تو حضرت عبداللہ بن عمرو نے اس آدمی کا تعاقب کیا اور اس کے گھر تک گئے تین دن تک اس کا جائزہ لتے رہے مگر کوئی امتیازی بات نظر نہ آئی کیوں کہ وہ عشا کی نماز کے بعد سوجاتاتھا اس میں کوئی ایسی صفت نہ تھی جو اس کو دوسروں سے ممتاز کرے تو بلآخر حضرت عبداللہ بن عمرو نے اس سے پوچھ لیا کہ کیا بات ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنتی قرار دیا اس کا کیا سبب ہے تو اس نے جواب دیا کہ ویسے تو کوئی خاص عمل نہیں میرا البتہ میں رات کو جب سوتاہوں تو میرے دل میں کسی انسان کے خلاف کوئی بات نہیں ہوتی۔
روزقیامت جب حقائق ظاہر ہوں گے تو آنکھیںمارے تعجب کے تھرتھرا جائیں گی۔بعض گروہ جو صوم و صلوٰة کے پابند ہوگے وہ جہنم کے گھڑے میں نظر آئیں گے اور دوسرا گروہ جس کو سماج اہل شر میں سے سمجھتاہوگا وہ جنت میں موجود ہوگا ۔۔۔۔بے شک اللہ کے ہاں کوئی عمل تب تک قابل قبول نہیں جب تک کہ وہ قلب سلیم سے جاری نہ کیا گیا ہو۔