ملک میں دائمی امن کے قیام کیلئے ضروری اقدامات

Pakistan

Pakistan

تحریر: عقیل احمد خان لودھی
خوابوں کے بکھرنے کا دن تھا میرے بچوں کے مرنے کا دن تھا، یہ ایک اور 16 دسمبر کی بات ہے 2014ء کے 16 دسمبرکی جبکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن تھا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران اپنے تر مفادات کو پس پشت رکھ کر صرف اور صرف ملک وقوم کیلئے اپنی توانائیاں صرف کرنے میں مصروف تھے اور اس بار نیک نیتی کاہمیشہ کی طرح عملاََ مظاہرہ کرتے ہوئے ہر طرف امن محبت اور پیار کی باتیں ہورہی تھیں کہ پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی کہ میرے چمن کے نونہالوں کے دشمنوں نے پشاور کے ایک سکول میں داخل ہو کر کئی ننھے جگنوئوں کو بجھا دیا۔

اس بار حکمرانوں کو مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے کیونکہ انہوں نے اس سانحہ سے قبل کے سانحات میں اس عزم کا کئی بار اعادہ کیا تھا کہ دشمن کا قلع قمع کیا جائے گااور ملک کو امن کا گہوارہ بنا دیا جائے گامگر کسی پراسرار طاقت نے حکمرانوں کو ایسا نہیں کرنے دیا اور پھر اسی وجہ سے 16 دسمبر کو انسانیت کے دشمن درندوں نے 140سے زائد خاندانو ں کو وہ زخم لگایا ہے جن کا مرہم دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہے اور پھر اس سانحہ کے بعد تو ہمارے پیارے حکمرانوں کی یہ رکاوٹ بھی دور کردی گئی ہے اور ان کے جمہوری مخالفین نے ملکی ترقی میں واحد رکاوٹ دھرنا کو ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

مختلف ممالک کی( حکومتوں کو نہیں) عوام کو بھی اس میں ہمارا ساتھ دینا ہوگا بالخصوص امریکہ،برطانیہ اور عرب ممالک کی کہ ان کے حکمران درپردہ ہمارے ملک میں امن کے حامی نہیں ہیں وہ دکھاتے کچھ ہیں اور اپنی عوام کی ہمدردیاں حاصل کر کے دنیا بھر کا امن تباہ کررہے ہیں، دہشت گردوں کے ہاتھ استعمال ہونے والے اسلحہ سے ہی اندازہ لگا لیا جائے کہ وہMade In Pakistanکم از کم نہیں ہوتا، بھارت افغانستان اور دیگر رستوں سے ان دہشت گردوں کے ہاتھ آنے والا اسلحہ انہی ممالک کا ہے

جنہیں اس دہشت گردی سے دور بیٹھے بہت زیادہ نفرت ہے کہ جبکہ کے ہر طرفہ لڑائی میںجہاں کہیںبھی معصوم لوگ مارے جاتے ہیں وہ ہمارے (پاکستانی/نہتے مسلمان)ہیں۔ پشاور میں سکول کے کم سن طلباء پر دہشت گردوں کے حملہ کی صورت ہو یا حرامی خارجیوں کو مارنے کیلئے نام نہاد امن پسندوں کے ڈرون حملوں کی صورت۔مارے جانے والوں میں اکثریت معصوم بچوں اور بے گناہوں کی ہے ہوتی ہے۔دونوں اطراف کے واقعات سے متاثرہ بچوں کے جذبات یونہی ہوتے ہیںجس طرح آج میڈیا پر سکول کے بچوں کے جذبات ہیں کہ وہ ان حرامیوں سے بڑے ہو کر بدلہ ضرور لیں گے۔ دوسری طرف فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں کے متاثرہ بچوں تک نا تو ہمارا میڈیا پہنچ پاتا ہے ،ان کے دکھ کو سمجھنے والا کوئی ہوتا ہے اور نا ایسے تعلیمی ادارے آج تک قائم کئے جاسکے ہیں جو ان لوگوں کی تربیت کرسکیں۔

ان کے ہمدرد وہی ہوتے ہیں جن کیلئے یہ آپریشن کیا جاتا ہے تو وہ پاک فوج کیخلاف ان بچوں کے ذہنوں میں نفرت کا جذبہ بھر دیتے ہیں اور یہی بچے جنکے والدین دہشت گردوں کو مارے جانے والے حملوں کی زد میں آجاتے ہیں دہشت گردوں کیلئے انتہائی کارآمدثابت ہوتے ہیںاور انہی کے دماغوں میں جنت کا تصور بٹھا کر انہیں انسانیت کیخلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت سے چلا آرہا ہے جب سے ملک میں نام نہادجہادی فیکٹریاں قیام عمل میں آئی ہیں۔ ان جہادی فیکٹریوں کے بانی وہی لوگ /ممالک ہیں جو دنیا میں امن کے بڑے پیامبر ہیں۔

World

World

لعنت ہے ایسے دوہرے معیار پر خدا امن کے دشمنوں کا بیڑہ غرق کرے خواہ وہ کس بھی رنگ میں ہے۔آمین! ہماری بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے آج تک کاسہ گدائی میں ہی اپنی دنیا وآخرت کی نجات سمجھ کر ان ممالک کی چوکھٹ پر سجدہ ریزی کی ہے جن خیر کی توقع لگانا عوام الناس کے نزدیک شرپسندی سے بھی بڑا جرم ہے اور ہم نے انہیں ہمیشہ سے آزما کر بھی ان کا دامن ہاتھ سے نہیںچھوڑا، ملکی خود مختاری اور سالمیت کو ان کے ایک حکم پر پاش پاش کردیا اور ”جو تم کو ہو پسند وہی بات کہیں گے” کے مطابق ان کی ہر شرکی پالیسی میں ان کا ساتھ دیکر دنیا کی نظروں میں اپنا وقار خود پامال کیا۔کئی مثالیں دنیا کے سامنے ہیں انہی میں ایک معمولی سی مثال ریمنڈ ڈیوس کی ہے۔

کسی نے بتانے کی زحمت نہیں کی کہ وہ کس کا تھا کیا کررہا تھا یہاں؟ اسے کیوں چھوڑا گیا کس نے چھوڑا کس کے کہنے پر چھوڑا؟ اس کے بعد کیا یہاں اور ریمنڈ ڈیوس نہیں ہوں گے؟یہاں مزید کتنے ریمنڈڈیوس ہیں یہاں ہمیں اب سب دھیاں میں رکھنا ہوگا۔ نقصان ہمارا ہورہا ہے اور اس نقصان میں ہر وہ شخص جو مسلح ہے ذمہ دار ہے کہ یہاں مسلح ہونا اوراس کی کوئی پوچھ گچھ نہ ہونادہشت گردوں کو وہ ماحول فراہم کررہا ہے جس سے ہمارے ملک کا امن تباہ ہورہا ہے۔ ان حالات میں میری نظر میں سب سے پہلے ملک کو ہر سطح پر اسلحہ سے پاک بنانا چاہیئے ریاستی اداروں اور اہلکاروں کے سوا کسی بھی شخص کے پاس اسلحہ ہو تو اس کیلئے کڑی سے کڑی ترین سزا تجویز کی جائے کسی کو معافی نہ دی جائے جس کے پا س سے ایک چھوٹا پستول بھی برآمد ہو وہ کڑی ترین سزا بھگتے۔

عوام کے کسی نام نہاد خدمتگار کو بھی اسلحہ رکھنے کی ہرگز ہر گز اجازت نہ دی جائے،اور اس مقصد کیلئے فوری پالیسی کا نفاذ کرتے ہوئے شہریوں کو رضاکارانہ طور پر اسلحہ سرکار کو جمع کروانے کیلئے کہا جائے اور لائسنسی اسلحہ کے عوض لوگوں کو اس کی قیمت دی جائے جبکہ بلالائسنسی اسلحہ جمع کروانے کیلئے بھی عام معافی کا اعلان کیا جائے۔ ریاست کو اسلحہ سے پاک کیا گیا،اسلحہ کی نمود ونمائش کا سلسلہ ختم کیا گیا تو یہاں سے چوریوں، ڈکیتیوں کی وارداتوں میں نمایاں کمی واقع ہوگی اور اسلحہ رکھنے والوں کی نشاندہی پر فوری ایکشن ہوا تو جرائم یہاں سے ختم ہوجائیں گے کوئی ریمنڈ ڈیوس یہاں پھر نہتے شہریوں کو بھون کر نہیں جانے لگا کہیں کسی دھرنے میں کسی کو گولی نہیں لگے گی۔

شہریوں کو روزگار دیا جائے، قانون کی عملداری میں بہتری لائی جائے تھپڑ کے بدلے تھپڑ کا حقیقی قانون لایا جائے جس شخص کیساتھ جتنی زیادتی ہواس کا اتنا ازالہ کروایا جائے مثال کے طور پر کوئی شخص کسی کو بھرے بازار میں گالیاں دیتا اور ایک تھپڑ رسید کردیتا ہے تو اس کیلئے درخواست آنے پر فورا غیر جانبدار تحقیق عمل میں لائی جائے موقع پر جا کر لوگوں سے شواہد اکٹھے کئے جائیں ثابت ہونے پر زیادتی کرنے والے شخص کو اسی چوک میں لیجایا جائے اور ویسا ہی تھپڑاس کے منہ پر رسید کیا جائے،اگر متاثرہ شخص موقعہ پر معاف کردے تو ٹھیک ہے

ورنہ بدلہ فوری لیا جائے، گالی گلوچ کے بدلہ ریاستی اداروں میں موجود گالیوں کے شوقین کسی اہلکار سے گالیاں دلوالی جائیں کہ ان کی بھی بھڑاس نکل جایا کرے گی اور متاثرہ شخص کی فوری حق رسی بھی ہوجائے گی۔پھر کوئی حق نواز نا حق مارا نہیں جائے گا اس طرح قانون کا سہارا لینے کیلئے غلط بیانی پر مبنی درخواستوں کا بھی خاتمہ ہوگا اور عدالتوں کیسوں کا بوجھ کم ہوجائے گا۔اس کے علاوہ عربی،پشتو،ازبک اور دیگر زبانوں میں میڈیا پر دہشت گردی کی اسلامی نقطہ نظر سے مخالفت کے پیغامات صبح دوپہر شام نشر کئے جائیں،میڈیا پر پھیلنے والی بے حیائی،غیر ملکی اشتہارات کوبند کروایا جائے۔اشرافیہ اور حکمران طبقہ کی جانب سے ریاست کی عملداری کو خودہی نقصان پہنچانے کا سلسلہ بند کیا جائے۔

آرمی پبلک سکول میں کم سن بچوں کی شہادت کے واقعہ سے جہاں دنیا کا ہر ایک انسان افسردہ ہے وہاں اس عظیم قربانی نے ایک ایسا ماحول پیدا کردیا ہے کہ ملک میں دائمی امن کیلئے تمام پہلوئوں کو مد نظر رکھا جائے اور عارضی پراسیس کے ذریعہ گھونگھلوئوں سے مٹی جھاڑنے والا کام نہ کیا جائے۔ پاک افواج پر الزام تراشیاں بند کی جائیںریاست کے علاوہ کسی بھی جہاد کی طرفداری کرنے والوں کا محاسبہ کیا جائے تو یہ ملک خود ہی امن کا گہوارہ بن جائے گا۔

امید ہے کہ اب سارے مسائل حل ہوجائیں گے ، جتنے مقدمات بشمول سانحہ ماڈل ٹائون وغیرہ درج ہیں ان سب کا ٹرائل ہوگا اور مجرمان سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ آخر میں سانحہ پشاور کے بارے ایک شعر”سفاکیت تو نے اپنے نئے دیپ جلا دیئے۔۔۔ پھر سے میرے شہر کے جگنو بجھا دیئے” اﷲ تعالیٰ سانحہ میں زخمی ہونے والے میرے وطن کے مجاہدوں کو صحت دے اور شہیدوں کے والدین ،لواحقین کو صبر دے آمین!

Aqeel Ahmed Khan Lodhi

Aqeel Ahmed Khan Lodhi

تحریر: عقیل احمد خان لودھی