رخت عروس (جہیز) اک روح فرسا رواج

Dowry

Dowry

تحریر:افشاں علی
”رخت عروس”یعنی جہیز۔۔۔۔۔جس کے بغیر کسی شادی کا تصور کرنا،اور اس کے بغیر غریب والدین کے لئے بیٹی کورخصت کرنا ناممکن سا بنتا جارہا ہے،جہیزکی لعنت ہندوستانی معاشرے میں عموما اور اسلامی معاشرے میں خصوصا ایک ناسوربن گئی ہے،جوایٹمی ہتھیارسے ذیادہ خطرناک ثابت ہوتی جارہی ہے،جہیز جو ایک ہندوستانی و غیر مسلم معاشرے کا ریت ورواج ہے ،لیکن آج کل اس جہیزکی لعنت نے ہمارے مسلم معاشرے کو”کمی آکٹوپس”کی ماننداپنی گرفت میں جکڑلیا ہے،ہمارے معاشرے میں جہاں آئے دن غیرت کے نام پر کبھی ماں،کبھی بہن اوربیٹی کو قتل کردیا جاتا ہے،وہاں جہیزکے لین دین پرہماری غیرت بے خبری کی چادر تلے سوجاتی ہے،اس جہیزکے پھیلتے سرطان نے ہمارے مسلم معاشرے پربدترین اثرات مرتب کئے ہیں،اسی جہیزکے سبب بنت ہوا کوجلنا بھی پڑتا ہے،اور سسکنا بھی، کیا ایسے واقعات سن کر اور پڑھ کر لگتا ہے کہ ہمارا مسلم ومہذب معاشرے سے دور دور تک بھی کوئی واسطہ ہے،ہمارے معاشرے میں جہیزکواولین ترجیح قراردیا جاتا ہے۔

جبکہ تعلیم کے زیورکوثانوی سمجھا جاتا ہے،جہیزکی چمک کے آگے ”سیرت وکردار کے گہنے”اخلاق ومذہب کے موتی بھی پھیکے پڑجاتے ہیں،بعض اوقات کچھ واقعات میں تویہاں تک دیکھا گیا ہے کہ جہیزکی آگ شادی کے بعد بھی بجھنے میں نہیں آتی ،شادی کے بعد بھی لڑکے والے طرح طرح کے مطالبات کرتے نظر آتے ہیں،اور ایک بار پھر سے لڑکی کولعن طعن اور آزمائشوںوتشددکی بھٹی سے گزرنا پڑتا ہے ،اور ظلم وستم کی چکی میں پسنا پڑتا ہے،اس میں شبہ نہیں ہے ،کہ جہیزکی موجودہ شکل ایک تباہ کن رسم بن گئی ہے،اس رسم کی ادائیگی کے لئے رقم اور قرض وادھار کی مالیت میں روزبروزاضافہ ہوتا جارہا ہے،جوکہ یقینا ایک غریب ومتوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہے،اگر ہم آس پاس موجود لوگوں پر نظر دوڑائیں توغریب طبقے سے تعلق رکھنے والا ہربیٹی کا باپ قرض کے بوجھ تلے دبا اور ادھار کے شکنجے میں پھنسا ہوا ملے گا،موجودہ حالات میں جہاں مزدور متوسط وغریب طبقے کے لئے دووقت کی روٹی کمانا مشکل ہے وہاں مہنگائی کے اس طوفان میں بیٹی کی شادی اور پھر جہیزجیسی فضول رسم کی ادائیگی مشکل ترین مرحلہ بنتا جارہا ہے،جہیزنامی اژدھا ہمہ وقت منہ کھولے ایک بیٹی کے باپ کو نگلنے کے لئے تیار نظرآتا ہے،ایک سروے کے مطابق آجکل ملک میں خواتین ،لڑکیاں ہر شعبہ ہائے زندگی میں عملی طورپر حالات سے لڑتی ہوئی نظرآتی ہیں۔ 80 سے 85 %اسکی بڑی وجہ سسرال لے جانے والے جہیزکے لئے اعلیٰ وعمدہ انتظامات کرنا سامنے آئی ہے۔

بیٹی کے ماں باپ اپنی محبت وشفقت کے زیرسایہ اسے رخصت کرتے وقت جوکچھ دیتے ہیں،وہ ایک امرمستحسن اور انسانی فطرت ومحبت کا تقاضا ہے مگر اب مسلم معاشرے میں یہ رسم بدجبری مطالبے کی صورت اختیار کرچکی ہے،یہ توگویا ایک مہذب بھیک ہے،جسے رسم ورواج کے نام پر مانگا اور قبول کیا جا رہا ہے،آج جہیزکے نام پر سوئی سے لے کر سونے تک۔۔۔۔۔۔
کپڑے سے لے کر بستروفرنیچرتک۔۔۔۔۔۔۔فریج سے لے کر گاڑی تک۔۔۔۔۔۔حتیٰ کہ رہنے کے لئے گھر تک مانگا جارہا ہے،اس رخت عروس کی بے ہودہ رسم پر شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

اب آیا یاد یاران جاں اس نامرادی میں
کفن دینا تمہیں بھولے تھے ہم سامان شادی میں
اے جہیزکے گداگرو۔۔۔۔۔۔۔ایک مسلم معاشرے میں رہتے ہوئے عقل وشعور ہوتے ہوئے بھی ہمیں ہماری درست سمت کا تعین نہیں۔ہم کیسے مسلمان ہیں جواس جہیزجیسی فضول وکفرانہ رسم ورواج کی پیروی کوقرآن وسنت پر ترجیح دے رہے ہیں،ہمارے سامنے آقا دوجہاں رحمت اللعالمین حضورۖ کی پیاری وچہیتی بیٹی حضرت فاطمہ کے عقد مسنون کی مثال سامنے ہے،کہ عقدمسنون کے وقت جسم پر جوچادر ہے اس میں سولہ پیوند لگے ہوئے ہیں،اور بنت رسول ۖ ہونے کے باوجود پیارا شیرخدا حضرت علی کے گھر کی جانب روانہ ہوئیں ۔حضرت علی کی زرہ کوفروخت کرکے جودرہم حاصل ہوئے ان سے ہی ایک کپڑے کا بستر ۔۔۔ایک چمڑے کا تکیہ۔۔۔ایک مشکیزہ۔۔۔دومٹی کے گھڑے۔۔ایک آٹا پیسنے کی چکی۔۔۔اور ایک جاء نماز پر مشتمل یہ مختصر سا سامان خرید کر حضرت علی کوپیش کیا ۔۔یہ ہے عقد مسنون کا سنت طریقہ اور یہ ہے رخت عروس کی مثال ۔۔۔!! ہم جو دین ابراہیمی کے پیروکار ہیں ہمارا مذہب اسلام ایسی تمام رسومات پر پابندی عائدکرتا ہے،جس میں کافروں سی مشابہت ہو۔۔۔۔سودی قرض یا بے ضرورت قرض لیا گیا ہو۔۔۔حددرجہ نمودونمائش کی گئی ہو۔

Islam

Islam

اور بے تحاشہ اسراف ہو۔۔۔اور یہ سب کانٹے جہیز نامی کیکٹس میں جابجا نظرآتے ہیں، جوایک مسلمان کے ایمان واعمال کی چادر کو تار تار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔۔۔۔۔اسلامی نظرئیے سے بھی دیکھا جائے تو دلہے کو اپنی خواہشات پوری کرنے ۔۔۔ایک بہتر زندگی ،اور سکھ دکھ بانٹنے کے لئے دلہن کا تحفہ دیا گیا ہے، دلہن خود ایک جہیز ہے،کیونکہ والدین اپنے جگر کا ٹکڑا ۔۔۔اپنے آنگن کی رونق لڑکے والوں کو سونپتے ہیں،لیکن کم ظرف وپست زہن لالچ کی زنجیر میں قید لوگ جہیزیعنی مال وزر میں دلہن کو ڈھونڈتے ہیں،قرآن و حدیث اور شریعت کی روسے جہیزکے نام پر رقم ومال لوٹنا اور مطالبات کرنا جائزنہیں،ماں باپ اپنی خوشی وحیثیت کے مطابق اپنی بیٹی کوجودینا چاہیں،اس پر پابندی نہیں دین اسلام نے حقوق زوجین میں بیویوں کا خیال رکھنے اور ان کے حقوق وفرائض ادا کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ ان کا مال کھانے۔

قرآ ن پاک میں ارشاد ربانی ہے۔
”اوران عورتوں کوجن کوتم نکاح میں لائو انہیں ان کے مہرخوشی سے دو”(سورةالنساء 4)،مذکورہ بالا آیت کی روشنی سے ہمیں یہ صاف صاف ظاہر ہورہا ہے کہ دلہن کے بجائے دلہا کو تحفہ دینے کا حکم ہے ناکہ لینے کا۔۔ حق مہردلہن کا شرعی و قانونی حق ہے،
”جہیزمیں مانگے مخملی بستر سے اپنے گھرکی پیوندلگی چٹائی بہترہے۔”کیونکہ مال وزر فانی چیزیں ہیں اعمال صالحہ ہی عاقبت میں کام آنے ہیں،اس بات کو تسلیم کرنے میں ہی بنی نوع انسان کی بھلائی پوشیدہ ہے۔۔۔شادی و نکاح ایک سنت اور سنت سادگی و خوشنودی سے ہی ادا کرنی چاہیئے ۔پراس جہیزجیسی لعنت نے ہمارے مسلم معاشرے میں اپنے پنجے اس شدت سے گاڑھ لئے ہیں کہ غریب ومتوسط طبقے کے والدین کی کمر اس جہیزکے مالی واضافی بوجھ تلے دب سی جاتی ہے۔

ان کی زندگی شدید تضاد وپریشانی کا شکار بن کر رہ جاتی ہے،معصوم ونوخیزکلیوں کے غریب والدین اس گلاب کے پھول کوسجانے کے لئے نہ معلوم کیسی کیسی مصیبتیں جھیلتے ہیں،ہمیں مسلم معاشرے کو جہیزکی اس دلدل سے نکال کرسنت ومسنون راہ پر اغب کرنا ہے،اب ضرورت اس امرکی ہے کہ جہیزکی اس فرسودہ رسم کے خلاف لوگوں کی سوچ کوتبدیل کیا جائے،اس روفرسا رواج کے خاتمے کے لئے سماجی،سیاسی،معاشرتی اورمذہبی سطح پر مہم کا آغازکیا جائے۔۔۔ہمیں انسانیت کے ناطے یہ سوچنا چاہیئے کہ اگر ہم اسی طرح اس جہیزکی لعنت کوفروغ دیتے رہے تو ہمارا ضمیر بھی یونہی بکتا رہے گا۔

جہیزکے طالب افرادکویہ سوچنا چاہیئے کہ خود ان کی بھی بہنیں ہیں کل بیٹیاں بھی ہونگی،تب انہیں بیاہتے وقت کیا وہ سماج اس بگڑے ہوئے ماحول میں کھڑے رہ پائیں گے۔؟؟،آج کے جہیزکے طالبگار کیا کل کے جہیزکے دعویدار کومنہ دکھا پائینگے ؟؟،ذی شعور ہوتے ہوئے بھی اس بھیانک سوال کا جواب ہمیں خود ڈھونڈنا ہے رخت عروس (جہیز)وہ چھوت کی بیماری ہے جوبڑی تیزی سے پھیلتی ہے آج اگر جہیزبہوسے لیں گے ۔۔توکل بیٹی کے لئے دیں گے۔آج جس جہیزکے لئے بیٹی کو طعنے دیں گے۔۔توکل اسی جہیزکی خاطر بیٹی کے لئے یہ طعنے سنیں گے۔۔اسی بات کو سمجھتے ہوئے اگر ہرلڑکا اور اسکے گھروالے اس جہیزجیسی فرسودہ رسم کے خلاف آواز اٹھائیں تو ناصرف کل ان کی اپنی بہن بیٹیاں آسانی سے اپنے گھروں کی ہوجائینگی،بلکہ کسی متوسط والدین کے ناتواں کندھے بھی نہیں جھکیں گے۔اور نہ کوئی غریب کنواری بیٹی بڑھاپے کی دہلیزپارکریگی۔ویسے بھی اس ہوش ربا مہنگائی کے بدترین سیلاب میں جہیزکی لعنت جیسے معاشرتی ناسور سے چھٹکارا پانے میں ہی ہمارے مسلم معاشرے کی بھلائی ہے۔یہ ہے وہ جہاد جوہمیں اس جہیزنامی دشمن کے خلاف کرنا ہے،خدا ہم سب کو مذہب وسنت کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔۔۔۔۔۔!!آمین

Afshan Ali

Afshan Ali

تحریر:افشاں علی