پھر اے قائد تجھے پکار رہا ہے تیرا وطن……

Quaid e Azam

Quaid e Azam

تحریر: تجمل محمود جنجوعہ
خالق پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بلاشبہ ایک تاریخ ساز شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنے قوت ارادی ، بے انتہا محنت اور خلوص دل سے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ ہندوستانی اخبار”ٹائمز” محمد علی جناح کو کچھ ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ ”پاکستان کا قیام موجودہ دور کا ایسا واقعہ ہے کہ عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ آج بھی انسان کس طرح تاریخ کو اپنے عزم و استقلال کے سانچے میں ڈھال سکتا ہے۔ پاکستان صرف ایک شخص مسٹر جناح کی تصوراتی دنیا تھا۔ جسے انہوں نے بالآخر حاصل کیا اور اسلامی مملکت بنانے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے۔”

راقم اس لحاظ سے خود کو خوش قسمت خیال کرتا ہے کہ راقم کا یوم پیدائش بھی پچیس دسمبر ہے۔ ہم دیگر اہم دنوں کی طرح ہر سال پچیس دسمبر بھی خوب زور و شور سے مناتے ہیں۔ سرکاری و نجی اداروں میں اس دن کی مناسبت سے خوب اہتمام کیا جاتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کوخراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے لئے ان کی جدو جہد کو سراہا جاتا ہے۔ ان کے سنہری اقوال کو اپنی تقاریر کی زینت بنا کر داد وصول کی جاتی ہے۔ مگر اس سے اگلے ہی روز سب کچھ پہلے کی طرح ہی ہو جانے لگ جاتا ہے۔ دفتر میں لگی قائد کی تصویر کے نیچے بیٹھ کر ہم انہیں کے بتائے گئے اصولوں کو روند رہے ہوتے ہیں۔ رشوت کا دھندا پھر سے چالو کر دیا جاتا ہے، میرٹ کا قتل عام اور غریب کا استحصال ہونے لگتا ہے۔ جس سے یقینا قائد کی روح کو تکلیف ہوتی ہو گی۔ اور ایک زندہ قوم کے لئے اس سے زیادہ مر مٹنے کا اور کیا مقام ہو گا کہ وہ خود ہی اپنے قائد اور محسن کی روح کے لئے باعث تکلیف بن رہی ہو۔

11اگست 1947کو قائد اعظم نے دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ” اس وقت ہندوستان جس بڑی لعنت میں مبتلا ہے وہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہے۔ دراصل یہ زہر قاتل ہے۔ اس کو ختم کرنے کے لئے سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ ” یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس زہر قاتل کی نشاندہی ہمارے قائد نے نصف صدی پہلے کر دی تھی، کیا اس کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو پائے ہیں۔ نہیں دوستو، یہ زہر روز بروز بڑھتا جا رہا ہے اور افسوس ہم اور ہمارے ارباب اختیار اس کے خاتمہ کے لئے سنجیدہ ہی نہیں۔

Pakistan

Pakistan

لیکن ہمارے ارباب اختیار بھلا کیوں ایسا کریں گے۔ اس سے ان کی موجیں ختم ہو جائیں گی اور پھر حلال کی تھوڑی کمائی پر گزارا کیسے ہو گابھلا۔ قائداعظم خود کو عوام کا خادم سمجھتے تھے جبکہ ہمارے حکمران تو ہمیں اور ہمارے ملک کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور لوٹ مار کرنے اور عوام کا خون نچوڑنے کو اپنا اولین فریضہ خیال کرتے ہیں۔ جبکہ قائد نے تو واضح الفاظ میں کہا تھا کہ ” پاکستان میں کسی بھی طبقے کو لوٹ مار کرنے اور اجارہ داری کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پاکستان میں رہنے والے ہر شخص کو یکساں مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ پاکستان امیروں ، سرمایہ کاروں اور نوابوں کی لوٹ ما ر کے لئے نہیں بنایا گیا۔ پاکستان غریبوں کی قربانی سے قائم ہوا ہے اور غریبوں کا ملک ہے اور غریبوں کو ہی حکومت کا حق ہے اور پاکستان میں ہر شخص کامعیار زندگی اس قدر بلند کیا جائے گاکہ امیر و غریب کا کوئی فرق نہیں رہے گا۔”

حکومت کا حق شاید قائداعظم کے پاکستان میں تو غریبوں کو حاصل ہو مگر افسوس یہاں سیاست صرف امراء کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے اور یہ امراء غریب کو غریب تر کرنے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں اور غریب کی زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان کو قائد اعظم کے بعد ان جیسا مخلص حکمران نہیں مل سکا مگر ہم نے بحیثیت قوم اس پاک وطن کے لئے وہ کردار ادا نہیں کیا جو کرنا چاہیے تھا۔ قائد اعظم نے بینک دولت پاکستان کے افتتاح کے موقع پر واضح الفاظ میں کہا تھا کہ ”قدرت نے آپ کو ہر چیز عطا کی ہے۔ آپ کے پاس غیرمحدود وسائل موجود ہیں۔ آپ کی مملکت کی بنیاد رکھی جا چکی ہے۔ اب اس کی تعمیر آپ کا کام ہے۔ پس تعمیر کیجیئے جس قدر جلد اور جتنی عمدگی سے آپ کر سکیں۔”

سچ تو یہ ہے کہ جہاں ہمارے حکمران قائد کے اصولوں کو بھلا چکے ہیں، وہیں ہم بھی ان پر عمل پیرا نظر نہیں آتے۔ پاکستان جس ڈگر پر چل نکلا ہے، اسے محمد علی جناح کا پاکستان بنانے کے لئے پھر سے کسی قائداعظم کی ضرورت ہے۔ مگر محمد علی جناح جیسے عظیم لوگ تو صدیوں بعد پیدا ہو ا کرتے ہیں۔ ایسے میں ہمیں اپنے محسن کے اصولوں کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنانا ہو گا تاکہ قائد نے جس پاکستان کو بنایا تھا، اس کی ترقی میں ہم بھی اپنے حصے کاکام کر جائیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو محفوظ، پرامن، ترقی یافتہ پاکستان مل سکے۔

TM Janjua

TM Janjua

تحریر: تجمل محمود جنجوعہ
tmjanjua.din@gmail.com
0301-3920428
www.facebook.com/tajammal.janjua.5