سانحہ پشاور کے تناظر میں

Zulfiqar Ali Bhutto

Zulfiqar Ali Bhutto

تحریر: لقمان اسد
اس وحشت ناک کھیل کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے ہوتا ہے جب ذوالفقار علی بھٹو کو سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کی منصوبہ سازی کی جارہی تھی اُس کا پس منظر یہ تھا امریکہ پوری دنیا میں اپنے خلاف ایک مضبوط بلاک بنتا دیکھ کر خوف میں مبتلا تھا اور اُس کی نظر میں اس کھیل کا مرکزی کردار ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت تھی ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے مقدمہ میں جب عدالت پیش کیا گیا تو اُس نے یہ الفاظ دہرائے تھے کہ مائی لارڈ مجھے ایک قاتل کے تناظر میں نہ دیکھا جائے میری ایک جیب میں مسئلہ کشمیر و فلسطین کا حل جبکہ دوسری طرف میرا جرم اسلامی ممالک کا ممکنہ اتحاد ہے مگر چھ جولائی 1977کے بعد ملک آمریت کے بے رحم شکنجوں میں ایک بار پھر جکڑا گیا

وہ بلاک جو تیزی سے دنیا بھر میں امریکہ کے خلاف قدم جماکر امریکہ کیلئے مشکلات پیدا کر رہا تھا وہ ایک دم ،دم توڑ گیا ذوالفقار علی بھٹو نے اسمبلی فلور پر بر ملا کہا کہ سفید ہاتھی میری جان کے در پے ہے ۔اس کے پس پردہ محرکات یہ تھے کہ زوالفقار علی بھٹو جہاں اسلامی ریاستوں کو اکٹھا کر کے تمام مسلم ممالک کی مشترکہ فوج ،مشترکہ کرنسی اور مشترکہ دفاع کا منصوبہ رکھتا تھا وہاں اُس نے ایٹمی پاکستان کی بنیاد رکھ کر نام نہاد سپر پاور کے درو دیوار لرزہ بر اندام کر دیئے تب امریکہ نے اپنے بقا اور سلامتی کا تعین کیا ،اپنے اہداف مقرر کئے اپنے بدمعاش اور مکار پالیسی سازوں کو متحرک کیا اور اس ضمن میں ایٹمی پاکستان کے بانی کو امریکی تھنک ٹینک نے رستہ سے ہمیشہ کیلئے ہٹانے کی منصوبہ بندی مکمل کی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے

پاکستان میں اس کام کیلئے امریکی منصوبہ سازوں کو ایک ”مرد مومن مرد حق ”میسر آیا جسے کچھ لوگ عقیدتاً فخریہ انداز میں ”شہید جہاد ِ افغانستان ” بھی کہتے ہیں اسی مرد مومن مرد حق نے امریکی منصوبہ کی تکمیل کی امریکہ نے ھتو کی شکل میں اپنے راستے کا پہلا پتھر ہٹانے کے بعد اُن تمام باقی ماندہ منصوبوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی ٹھانی اور اُس کا اگلا ہدف سوویت یونین تھا روس جو دنیا میں طاقت کے توازن کا منبع تھا امریکہ نے جنرل ضیا ء الحق سے ملکر اُس کا شیرازہ بکھیرنے کی ٹھانی اسامہ بن لادن کو جنرل ضیا الحق نے سعودی عرب جاکر جہاد کیلئے بریف کیا اور اُسے دنیا بھر میں ایک جہادی تنظیم بنانے کا ٹاسک سونپا جنرل ضیا الحق نے مدارس کے طلبا کو روس کے خلاف افغانستان میں جہاد کیلئے کمر بستہ کیا

پھر دیکھتے ہی دیکھتے غیر سرکاری سطح پر پرائیویٹ جہادی تنظیموں کی گویا قطار لگ گئی سر عام شاہراہوں پر ان جہادی تنظیموں کے لوگ ترانے بجاتے اور چندے جمع کرتے نظر آتے بڑے بڑے جلسوں میں ان جہادی تنظیموں کے رہنما کبھی دہلی کا لال قلعہ فتح کرنے کے دعوے کرتے اور روس کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی بڑھکیں مارتے اُدھر پرنٹ میڈیا پر ایک مخصوص عنصر مجاہدین کے حوالے سے کئی معجزاتی قصے گھڑ کر لکھتے کہ غلیل سے روسی ٹینک کو تباہ کردیا گیا اور نہتے مجاہدین نے تیر کمان کی مدد سے روسی ہیلی کاپٹر مار گرایا

Politics

Politics

مقصد صرف یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی جہاد کے بارے میں ذہن سازی کی جائے اور اُنہیں اپنے وقت کی سپر پاور کے خلاف میدان جنگ میں اُتارا جائے یوں ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار تک وطن عزیز میں کسی جہادی تنظیم کا وجود تک نہ تھا اُس وقت علما کرام سیاست و صحافت کے ذریعے لوگوں کی اصلاح کا کردار ادا کرتے کانٹوں کی یہ ساری سبیلیں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی موت کے بعد لگائی گئیں جنرل ضیا الحق نے جہاں ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا کر امریکہ کو دنیا بھر پر تھانیداری کا پروانہ تھمایا وہاں پوری دنیا کو ایک عذاب میں مبتلا کیا اگر روس کی طاقت کا شیرازہ نہ بکھرتا تو امریکہ اسلامی دنیا کو اس قدر نقصان نہ پہنچا سکتا آج نہ تو عراقی صدر صدام کی موت اتنی ذلت سے ہوتی اور نہ کرنل قذافی کو گلیوں میں گھسیٹ کر موت کے گھاٹ اُتارا جاتا امریکہ کو دنیا کی ٹھیکیداری بھٹو کی موت کے عوض عطا ہوئی چائنا سے امریکہ اسقدر خوف زدہ نہیں

کیونکہ چائنا کی دلچسپی کھلونے بنا کر پیسہ کمانا ہے دنیا میں کہیں کسی مرحلے پر چائنا امریکہ کے سامنے اُس انداز میں کھڑا ہوتا اب تک دکھائی نہیں دیا کہ جس طرح روس امریکہ کو آنکھیں دکھاتا تھا کلاشنکوف کلچر ،منشیات اور جابجا پھیلی لسانی مذہبی تنظیموں کا اب تک نہ ٹوٹنے والا سلسلہ وطن عزیز کو دین کرکے مرد مومن مرد حق کی کہانی امریکہ نے تمام کردی جس کی مثال یہ ہے کہ رابن رافیل جیسے افراد کو بھی بستی لال کمال کے حادثے میں جلا دیا گیا تاکہ دنیا پر یہ راز کبھی افشاں نہ ہوسکے پھر حالات یہاں تک پہنچے کہ اسامہ بن لادن کا سرمایہ ایک جمہوری حکومت کے قیام پر صرف ہوا وقفے وقفے سے مختصر عرصہ پر محیط جمہوری حکومتوں کے قیام کے بعد اقتدار کے سنگھاسن پر جنرل مشرف جلوہ افروز ہوئے نائن الیون کے خود ساختہ سانحہ کو جواز بنا کر وہ افغانستان پر مسلط کردہ امریکی جنگ کی دوسری قسط کے بانی بنے اور خود کو امریکی جنگ کا فرنٹ لائن اتحادی کہلوانے پر فخر محسوس کرنے لگے

اُنہوں نے امریکہ بہادر کے ساتھ ملکر اُن تمام جہادی تنظیموں کے خاتمے کا پوری شدت کے ساتھ اعلان عزم کیا جن کی بنیاد اُسی امریکہ اور اُس کے پیش رو ایک آمر نے رکھی تھی جنرل مشرف نے درجنوں کی تعداد میں جہادی تنظیموں کو بین کیا اُن کے اکائونٹ منجمد کئے اور اُن کے سربراہان کو جیلوں میں بھی ڈالا بقول مشرف بھاری ڈالروں کے عوض کئیوں کو پکڑ کر امریکہ بہادر کے حوالے بھی کیا اس جنگ میں اتحادی ہونے کے باعث جنرل مشرف نے اپنے ہوائی اڈے امریکہ کو مہیا کئے ڈرون اٹیک کی اجازت بھی دی گئی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ایٹمی مجرم قرار دیکر نظر بند کر دیا گیا یہ اسی جنگ میں اتحادی ہونے کا نتیجہ ٹھہرا کہ ملک میں جا بجا خود کش بمبار ہر عام و خاص کا استقبال کرتے نظر آئے ،پورے خیبر پختون خواہ میں زندگی جام و ساکت ہو کر رہ گئی اسی اثنا میں بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی کے جلسہ عام کے بعد سر راہ قتل کر دیا گیا

بلوچوں کے چیف نواب اکبر بگٹی کو غدار وطن قرار دیکر موت کے گھاٹ اُتارا گیا امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی ہونے پرملکی ترقی اور خوشحالی کے جو سہانے خواب ہمیں دکھائے گئے وہ اس بھیانک شکل میں ہمارے سامنے آکھڑے ہوئے لیکن کمال یہ ہے اتنے سانحات کے باوجود ارباب اختیار کوئی دھج کی قومی پالیسی اور منصوبہ سازی عمل میں نہ لاسکے مذہب کو فرقہ واریت کی شکل میں گلی کوچوں دھکیلا جاتا رہا تا آنکہ وہ گھمسان کی جنگ بن چکا ہے ہر گلی چا ر چار مفتیان کرام فتویٰ دینے کیلئے بیٹھے ہیں ہر محلہ میں چار چار مسالک کے مدارس ہیں عرض ہے اب سانحہ پشاور نے آنکھیں کھولنے کا موقع دیا ہے تو اس عظیم دکھ کو پلے باندھ کر اُن تمام اسباب کا گلہ گھونٹ دینے کی آخری حدوں تک گزر جانا چاہیئے

کہ جہاں سے ہمیں ہمارا امن میسر آئے اور ہم دائمی امن کا کھوج لگا سکیں اس حوالے سے کچھ چیزوں کا تعین از حد ضروری ہے ہماری پالیسیاں ایران ،سعودی عرب ،چائنا ،امریکہ ،انڈیا اور اسرائیل کی مرہون منت نہ ہوں بلکہ ہمیں ترکی طرح آزادانہ فیصلے کرنا ہونگے اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب ہم انسانی فصل اجاڑنے والے دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ معاشی تباہی کے ذمہ داروں اور ملکی خزانہ پر ہاتھ صاف کرنے والوں کیلئے بھی پھانسی گھاٹ تیار رکھیں گے وگرنہ سانحہ پشاور ایسے سانحات سے کسی طور جان جھڑانا ممکن نظر نہیں آتا۔

Luqman Asad

Luqman Asad

تحریر: لقمان اسد