شام کا وقت تھا ۔امی جان کھانا تیار کرکے مجھے آوازیں دے رہی تھی ۔بیٹا!کھانا تیار ہے ،جلدی آئو ٹھنڈا ہو جائے گا۔امی جان! مجھے بھوک نہیں ہے؟۔امی جان حیرا ن ہو گئی۔ اسے کیا ہو گیا ہے؟ابھی تو کھانے کا کہہ رہا تھا۔اسے بہت بھوک لگی ہوئی تھی ۔اب کیا ہو گیا ہے؟ امی جان میرے پاس آبیٹھی ۔ممتا کا پیار امڈ آیا۔ماتھا چوما ،پیار کیا،پیار سے وجہ پوچھی تو میرے آنکھیں برسنے لگیں۔ روتے روتے ماں جی کو بتایا کہ پشاور میں دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کر کے 150 کے قریب معصوم بچوں کو شہید کر دیا۔امی جان ! اپنے حواس کھو بیٹھی ۔خبر ہی ایسی تھی ۔یہ ماں تو ملتان کی تھی ،جس کا بچہ اس کی آنکھوں کے سامنے بیٹھا تھا۔
مگر۔۔۔۔۔ ان مائوں کا کیا حال ہوا ہو گا؟۔جن کے بچے صبح شرارتیں کرتے ،مسکراتے، سفید یونی فارم میں سکول گئے ہوں گے۔لیکن واپسی نہ شرارتیں آئی،نہ مسکراہٹ،سفید یونی فارم خون سے لت پت،وہ پھول جو صبح کھلتے گئے تھے ،مرجھاگئے تھے۔کسی بہن کا بھائی شہید ہو گیا تھا تو کسی ماں کا اکلوتا چشم وچراغ گُل ہو گیا تھا۔کسی کے تین پھول،تو کسی کے پانچ پھول خوشبو دینے سے پہلے ہی دشمنوں نے مسل دئیے تھے ۔جن کے خواب آنکھوں میں سجے کے سجے رہ گئے۔ جن کی نہ کسی سے دشمنی تھی۔نہ وہ دشمنی کا مطلب جانتے تھے۔وہ توعلم حاصل کرکے ڈاکٹر،انجینئر بننا چاہتے تھے۔ وہ بوڑھے والدین کا سہارا بننا چاہتے تھے۔لیکن ضمیر فروشوں نے ،جن کے دل نرم نہیں پتھر کے ہوں گے۔جنہوں نے کسی ماں سے توجنم لیا ہوگا ۔ان کا کوئی تو باپ ہوگا ؟لیکن ان کو لمحہ بھر رحم نہ آیا۔نہ بچوں کی چیخیں سنائی دی۔یہ تو درندوں سے بھی کہیں آگے نکل گئے ہیں۔
بچے تو دشمن کے بھی پیارے ہوتے ہیں۔لیکن جن کے ضمیر مردہ ہو چکے ہوں۔دلوں پر لعنت کی مہر ثبت ہو چکی ہو۔جو انسانی روپ میں حیوانوں سے کہیں بد تر ہوں۔جن کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوں،ان کو تو اپنے بچے بھی اپنے نہیں لگتے ۔وہ انسانی روپ میں شیطان پھرتے ہیں۔خود کومسلمان کہلوانے والے،دین کے نام سے نا آشنا یہ لوگ آخر کب تک میرے وطن کے مصوم پھولوں کو شہید کرتے رہیں گے۔؟کب تک دہشت گردی پھیلاتے رہیں گے۔؟
پشاورمیں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کا حملہ، پاکستان تو کیا پوری دُنیا کا بد ترین حملہ ہے۔پوری دُنیا اس کی مذمت کرتی نظر آتی ہے۔دہشت گردوں کی بزدلی دیکھو ،مصوم پھولوں کو نشانہ بنایا جن کو یہ بھی معلوم نہیں تھا دشمنی کیا ہوتی ہے؟سوال یہ اٹھتا ہے،یہ درندے کیسے میرے وطن کی سرحدیں کراس کر کے حملہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔؟کیا ہم میں سے کوئی میر جعفر،میر صادق کا کردار ادا کر رہا ہیں۔؟کون ہے جو ان کی سر پرستی کر رہا ہے۔کہاں سے تربیت لے رہے ہیں۔یہ شیطان کہاں سے پیدا ہورہے ہیں۔؟
یہ درندے مائوں کی گودیں اجاڑتے پھرتے ہیں اور ہم خاموش تماشائی بنے تماشا دیکھ رہے ہیں۔میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔والدین تو والدین ،ان پرندوں سے پوچھوجن کے ساتھ کھیلنے والے شہید ہو گئے ہیں۔اس باپ کا کیا حال ہوگا ،جو روز اپنے بچے کے تسمے باندھتا تھا۔والدین غم سے نڈھال ہیں،پرندے دانہ نہیں کھاتے۔یہ ہوتی ہے محبت۔ ارے بے ضمیرلوگو! خود کو طالبان کہتے ہو۔اور طالب علموں پر حملے کرتے ہو۔خود کو مسلمان کہتے ہو،دین اسلام تو دشمنوں پر بھی ظلم نہیں کرتا۔ تم تو دین سے ناآشنا ہو۔دنیا کا کوئی دین بچوں کو مارنے کی اجازت نہیں دیتا ۔تم کس دین کے پیروکار ہو۔تمھاراکوئی دین نہیں ہے،تم تو انسانی روپ میں وحشی درندے ہو۔بلکہ درندوں سے بھی کہیں بڑھ کر ہو تم۔جانتے ہو تم کس قوم کو للکار رہے ہو۔جس کے بچے بھی وطن کے لئے جان دینے سے دریغ نہیں کرتے۔
Peshawar Incident
سانحہ پشاور پر پوری قوم شدید مذمت کرتی ہے ،ہمیں یک جان ہو کر ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرکے ان کی جڑیں تک ختم کرنی ہوں گی۔سیاستدانوں،حکمرانوںاور قوم کے ہر فرد کوان کے خلاف لڑنا ہوگا۔جو ہمارے مستقبل کو تباہ کر نے پر تلے ہوئے ہیں۔ان کو نیست و نابود کرنا ہوگا۔وطن کو دہشت گردوں سے پاک کرنا ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے۔
کون ہے جو ان کا ساتھ دے رہا ہے۔یہ شیطان کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ہمارے اپنے ہی ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ان اپنوں کو کیفرکردار پہنچانا ہوگا۔ورنہ یہ ممکن ہی نہیں کہ جس ملک کی افواج بہادر،نڈر ہو،جس کی سرحدیں مضبوط ہوں۔جس کے پاس جدید ٹیکنالوجی ہو۔جس کی قوم جذبوں سے سرشار ہو۔جس کے بچے وطن کے لئے جان دینا جانتے ہوں۔جس ملک میں مائیں اپنے بچوں کو قربان کرنا جانتی ہوں۔اس ملک کو صفحہ ہستی سے کوئی مٹا ہی نہیں سکتا۔
حکومت کو پالیسی تبدیل کرنا ہو گی۔ سیکوڑتی پلان تبدیل کرنے ہو گے۔سیاسیدانوں، حکمرانوں کو اپنے اپنے مفادات بھول کر یک جان ہو کر دہشت گردوں کو مٹانے کے لئے اقدام کرنے ہوگے۔ اس ملک پر میلی آنکھ دیکھنے والوں کی آنکھیں نکالنی ہو گی۔ دہشت گردوں کا صفایا کرنا ہوگا۔تب ملک میں امن ہوگا۔وہ وقت دور نہیں ہے۔جب میرے وطن کے مصوم پھولوں کا خون رنگ لائے گا۔ انشااللہ!۔