تحریر : امتیاز شاکر 25 دسمبر 2011 قائد اعظم محمد علی جناح کا 165 یوم ولادت۔ قوم یہ دن ہرسال نہایت محبت۔ عقیدت و احترام ۔تزاک واحتشام اور قومی جذبے سے مناتی ہے۔ آپ انتہائی جرات کے پیکر تھے۔آپ نے بلاخوف و ڈر مسلمانان برصغیر کے مفاد کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ آپ کی شخصیت تدبر۔ حوصلہ۔ احساس ذمہ داری۔سالمیت۔بے باکی۔انصاف پسندی۔ حقیقت پسندی اور با مقصد جدوجہد کی آئینہ دار تھی۔
بابا قوم قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔لیکن پھر بھی دل کرتا ہے کہ اپنے عظیم لیڈر کی شان میں کچھ کہوں۔میرے قائد نے برصغیر کے مسلمانوں کو دنیاکا سب سے بڑا اسلامی ملک یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان تحفے میں دیا ،میرے اعظیم قائد نے اپنی ساری زندگی ،اپنا حال ومستقبل ۔اپنا علم ،اپنی عقل ،اپنا جان ومال،یہاں تک کہ اپنی صحت اورنیندبھی برصغیر کے مسلمانوں کے لیے وقف کردی ۔قائداعظم محمدعلی جناح عالم اسلام کی عظیم ترین اورمثالی شخصیت تھے ۔محمد علی جناح کی صورت میں برصغیر کے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کا خاص تحفہ ملا ،میرے خیال میں اگر باباقوم کو برصغیر کے مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔خالق کائنات نے محمد علی جناح کوتمام انسانی صفات سے نوزاتھا۔دیانت،فراصت،عقل وشعور،عزم واستقامت،خلوص اوراصول پسندی ان کے قردارسے عیاں تھی اصولی سیاست میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔نہ صرف مسلمانوں بلکہ وہ اقلیت آبادی کے حقوق کے بھی پاسبان تھے انھوں نے بارہا فرمایا پاکستان میں سب اقلیتوں کو اپنی مذہبی زندگی گزارنے کا پورا،پورا حق حاصل ہوگا۔لیکن باباقوم پاکستا ن میں تمام غیر جمہوری رویوں کے شدید مخالف تھے،انھیں آفسر شاہی ،جاگیر درانہ نظام اور مارشل لا سے سخت نفرت تھی مگر بدقسمتی سے ہم آج تک قائد اعظم محمد علی جناح کے نقش قدم اور اصولوں پر عمل پیرا نہ ہو سکے جس کی وجہ سے آج پاکستان میں تھوڑی بہت جمہوریت تو ہے لیکن جاگیرداری اورآفسر شاہی پہلے سے بھی زیادہ ہو گی ہے اور جو تھوڑی بہت جمہوریت ہے وہ بھی جاگیرداراورآفیسرطبقے کے گھر کی لونڈی بنی پڑی ہے۔
غریب کا بچہ پڑھا لکھا ہونے کے باوجود سفارش حاصل کرنے کی غرض سے ان پڑھ جاگیر دار کے گھر کے باہرکھڑا دکھائی دیتا ہے، جاگیر دار کسی ایک شخص یا کسی فرقے کا نام نہیںبلکہ میرے خیال میں جاگیر داری صرف ایک سوچ کا نام ہے ایسی سوچ جو ساری دنیا کو کھا جانا چاہتی ہے۔اور یہ سوچ تقریباً پوری دنیا میں پائی جاتی ۔کوئی گائوں ہو یا شہرکوئی ترقی یافتہ ملک ہو یا ترقی پزیر ملک۔ یہ کمبخت جاگیردرانہ سوچ ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ یہ سوچ صرف اور صرف دولت اور طاقت کے نشہ میں مست لوگوں کی میراث ہے ۔ دور حاضر میں سب سے بڑا جاگیر دار امریکہ ہے ۔ او ر ایک حقیقی مسلمان معاشرے سے اس کا دور، دورتک کوئی واستہ نہیں۔اسلام دنیا کا وہ واحدمذ ہب ہے جو جاگیر دارنہ سوچ اور نظام کی شدید مخالفت کرتا ہے ۔جس کی کھلی مثال یہ کے جب مسلمان نماز کے لیے صفوں کو درست کرتے ہیں تو سب کوکندھے سے کندھا ملانے کا حکم ہے۔اور یہ حقیقت دنیا سے ڈھکی چھپی نہیںکے جب لاکھوں مسلمان ایک ہی وقت میں اپنے رب کو سجدہ کرتے ہیں تواس وقت نہ تو کوئی غریب ہوتا ہے اور نہ کوئی امیر ہوتا ہے۔نہ تو کوئی جاگیر دار ،وڈیرہ ہوتاہے اور نہ ہی مزارہ اور کمی ہوتا ہے۔ اس وقت سب مسلمان ہوتے ہیں ۔ جب بارگاہ الہی میں پنچے توسبھی ایک ہوئے۔ نہ کوئی بندہ رہا بندہ نواز۔امیر ،غریب ،جاگیر دار،وڈیرے اور مزارے ،کمی کا فرق مٹانے والے دین اسلام کی حکمرانی کا خواب حضرت ڈاکٹر علامہ اقبال نے دیکھا ۔اور اللہتعالی ٰ نے حضرت محمد علی جناح کی قیادت میں ہندوستان کے مسلمانوں کو اقبال کے خواب کی تعبیر کی صورت میں آزاد پاکستان عطا کردیا۔ محمد علی جناح سچے مسلمان تھے جو آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں ۔اور ان کی سوچ عین اسلام کے مطابق تھی۔
Pakistan
بابا قوم قایداعظم کی خواہش کے مطابق اگرہم پاکستان کو نوکرشاہی، بدعنوان سیاست، اورجاگیردرانہ نظام ۔ سے پاک کر کے روزگار کے زیادہ سے زیادہ منصوبے بنا پاتے تو آج حالات کچھ اور ہوتےْ اور پاکستان ایک پرامن اورخوشحال مسلم ریاست ہوتا ۔ میرے ہم وطنوں اگر آج بھی ہم پاکستان کی حقیقت اور اہمیت کا ادراک کریں اور اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھیں توکچھ بھی مشکل نہیں ۔اگر ہم دین اسلام،کو سمجھنے والی،نظریہ پاکستان کی حقیقتوں سے شناسا،دلیر اور ایک مخلص قیادت لانے میں کامیاب ہو جائیں تو ہم آج بھی پاکستان کو دنیا کے نقشے پر حقیقی معانوں میں مثالی اور خوشحال ریاست بنا کے بابا قوم کے خوبوں کو پورا کرسکتے ہیں۔جیسے کے بابا قوم شروع سے ہی نوکر شاہی کے شدیدمخالف تھے ان کو اس بات کی باخوبی اندازہ اور پختہ یقین تھا کہ جب تک نوکر شاہی ختم نہ ہوئی تب تک ،اسلامی جمہوریہ پاکستا ن ،نہ تو سہی معانوں میں اسلامی ریاست بن پاے گا اور نہ ہی جمہوریت پھل پھول سکے گی اور اگر جمہوریت نہ رہی تو اقتصادی ،معاشی، ترقی کرنا بہت مشکل ہو جائے گا، قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم کی سب سے بڑی مشکل یہ تھی کے سرکاری ملازمین کی آفاقی ذہنیت کو کیسے بدلا جاے تاکہ وہ عوام کے آقا نہ بنیں بلکہ خدمت گزار رہیں۔
بابا قوم نے ایک موقعہ پر سرکاری ملازموں سے خطاب کرتے ہوئے کہا آپ حاکم نہیں ہیں آپ کا حکمران طبقے سے کوئی طالق نہیں۔لیکن بدقسمتی سے جاگیردرا نہ سوچ رکھنے والے سرکاری ملازمین بابا قوم کی خواہش کے برعکس آج تک اپنے آپ کو حکومت کا حصہ ہی سمجھتے ہیں علمیہ تویہ ہے کے افسرتو افسرپاکستان کے کسی سرکاری دفترکا چپڑاسی بھی اپنے آپ کومجسٹریٹ سے اوپر کا افسر سمجھتا ہے۔اور آج بھی باباقوم کا خواب ادھورا ہے کے سرکاری ملازمین اپنے آپکوقوم کا خادم سمجھیں اور اپنے فرائض منصبی کو پوری ایمانداری سے سر انجام دیں ۔ اسی طرح باباقوم کوجمہوریت اور آمریت کے فرق کا بھی با خوبی اندازہ تھااسی لیے انھوں بارہا افواج کے لوگوں کو یہ بات باور کروائی کے نظام پاکستان صرف اور صرف عوام کے منتخب نمائدے ہی چلائیں گے،اور افواج پاکستان ان کے تابے ہو گی،ایک موقعہ پر جب 5اگست1947ء کوقائداعظم بھارتی افواج کے کمانڈرانچیف کے پرائیویٹ سیکریٹری شاہد حامدکی طرف سے ڈنرکی دعوت میں شامل ہوئے جس میں ہندو ستانی،مسلمان،سول،عسکری آفیسر اورسیاسی قیادت شامل تھی۔
بابا قوم اس دن قدرتی طور پر بہت خوش تھے اور سب سے ہاتھ ملا رہے تھے ،وہاں ایک مسلمان فوجی آفیسر نے جب قایداعظم سے یہ سوال کیا کے پاکستان میں ہماری ترقی (پرموشن )کا کیا ہوگا،تو قائداعظم نے پر وقار انداز میں کہا،آپ مسلمان یا تو آسمانوں سے باتیں کرتے ہو یا دھم سے زمین پر گر پڑتے ہو،آپ درمیانہ راستہ اختیار نہیں کرتے،تمام ترقیاں (پرموشنز)اپنے وقت پر ہوں گی اور پاگل پن سے جلد بازی میں نہیں کی جائیں گی،پاکستان کی منتخب حکومت سول افراد پر مشتمل ہوگی جوبھی جمہوری اصولوں کے پر عکس سوچ رکھتا ہو، اسے پاکستان کا انتخاب نہیں کرنا چاہیے۔