تحریر : احسان باری قائداعظم کی وفات کے بعد سے بدمست سود خور صنعت کاروں، عیاش و اوباش وڈیروں، انگریز کے پروردہ جاگیرداروں، خانوں، سرداروں اور ناجائز منافع خور سرمایہ داروں نے ملک اور اس کے تمام اہم اداروںحتیٰ کہ سیاسی جماعتوں پربھی استحصالی،بانجھ ، لادینی، عوام دشمن، ڈکٹیٹرانہ، نام نہاد جمہوریت کے ذریعے عرصہ 63سال سے قبضہ جما کر عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔اس کا واحد حل یہ ہے کہ ساڑھے بارہ ایکڑ سے زائد زمینیں رکھنے والوں اور صنعتی ایمپائروں کے سود خور مالکوں پر ہمہ قسم انتخابات میں حصہ لینے پر مستقل پابندی عائد کی جائے۔
انتخابات کے تمام اخراجات حکومت کے ذمہ ہوں جبکہ امیدواروں پر سرمایہ خرچ کرنے کی پابندی ہو۔ خلاف ورزی کرنے والا خودبخود نااہل تصور قرارپا جائے اور متناسب نمائندگی کا نظام نافذ کیا جائے جس میں تمام طبقات مزدوروں، کسانوں، محنت کشوں وغیرہ کی تعداد کے برابر نشستوں کی تقسیم کی سیاسی جماعتیں پابند ہوں ۔اب وہ دور بھی لَد گیاہے کہ سہروردی جیسے وزیر اعظم اقتدار میں آنے سے پہلے اور وزارت عظمیٰ چھوڑنے کے بعد بھی بسوں ، ویگنوں اور رکشوں پر سفر کرتے ،عام سستے ہوٹلوںو سراؤں میں رہتے نیز ریڑھیوں اور چھپروں سے بنی کھانے کی جگہوں اور تنوروںپر پیٹ کی آگ بجھاتے تھے۔
جس کے بعد دولت کی لونڈی کے پرستار شریفوں، زرپرست زرداریوں، گیلانیوں، قریشیوں ، بھٹوؤں ، آمر جرنیلوں اور ترینوں کا دور مسلسل جاری و ساری ہے جن کی دیہاڑیوں کی ناجائز کمائیاں لاکھوں کروڑوں تک پہنچی ہوئی ہیں جوبیرون ملک کھربوں کی جائیدادوں ، فلیٹوں، پلازوں اور بنک بیلنسوں کے مالک ہیں۔ سرکاری خزانے کے کروڑوں روپے کے خرچوں سے بیرون ملک کے دورے بھی کاروباروں کی وسعتوں کیلئے کرتے ہیں ۔ حکمران ، مک مکائی نام نہاداپوزیشن ، دھرنوں والے کرتب باز بازیگر بھوکے اقتداری بٹیرے نما قائدین میں اکثریت سامراجی ملکوں کے پروردہ ٹوڈیوں کی ہے ۔ دوسری طرف بدحال غریب طبقات کی تعداد 75فیصد تک ہی نہیں پہنچ چکی بلکہ اس میں ہر سال تقریباً 15لاکھ افراد کا مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ۔ چولستانی مخلوق اور تھر کے باسی بچے و خواتین بھوک اور پیاس سے بلک بلک کر زندہ درگور ہورہے ہیں غربت کی وجہ سے موت کا رقص ابلیس مسلسل جاری ہے جبکہ لادینی جمہوریت کی لولی لنگڑی لونڈی کا 98فیصد عوام سے کوئی سروکار نہیں اور وہ ان بڑوں کی حکمرانی کیلئے ڈھال بنی ہوئی ہے۔
Load Shedding
اب ضروری ہے کہ بے روزگاری کے خاتمے کیلئے چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتیں لگانے اور بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم کی جائے ۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں کمی کے بعد تیل ہی نہیں بلکہ روزمرہ کی اشیائے صرف کی قیمتوں میں بھی 50فیصد کمی کی جائے ۔ کریک ڈاؤن کے ذریعے ناجائز منافع خور سرمایہ دار طبقوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزائیں دی جائیں تاکہ حکومتی ملی بھگت سے دوبارہ قیمتیں آسمانوں سے باتیں نہ کرنے لگیں۔نواز عمران جھگڑا کسی قانو ن ضابطے کے تحت نہیں بلکہ فری اسٹائل کشتی ہے جو شائد دونوں کے سیاسی اقتدار اور خواہشات کے خاتمے پر منتج ہوگی اور نوجوانوں کا جو خون سڑکوں کو رنگین کررہا ہے اور جو مریض دھرنوں اور سڑکوں پر رکاوٹوں کی وجہ سے لاہورو دیگر جگہوں پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اس کا ان دونوں رہنماؤں پرمستقبل میں قتل عمد کا مقدمہ ضروردرج ہوگا۔ایک پر اکٹھ کرنے ،دھرنے ، ہڑتالوں، راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنے، دہشت گردی کا پلان بنانے اور دوسرے پرپولیس گردی کے ذریعے ظلم کی برسات برسا کرقتل و غارتگری کا الزام ہوگا۔
پھانسیوں کادور چل ہی پڑا ہے ،مکمل انصاف کے ذریعے ایک ہی رسی دونوں کی گردنوں میں ضرور بالضرورفٹ ہوگی !! مقتولوں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جایا کرتا!یہی رویہ رہا تو انتخابات میں دونوں کے وڈیرے ، جاگیردار اور سرمایہ پرست امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہونے کے قوی امکانات ہیں جبکہ اللہ اکبر تحریک کے انتخابی نشان گائے پر آئندہ انتخابات میں مہریں لگیں گی اوروہ فتح پا کر عوام کے تمام بنیادی مسائل کو احسن طریقے سے حل کرنے کے وعدے کی پابندہے کیونکہ سابقہ پارلیمانی سیکرٹری ہوں یا وزیر بے تدبیر اللہ اکبر تحریک میں ان کی قطعاً کوئی جگہ نہ ہے ۔ تحریک کے اقتدار میں گیس، بجلی، صاف پانی، علاج، تعلیم ، انصاف مکمل طور پر مفت فراہم ہونگے ۔ مزدور وں اور محنت کشوںکو کم از کم تنخواہ پچاس ہزار روپے ماہانہ یا ایک تولہ سونا کی قیمت کے برابر جو بھی زیادہ ہواملے گی ۔ کھانے پینے کی عام اشیاء مثلاً دال چاول آٹا سبزی فروٹ گھی چائے ادویات وغیرہ 1/5قیمت پر ، ہمہ قسم تیل 1/3قیمت پر مہیا ہوگا۔ دیگر ضروریات بھی بغیر منافع کے دوکانوں پر فراہم ہونگی۔
ٹرانسپورٹ اور باربرداری 1/3قیمت پر اور غریبوں کیلئے مفت مہیا ہوگی اور سبسڈی کے ذریعے اور عالم اسلام سے بغیر سود قرض حسنہ لے کر ملک کو اسلامی فلاحی مملکت بنایا جائے گا۔جس میں بے روزگاری، دہشت گردی، مہنگائی ، کرپشن اور غربت کا مکمل خاتمہ ہوگا ۔موجودہ مذاکرات نتیجہ خیز نہ ہوسکے۔عمران راضی اور الطاف ناراض تو بھی کام نہیں چلے گا ۔ نئے صوبوں کے خواہشمندوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ بھی آئندہ دھرنا نما کشتیوں کیلئے زیر جامے سلوا چکے ہیں اور عوامی مطالبات نہ مانے گئے تو عساکر ہی آکر مسائل حل کریں گی ؟؟کیونکہ متنازعہ ہی نہیں بلکہ جعلی مینڈیٹ ، اسٹیبلشمنٹ سے خفیہ سردجنگ، انتہائی مایوس کن آمرانہ طرز حکومت ، مہنگائی ، بے روزگاری، بدامنی اور سرمایہ پرست اقتداری اٹھکھیلیاںکرتے ہوئے امیر طبقات کی سرپرستی جیسے سنگین الزامات کا موجودہ حکومت کو سامنا ہے جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔