ڈھونگ الیکشن کے نتائج: مقبوضہ کشمیر میں کانگریس کا صفایا‘ بی جے پی بھی اکثریت حاصل نہ کر سکی

 Kashmir Election

Kashmir Election

نئی دہلی (جیوڈیسک) ریاستی الیکشن کے نتائج کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی سادہ اکثریت نہ لے سکی اور تنہا حکومت بنانے کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ بی جے پی جھاڑ کھنڈ ریاست میں حکومت بنائے گی، مقبوضہ کشمیر میں اسے 87 میں سے 25 سیٹیں ملی ہیں جو حکومت بنانے کیلئے ناکافی ہیں کیونکہ سادہ اکثریت کیلئے 87 میں سے بی جے پی کو 44 سیٹیں درکار تھیں۔

وادی میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے 28 سیٹیں جیت لیں۔ کشمیر کی 63 سالہ انتخابی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے بھارتیہ جنتا پارٹی نے جموں اور اسلام پسند حلقوں کے قریب سمجھی جانے والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یا پی ڈی پی نے کشمیر میں برتری حاصل کی ہے۔ کشمیر اسمبلی کی کل 87 نشتیں ہیں، جن میں سے 46 کشمیر، 37 جموں اور چار لداخ میں ہیں۔

غور طلب ہے کہ بی جے پی نے وادی سے درجنوں مسلم چہرے سامنے لانے کے باوجود یہ جماعت وادی میں ایک بھی سیٹ پر جیت درج نہ کرا سکی۔ بی جے پی کی ڈاکٹر حنا بٹ، موتی کول، زبیر وانی، مسعود الحسن اور نیلم گاش سمیت قریب 30 امیدواروں کو وادی میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ خود وزیراعلیٰ عمرعبداللہ بھی اپنے آبائی حلقے سونہ وار کی نشست ہار گئے۔ انکا اقتدار ختم ہوگیا، نیشنل کانفرنس 15 اور کانگریس صرف 12 نشستیں جیت سکی۔ ان انتخابات میں سجاد غنی لون نے بھی دو سیٹیں حاصل کر کے اپنی پارٹی پیپلز کانفرنس کا مقامی اسمبلی میں داخلہ ممکن بنا دیا ہے۔

پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے کہا حکومت بنانے میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کی کل ملا کر 37 نشستیں ہیں، جس کا مطلب یہ ہے انھیں حکومت سازی کے لیے سات ممبروں کی حمایت درکار ہوگی۔ سجاد لون کی دو، کمیونسٹ پارٹی کی ایک اور چار آزاد امیدواروں کی حمایت کسی بھی اتحاد کے لیے ناگزیر ہوگی۔ان انتخابات کے بعد جموں اور کشمیر کے خطوں کے درمیان سیاسی اور نظریاتی کشیدگی بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

ادھر وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے مدت اقتدار کی آخری پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ وادی میں ہونے والے پرامن انتخابات رائے شماری کا متبادل نہیں ہیں۔ انتخابات کا محدود مقصد لوگوں کو بہتر انتظامیہ فراہم کرنا ہے اور یہ مسئلہ کشمیر کے حل کا کوئی پہلو نہیں ہو سکتے۔ عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ ان انتخابات کو بھارت پاکستان تعلقات یا مسئلہ کشمیر سے جوڑنا غلط ہے۔ یہ رائے شماری کا متبادل نہیں ہو سکتے۔

عمر عبداللہ نے نتائج کے بعد بی جے پی کے ساتھ شراکت اقتدار کے کسی اتحاد کو بھی خارج از امکان قرار دیا۔ بے شک نریندر مودی بی جے پی کے بعض متنازعہ نعروں پر خاموش رہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ پارٹی بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے، یکساں سول کوڈ اور کشمیر کے بھارتی وفاق میں مکمل انضمام جیسے اپنے اہداف بھول چکی ہے۔

وہ ایسی جماعت کے ساتھ کوئی سیاسی اتحاد نہیں کر سکتے جبکہ ’ہندوستان میں مسلمانوں کو جبری طور مذہب تبدیل کروانے کے واقعات پر تو خود نریندر مودی بھی خاموش ہیں۔‘ بی جے پی نے ’’مشن 44 پلس‘‘ کے نام سے انتہائی مہنگی مہم چھیڑ کر ’’فتح‘‘ کا اعلان کیا تھا۔ یہ مہم بھی ناکام ہو گئی۔

صدر بی جے پی امیت شاہ نے کہا مشن 44 پلس کامیاب رہا۔ نتائج مودی کی قیادت پر اعتماد کا اظہارہیں۔ پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس سے مل کر حکومت بنانے کیلئے تیار ہیں۔ پی ڈی پی نے بھی بی جے پی سے اتحاد کا عندیہ دیدیا۔

بی جے پی کا مقبوضہ کشمیر کی تاریخ میں پہلا ایم پی کامیاب، راجوری سے عبدالغنی کوہلی جیت گئے۔بی جے پی نے اپنے منشور میں آرٹیکل 370 کو بھی بھارتی آئین سے نکالنے کا اعلان کررکھا ہے۔ یہ آرٹیکل کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا ہے لیکن انتخابات میں شکست کے بعد اب بی جے پی کشمیر کے بارے میں اپنے منصوبے پر عملدرآمد ہیں کرپائے گی۔