تحریر: عمران عاکف خان گزشتہ کچھ برسوں اور مدتوں سے جس طرح جمہوریت کا چوتھا ستون الیکٹرونک اور پرنٹ’ میڈیا ‘جانب داری اور جذباتیت کی رومیں بہتا جا رہا ہے اس سے نہ جانے کیوںو دلوں میں نفرت بڑھتی جارہی ہے، جب دیکھو جب وہ مخصوص ذہنوں، بڑے لوگوں اور دنیا کا امن غارت کر نے والوں کی کٹھ پتلی بن کر ناچتا رہتا ہے اوران کے ناپاک و نامناسب منصوبوں کو تقویت پہنچاتا رہتا ہے۔ جب بھی کوئی چینل یا اخبار اٹھا کر دیکھو غریبوں پر ظلم اور ظالموں کی حمایت ان میں نظر آتی ہے۔ اس کی نظر میں غریبوں کا درد، درد نہیں ہے، قحط سے عاجز کسانوں اور گائوں کے باشندے کی انفرادی و اجتماعی خود کشی ان کے لیے خبر کا سامان نہیں ہے، کسی بے بس و نادار کی آہوں کو اس کا کیمرہ نہیں دکھاتا بلکہ ثروت مندوں اور بڑے لوگوں کو ہی اس کی تیسری آنکھ کور کر تی ہے۔
حالیہ دنوں پشاور میں ہونے والے حادثے کو میڈیا نے جس طرح یک طرفہ اور جانب داری سے دکھا یا اس نے تو رہی سہی کسر پوری کر دی ۔ساری دنیا جانتی ہے کہ سانحۂ پشاور دنیا کاکوئی سب سے انوکھا اور پہلا سانحہ ہے بلکہ اس سے پہلے بھی ،کل بھی بڑی بڑی قیامتیں بر پا ہوئی ہیں اورآج بھی ہورہی ہیں ۔مجھے کہنے دیجیے !گزشتہ چار پانچ برسوں سے ماہ رمضان میں اسرائیل، نہتے فلسطینیوں اورغازہ پٹی پر جس طرح کی حیوانیت و درندگی کا مظاہر ہ کر تاہے اسے ‘کوئی میڈیا’ نہیں دکھاتا ۔وہاں کے اسپتالوں اور اسکولوں پر جس طرح بم گر ائے جاتے ہیں اسے کوئی’انسانیت پر حملہ نہیں کہتا’ فلسطین میں جس طرح معصوموں پھول سے بچوںکے اسکولوں پر حملہ کر کے کا قتل کر دیا جاتا ہے،اس پر ‘کبھی کسی ملک نے اپنے ملک میں ہائی الرٹ نہیں کیااور نہ ہی اسکولوں کے آس پاس سکیورٹی سخت کی’اس سے پہلے امریکہ نے افغانستان اور عراق میں معصوموں کو قتل کیا ‘اس پرکوئی ٹی وی اینکر نہیں رویا اورکسی نظم نگار نے نظم نہیں لکھی ‘ ہندوستان میں بر پا کیے جانے والے ممبئی ،حیدرآباد،گجرات ،گوپال گڑھ،میسور،مظفرنگر ،ترلوک پوری وغیرہ کے فرقہ وارانہ فسادات پر’ کوئی مباحثہ اور تکرار ‘ نہیں ہوئی……آخر کیوں ؟ کیا میڈیا کا یہی مقصد اور مطلب ہے کہ وہ ایک ہی آنکھ سے دیکھے اور ایک ہی کان سے سنے؟کیا اس کا وجود اسی لیے ہے کہ طاقت وروں کے ہاتھوں کا کھلونا بنا رہے اور غریبوں کے خون کا پیاسا؟یہ صورت حال تو میڈیا کے لیے زہر قاتل ہے اور اس کے وجود کے عدم جواز کا بھی ثبوت ہے۔…….یہ کتنا افسوس ناک امر ہے کہ جس میڈیاکو حق دکھانے ،سچ کی آواز بلند کر نے ،حاشیے پر رہنے والے عوام اور غریب و دبے کچلے لوگوں کا کان،آنکھ اور تر جمان ہونا چاہیے تھا وہ انسانیت کے دشمنوں کا’ پٹھو’ بن گیا۔یہ صورت حال نہ صرف جمہوریت کے لیے خطرناک ہے بلکہ میڈیا کے حق میں اچھی نہیں ہے۔
آج اس میڈیا سے کچھ صاف صاف باتیں کہنا چاہتاہوں جسے نہ جانے کس آئین نے ‘جمہوریت کا چوتھاستون’ کہا ہے، کہ آپ اپنی موجودہ غیر مناسب روش چھوڑیے اور فرائض کی صحیح صحیح ادائیگی کیجیے۔اگر آپ کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جمہوریت کی بقا میں اپنا اہم کر دار ادا کیجیے ، جمہوریت کی جان ،عوام ،کسانوں ،مزدوروں،زمین سے جڑے انسانوںکی حالت زار ،سرمایہ داروں اور انسانیت کے دشمنوں کو دکھائیے،سنائیے اور ان کے گوش گزار کیجیے تا کہ ان کے پتھر دل پگھلیں اور ان سے انسانیت کا درد پھوٹے۔آپ نے پشاور کا واقعہ توبڑے شدو مد اور طمطراق سے دکھا یا مگرکیا ان فلسطینی بچوں کو بھی دکھا یا جن کے منہ روزے سے سوکھے ہوتے تھے اور انھیں افطاری کے وقت خون اور موت ملی تھی۔آپ نے پشا و روالے واقعے کوانسانیت پر حملہ بتایا اور تاریخ کا ایسا سانحہ کہا جو ‘آپ کی نظر میں’تاریخ انسانیت کا سب سے بڑا واقعہ تھا مگرچیچینا،تزانیہ،سوڈان،افریقہ، افغانستان اور عراق کے آباد و شا د ملکوں کی امریکہ،یورپ اور ناٹو کے ہاتھوں تباہی اور بر بادی کو آپ نے امریکہ کی ‘حکمت عملی اورمشن ‘کہا اور انسانیت کا قتل ہوتے دیکھتے رہے۔
Democracy
کیا آپ کے دل میں چوٹ نہیں لگی؟کیا آپ کی آنکھوں میں اس منظر کو دیکھ کرخون جگر نہیں نکلا ؟کیا آپ کا وجود ان قیامتوں کو دیکھ کربھی نہیں لرزا …..اور ہاں یقینا نہیں لرزا …. اگر یہ اثرات آپ پر ہوتے تو آپ اس طرح درندے نہ بنتے ،انسان بنتے ، انسانوں کی زبان بولتے اور انسانیت کے حق میں آواز اٹھاتے …..آپ کے کالے کر توت آپ کو سفاک، حیوان، درندہ، مجرم، غریبوں کا دشمن اور انسانیت کا قاتل قرار دیتے ہیں ….آپ کس منہ سے خود کو جمہوریت کا چوتھا ستون اور سچائی کا علم بر دار کہلواتے ہیں جب کہ آپ حق ،دیانت داری،ایمان داری اور سچائی سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ میڈیا سے میں مخاطب ہوں جس نے اپناایک ٹرینڈ،مشن اور منصوبے بنا رکھے ہیں ،میں آپ سے کہنا چاہتاہوں کہ آپ کے پاس دو آنکھ اوردوکان ہیں ، پھر آپ ایک آنکھ اور ایک کان کو بند کر کے کیوں دیکھتے ہیں ،کیوں آپ کو ایک ہی طرف کانظر آتا ہے اور ایک ہی جانب سے سنائی دیتا ہے جب کہ بقول آپ کے ‘آپ تیسری آنکھ’بھی رکھتے ہیں جس کے ذریعے آپ کسی غریب ،شریف اور اچھے آدمی کی’فطری ،انسانی اور معمولی ‘ خامیوںو عیوب کو دنیا کے سامنے پیش کر کے اس کی عزت و شرافت اور وقار کو تارتار کر تے ہیں،نیز سُنا ہے کہ آپ کے ‘تیسرا کان ‘بھی پیدا ہو گیا جس کے ذریعے آپ اقلیتوں کے خلاف اٹھنے والی بے بنیادباتوں کو سن کر ملکوں کے خفیہ اداروں اور پولیس کو مطلع کر دیتے ہیں…..آپ ‘ ان تینوں آنکھوں اور تینوں کانوں ‘کو کھولتے کیوں نہیں اوراس انسانیت دشمن کا مجرمانہ عمل طشت ازبام کیوں نہیں کرتے جس نے آپ کو ایسا کر نے پر مجبور کیا ہے…..یا درکھیے !اگر آپ کا رویہ ایسا ہی رہا اور آپ انسانیت دشمنوں اور معصوموں قاتلوں کی اسی طرح پشت پناہی کر تے رہے تو وہ دن دور نہیں جب لوگ آپ سے متنفر ہو کر آپ کو مستردکر دیں گے اور آپ کی غلط بیانی پر آپ کو لعن طعن کریں گے۔
یہ آپ کے حق میں مفید ہو گا کہ آپ یکر خی اور جانب داری سے بازآئیں اور حقیقت جتنی، جیسی، جہاں کی بھی ہو اسے اتنا،اسی مقدار میں،اسی طرح دکھائیں…..شاید آپ کو معلوم نہیںہے کہ آپ جن کی غلامی اور چاپلوسی کررہے ہیں ان کے محل غریب انسانوں کی ہڈیوں اور خون سے تعمیر ہوئے ہیں ، ایک دن کسی غریب کی آہ عرش سے ٹکرائے گی ،ان کے محل چورچورہوں گے اور آپ کا بیڑہ غرق ہوگا۔ دنیا کا ایک دستور اور اصول ہے،جو یہاں سچائی اور ایمان داری کی راہ پر چلتا ہے اسے یہاںسرخروئی اور عزت ملتی ہے اور جو فریب،دجل،دھوکے بازی،برائی اور غلط روش پر چلتا ہے اسے کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیا جاتا ہے۔اب یہ آپ کے اختیار میں ہے کہ آپ کو کہاں جانا ہے۔ایک بات اور…وہ یہ کہ غریبوں کی معصوم اور نادار دعائیں زندگی کا پیغام لاتی ہیں اور امیروں کے دل خراش قہقہے تباہی و بر بادی اور نیستی کی علامت ہوتے ہیں۔
میرا آپ سے کوئی تنازع نہیں ہے،مدعا صرف یہ ہے کہ جہاں آپ نے پشا ور کے حادثے کو تاریخ انسانیت کا سب سے بڑا واقعہ بنا کر دکھا یا اسی طرح فلسطین کے سانحات کو بھی دکھائیے،اسی وقت آپ کی غیرجانب داری ثابت ہو گی ور نہ میں تو آپ کو پٹھو، کٹھ پتلی، چاپلوس، چمچہ، انسانیت کا دشمن اور غریبوں کا قاتل ہی کہتا رہوں گا…..اس سے بہترکوئی اور نام میں آپ کو نہیں دے سکتا۔