امریکہ کی نئی جنگی حکمت عملی

America

America

تحریر: لقمان اسد
امریکی فطرت میں سکون اور امن ہرگز نہیں۔ کہیں نہ کسی نہ کسی چھیڑ خانی میں امریکہ خود کو مصروف کیے رکھتا ہے۔ امریکیہ دوسروں کیلئے خطرات پیدا کرنے اور اپنے لیے خطرات مول لینے کے عمل پر ہمہ وقت تیار اور عمل پیرا دکھائی دیتا ہے۔

ماضی میں کہیں وہ ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹمی ہتھیار برساتا نظر آتا ہے اور کہیں افغانستان کی سرزمین پر رشیا سے برسرپیکار۔ رشیا کے ٹکرے ٹکرے کرنے کے بعد امریکہ کی بے چین روح کو قرار میسر نہ آسکا تو ماضی کے اپنے حلیف اسامہ بن لادن اور ملا عمر سے دشمنی کے جوازگھڑ کر افغانستان پر جنگ مسلط کردی وطن عزیزپاکستان دہشت گردی کے خلاف لڑی جانیوالے اس جنگ میں امریکہ کا فرنٹ لین اتحادی بنا۔امریکہ عراق کے خلاف دو مرتبہ وقفے وقفے سے میدان جنگ میں اُ ترا۔ عراقی صدر صدام حسین اور اپنے پرانے دشمن لیبیا کے کرنل معمر قذافی کو بھی موت کے گھاٹ اتارا۔بہت عرصہ قبل امریکہ کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ 2014میں امریکہ افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لیگا۔

دہشت گردی کے خلاف لڑی جانیوالی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی پاکستان کو حال ہی میں جب امریکہ کے پرانے حلیفوں طالبان سے شدید خطرات لاحق ہوے تو امریکہ کا پالیسی بیان جاری ہوا”امریکہ ملا عمر سمیت ان تمام طالبان رہنمائوں کو اپنا نشانہ نہ بنائے گا جو امریکہ کے خلاف ہتھیار نہ اٹھائیں گے” امریکہ کی طرف سے یہ پالیسی بیان ایک ایسے وقت میں سامنے میں آیا ہے جب پوری پاکستانی قوم سانحہ پشاور کے المناک انسانی المیہ پر گہرے صدمے سے دوچار ہے لیکن یہ بھی امریکی فطرت ہے کہ وہ اپنا مطلب پورا ہونے کے بعد دوستوں کو یکسر فراموش کرنے اور ان کے احسانات بھلانے میں دیر نہیں کرتا۔

مختلف ممالک میں مختلف حکمرانوں کے تختے الٹنا بھی امریکہ کا محبوب ترین مشغلہ رہا ہے ۔امریکہ اپنے مخالفین کو قتل کرانے،قید کرانے اور وطن بدر کرانے سے بھی کبھی نہیں ہچکچایا اسی پس منظر میں الجزائر کے بن بیلا، پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو، سعودی عرب کے شاہ فیصل اور ایران کے مصدق حسین کو بھی امریکی مظالم اور انتقام کا نشانہ بننا پڑا۔مصدق حسین سے امریکہ کو یہ دشمنی تھی کہ مصدق حسین نے ان امریکی اور برطانوی ملٹی نیشن کمپنیوںکو اپنے وطن سے نکال باہر کیا جو ایرانی تیل پر اپنا تسلط جمائے ہوئے تھیں۔اب امریکہ ایک بار پھر تیل کو اپنا ہتھیار بنا کر تیل کی عالمی یونین او پیک کے سربراہ سعودی عرب سے گٹھ جوڑ کرکے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کرانے کی پالیسی پر گامزن ہے دنیامیں اس وقت سعودی عرب تیل پیدا کرنے ممالک کی صف میں سرفہرست ہے۔

Pakistan

Pakistan

جبکہ ایران سعودی عرب کے دشمنوں میں سرفہرست ہے۔اسی طرح سوویت یونین کو امریکہ دنیا بھر میں کہیں کسی خطہ میں کسی حوالے سے بھی مضبوط کردار ادا کرنے کی قوت میں نہیں دیکھنا چاہتا یو ںا یران ، روس دوستی نے ان کے دشمن ممالک امریکہ اور سعودی عرب کو اس عمل میں دونوں کے خلاف یکجا کیا ہوا ہے روس اور ایران کو مغرب کی طرف سے اقتصادی پابندیوں کا پہلے ہی سخت سامنا ہے۔

اِقتصادی پابندیوں کی صورت میں روس اور ایران کی معاشی ترقی کا انحصار تیل کی پیداوار اور فروخت پر منحصر ہے عالمی منڈیوں میں اس قدر تیل کی قیمتیں گرنے سے روس اور ا یران دونوں ممالک کیلئے تیل فروخت کرنے کی مد میں زرمبادلہ کمانا اور اپنی معیشت کو سنبھالا دینا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

اس تناظل میں واضح دکھائی دے رہا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب ایران کی اور روس کی معیشت کو تباہ کرکے ان کے عوام میں بغاوت پیدا کرنے کے بعد دونوں مذکورہ ممالک کی موجودہ حکومتوں سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ اپنی اس نئی جنگی حکمت عملی کے سبب اس میدان جنگ میں کامیاب ٹھہرتا ہے یا روس اور ایران پر اس قدر شدید دبائوں کے نتیجے میں دونوں ممالک یعنی روس اور ایران کا ردعمل دنیا کو ایک نئی جنگ میں جھونکنے کا موجب تو نہیں بنتا۔عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں ایک دم اور یکسر گرائے جانے کا سب سے بڑا اور اہم بنیادی نقطہ اس پس منظر میں محض یہی ہے۔

Luqman Asad

Luqman Asad

تحریر: لقمان اسد