تحریر : محمد امجد خان چور کی داڑھی میں تنکا والی مشہور کہاوت سنی تو سب نے ہی ہو گی مگر اس کے معرض وجود میں آنے سے متعلق میرے خیال میں صرف معمر لوگ ہی جانتے ہونگے، لہذا اس کی وضاحت ضروری سمجھتے ہوئے عرض کرتا چلوں کہ یہ جملہ اُس وقت استعمال کیا گیا تھا جب زمانہ قدیم میں ایک گائوں میں ایک چوری کا واقع رونما ہونے کے بعد چور کی تلاش جاری تھی مگر ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نا لگ رہا تھا ایسے میں گائوں کی تحقیقاتی ٹیم کو کسی نے مشورہ دیا کہ گائوں کا فلاں شخص چور تلاش کرنے کا بڑا ماہر ہے کیوں نااُس کی خدمات حاصل کرلی جائیں اس مشورے پر تحقیقاتی ٹیم نے جب اس شخص سے رجوع کیا تواُس نے تحقیقاتی ٹیم کو خود کے پاس ایک ایسا جرگہ بلانے کا کہا جس میں گائوں کا ہر فرد شریک ہو لہذا اس کھوجی کے کہنے پر تحقیقاتی ٹیم نے جب ایسا ہی کرلیا تومتعلقہ کھوجی نے تحقیقاتی ٹیم کے ارکان کو الگ کرنے کے بعد سبھی کو ایک خاص ترتیب سے بٹھاتے ہوئے تحقیقاتی ٹیم کے لوگوں کو سرگوشی میں کہا کہ آپ نے اِن کی نکل و حرکت پر کڑی نظر رکھنی ہے۔
جس کے بعد اس کھوجی نے ان سب حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ سب میرے پاس کیسے آئے ہیں ؟تو جواب مِلا کہ ہم فلاں شخص کے ساتھ ہونے والی چوری کی واردات کے ملزم تک پہنچنے کیلئے آپ کے پاس آئے ہیں،یہ سن کر کھوجی نے بڑا حیران کن لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کمال کرتے ہو! چور بھی خود اور تلاش بھی خود ہی ،یہ سُن کر مذید سوال ہوا سمجھے نہیں ،جواب دیا گیا کہ چور کو تو آپ چور کی تلاش میں خود ہی ساتھ لے آئے ہیں ،جسے سنتے ہی ہی جو چور تھا اُس کے ماتے پر پسینہ آگیا ،مگر سوا ئے کھوجی کے کسی نے غور نہ کیا ،اور مذید سوال کر دیا گیا کہ جناب اُس کی شناخت کیا ہے ؟جواب مِلا کہ آپ میں سے جس کی داڑھی میں تنکا اٹکا ہوا ہے ،یہ سُن کر سبھی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا مگر داڑھی کسی نے نہ کجھلی کیونکہ اُن کا ضمیر مطمعین تھا ،لیکن جو چور تھا اُس نے کسی دوسرے کی جانب دیکھنے کی بجائے داڑھی کھجلتے ہوئے داڑھی میں انگلیا ںپھیریں تاکہ تنکانیچے گر جائے اور ساتھ نیچے کی طرف دیکھا کہ تنکا گِرا ہے یا نہیں ،مگر تنکا ہوتا تو گرتا۔
لہذا تنکا گرنے کی بجائے جوتے گرنے شروع ہوگئے،کیونکہ اُس کی اس حرکت کے سبب اُس کے کالے کرتوت کا بھانڈا پھوٹ چکا تھا،ایسا ہی سانحہ پشاور پر بھارت سرکار نے کیا ہے جس کی ہم جتنی چاہیں مذمت کرلیں کم ہے جتنے چاہیں دہشت گرد تختہ پھانسی پر لٹکا لیں کم ہیں مختصر یہ کہ ہم کسی بھی طریقہ سے اب اُن مائوں کے کلیجوں کووہ ٹھنڈک نہیں دے سکتے جو اُنہیں شہید ہونے والے اپنے بچوں کو کھیلتا کودتا شرارتیں کرتا دیکھ کر پہنچتی تھی اس سانحہ پر دیگر ممالک کی طرح ظاہراً تو بھارت سرکار نے بھی مذمت کی ہے لیکن میری ناقص رائے کے مطابق مُلا فضل اللہ نے اس سانحہ کی ذمہ داری گوقبول کرلی اوراس سانحہ میں اُس کے شامل ہونے کے واضع ثبوت بھی مِل گئے مگر حملہ آوروں کی تربیت سے لے کر آرمی پبلک سکول پہنچانے تک کا کام واس کام پرآنے والے تمام تراخراجات کے علاوہ بھارتی ایجنسی را نے سانحہ رونما کرنے کی مُلاالگ سے بھاری قیمت بھی ادا کی ہے۔
Mullah Fazlullah
مُلا فضل اللہ نے یہ قیمت وصول کرتے ہوئے بھارت کی جانب سے تحفظ کی بھی مکمل یقین دہانی کروانے پراس سانحہ کی ذمہ داری قبول کی ہے کر اوربھارت اس وعدے کو وفا کرنے کیلئے مُلا کو افغانستان میںخطرے کی صورت میں بھارت منتقل بھی کیا جاسکتا ہے ،جس کا واضع ثبوت ہمارے آرمی چیف کے افغان حکومت سے مُلا کی حوالگی کا مطالبہ کرتے ہی چور نے داڑھی کھجلنا شروع کردی یعنی کہ ہمارے مطالبے کے ساتھ ہی بھارتی حکومت نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستانی عدالتوں نے حافظ سعید اور اُس کی جماعت کو فلاحی جماعت قرار دیتے ہوئے تمام تر مقدمات سے مکمل طور پر بری کر رکھا ہے ہم سے اُسکی حوالگی کا مطالبہ کر دیاجو ثابت کرتا ہے کہ مُلا فضل اللہ بھارت کو بہت عزیز ہے ،اور اگر میری یہ دلیل بھی غلط ہے توسانحہ پشاور میں دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال ہونے والااسلحہ افغان ساختہ ہونا چاہئے تھابھارتی ساختہ کیو ں ثابت ہوا؟جو کے چور کو چور ثابت کرنے کیلئے داڑھی کھجلنے کے بعد کا دوسرا بڑا ثبوت اور قوم کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے عین مترادف ہے اور یہ نمک وہ محض یہ سوچ کر کھلے عام چھڑک رہے ہیں کہ مُلا بھارت کو شاید کبھی کچھ نہ کہے مگر بھارت یہ نہیں جانتا کہ وہ صرف دہشت گرد ہے اور دہشت گرد کسی کا نہیں ہوتاآج اگر وہ اُن سے مال لے کر اُن کے اشاروں پر ہمارے پھولوں کو جلا رہا ہے تو کل کسی اور کے اشاروں پر کسی اور سے قیمت وصول کرکے کسی اورکے پھولوں کو بھی جلا سکتا ہے مُلا وہ ایک سانپ ہے جس سے متعلق پنجابی زُبان کے عظیم شاعر وصوفی بزرگ حضرت میاں محمد بخش پنجابی زُبان میں کچھ یوں فرماتے ہیں کہ۔
کوڑے کھوواں تو مِٹھے نا ہوندے بھاویں لکھ مَن مشری پائیے ،تے سپاں دے پُت گدی مِت نہ بن دے بھاویں چُلیاں دُدھ پلائیے ، اگر میں غلط نہیںتو اس شعر میں بھارت کے ساتھ ساتھ ہمارے لئے بھی ایک سبق پوشیدہ ہے وہ یہ کہ ہندو کبھی مسلم کا خیر خوا نہیں ہو سکتا مسلم چاہے جو مرضی کر لے اور قر آن کا بھی یہی فیصلہ ہے جس کے سانحہ پشاور میں مُلا کے بعد بھارتی اِنوالومنٹ ہمارے لئے واضع ثبوت ہیں،لہذا اگر ہم واقع ہی اپنے مستقبل کوسانحہ پشاور جیسے کسی دوسرے سانحہ سے بچانا چاہتے ہیں تو پھِرہمیں بیرونی و اندرونی تمام تر پریشرز کو کچلتے ہوئے اپنی داخلہ و خارجہ پالیسی درست کرنا ہوگی کیونکہ جہاں بھی جب بھی کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو وہ اس جگہ سے متعلق مکمل معلومات کی فراہمی کے بغیر نہیں ہوتا اور معلومات اُسی صورت لیک ہوتے ہیں جب کسی کا خود پر مکمل کنٹرول نہ رہے،یعنی کہ جب کوئی خودپر یا اپنے ماتحت لوگوں یا اداروں پر سے اپنی گرفت کھو بیٹھے اور گرفت انسان تبھی کھوتا ہے۔
جب کسی جانب سے کسی شدید دبائو تنائو یاکسی ذہنی اذیت کا سامنہ کررہا ہو اور ہمارے پاکستانی اداروں و حکومت کو ذہنی جسمانی معاشی ومالی جبکہ ہمیں معاشرتی و مذہبی اذیت دینے کیلئے عمران خان اکیلے ہی کافی ہیںجسے حکومت کو سانحہ پشاور کا فریق بنانا چاہئے تھا مگر وقت کی نذاقت کے سبب حکومت ایسا کرنا نہیں چاہتی جبکہ عمران کے دماغ میں غیرت یا عقل کی رتی تک نہیں۔۔! (فی امان اللہ)۔