تحریر: محمد حماد کریمی خدا نے انسانوں تک اپنی ہدایت کو پہنچانے اور اس کو برت کر دکھانے کے لئے انسانوں ہی میں سے اپنے برگزیدہ بندوں کا انتخاب کیا، حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر انسانوں کی رہنمائی کے لئے اللہ کی طرف سے منتخب کئے گئے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دین کا اتمام کردیا گیا اور آپ کو خاتم النبیین بنایاگیا، اس سے پہلے جو انبیاء آئے وہ کسی خاص قوم یا علاقے کے لئے تھے ،لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت تمام انسانوں کے لئے اور قیامت تک آنے والے تمام زمانوں کے لئے ہوئی، آپ پر اتاری ہوئی کتاب قرآن مجید بھی اللہ کی آخری کتاب اور زندگی گزارنے کے لئے ایک مکمل ہدایت نامہ ہے، آپ ۖ نے اپنی تئیس(٢٣) سالہ نبوی زندگی میں اس کتاب کی روشنی میں ایک مکمل اسلامی زندگی گزار کر زندگی کے ہر شعبے اور ہر فرد کے لئے مکمل اور جامع اسوہ چھوڑا ہے ، قرآن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنی نوع انسانیت کے لئے رحمة للعالمین قرار دیتا ہے، (وما أرسلناک لا رحمة للعالمین) (أنبیائ:١٠٧) پھر آپ کو پوری انسانیت کے لئے قابل تقلید بناکر پیش کرتے ہوئے بہترین نمونہ قرار دیتاہے: (لقد کان لکم ف رسول اللّٰہ أسوة حسنة) (سورہ احزاب: ٢١) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے: ” سب سے بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور سب سے بہتر طریقۂ زندگی محمدۖ کا طریقہ ہے” (مسلم) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی مختلف حیثیتوں سے ہر انسان کے لئے ایک بہترین نمو نہ ہے، آپ کا لایا ہوا دین انسانوں کے خالق ومالک کا عطا کردہ ہے، اسی لئے وہی زندگی گزارنے کا سیدھا اور سچا راستہ ہے، لہذا مسائل ومصائب کی ماری اضطراب اور بے چینی میں مبتلا دنیا کو اگر کہیں پناہ مل سکتی ہے تو وہ صرف محسن انسانیت کے اسوہ ہی میں مل سکتی ہے۔
امن وسلامتی کا مفہوم قرآن وحدیث کی روشنی میں جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ ذات ِنبوی حیاتِ انسانی کے ہر گوشے کے لئے اسوہ اور نمونہ ہے، تو لامحالہ ذاتِ نبوی میں اور آپ کے لائے ہوئے احکام وتعلیمات میں امن وسلامتی سے متعلق بھی احکام ہوں گے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عملی زندگی میںبھی اس کو برتا ہوگا، ذیل میں ”امن اور اسلامی تعلیمات” نامی ایک مضمون کا خلاصہ پیش کیا جاتاہے جو ماہنامہ ”افکارملی” میں ستمبر ٢٠١٠ئ کی خصوصی اشاعت میںشائع ہواتھا۔ ” شریعت میں دو اصطلاحی لفظ ہیں، اسلام اور ایمان، ایک کا مادہ ”سِلْم”ہے اور دوسرے کا ”امْن” اور ان دونوں کے ایک ہی معنی ہیں،یعنی ‘ امن وسلامتی’، اسی طرح مسلمانوں کے تعارف کے لئے بھی دو لفظ استعمال کئے جاتے ہیں: ‘مسلم’ اور ‘مومن’ جو پہلے دو لفظوں ہی سے مشتق ہیں، اور ان کے معنی بھی تقریباً وہی ہوتے ہیں، یعنی امن وسلامتی ہی کے دوسرے نام ہیںاسلام اور ایمان، اور اسی طرح جو شخص خود اپنی اور دوسروں کی سلامتی چاہتا ہے، وہ مسلمان ہے اور جو خود اپنے لئے اور دوسروں کے لئے امن چاہتا ہے وہ مومن ہے۔
( جس مذہب کی لفظی بنیاد تک امن وسلامتی پر مبنی ہو اور جس کے ماننے والے کو امن وسلامتی کا علمبردار کہا جائے غور کیجئے کہ امن وسلامتی کو اس کی تعلیمات اور احکام میں کتنا دخل ہوگا!!!)۔ خطبہ حجة الوداع میں آپ ۖ نے مسلمان اور مومن کی وضاحت اس طرح فرمائی تھی۔ ١) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں۔ ٢) مؤمن وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کا جان ومال عافیت میں رہے۔ پر امن بقائے باہم ( Coexistance) کے سلسلے میں قرآن کی ہدایات نہایت صاف اور واضح ہیں، چند تعلیمات درج ذیل ہیں:۔ ١ـ (لا کراہ ف الدین قد تبین الرشد من الغ) (البقرة: ٢٥٦) دین میں کسی طرح کی کوئی زبردستی نہیں، اب ہدایت گمراہی سے واضح ہوچکی ہے۔ ٢ـ (ولا تسبوا الذین یدعون من دون اللّٰہ فیسبوا اللّٰہ عدوا بغیر علم) (الأنعام: ١٠٨) جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے ان کے خداؤں کو برا مت کہو نہیں تو وہ بھی نادانی اور دشمنی میں اللہ کو برا کہیں گے۔
اس سے بڑھ کر پر امن بقائے باہم ( Coexistance) کی تعلیمات اور کیاہوسکتی ہیں؟ مذکورہ آیات کی روشنی میںیہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کی تبلیغ میں کسی قسم کی کوئی زبردستی جائز نہیں۔ ٣ـ( أدع لی سبیل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة وجادلہم بالت أحسن) (النحل: ١٢٥)اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو بلاؤ انتہائی دانشمندی اور ہمدردی کے ساتھ اور ان کے ساتھ بہتر طریقے پر مباحثہ (Dialogue) کرو۔ پہلی دوسری آیت میں دنیا کے تمام انسانوں کو ان مشترک باتوں اور ان مسلّمات کی دعوت دی جارہی ہے جن کے قبول کرنے میں کسی کو کوئی عار نہیں جب کہ تیسری آیت میں مسلمانوں کو تلقین کی جارہی ہے کہ وہ اپنی بات دوسروں کے سامنے نہایت حکمت اور موعظت کے ساتھ رکھیں، یعنی دانشمندی اور ہمدردی کے ساتھ۔ رہی بات دہشت گردی (Terrorism) کی تو یہ از اول تا آخر اسلامی اور قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے،قرآن میں ہے۔ ١ـ (من قتل نفسا بغیر نفس أو فساد ف الأرض فکأنما قتل الناس جمیعا ومن أحیاہا فکأنما أحیا الناس جمیعا) (المائدة: ٣٢)جس نے کسی انسان کو بلاوجہ قتل کیا یا دنیا میں فساد پیدا کیا تو گویا اس نے ساری انسانیت کو قتل کر ڈالا، اور جس نے ایک انسان کی زندگی بچالی گویا اس نے پوری انسانیت کی زندگی بچالی۔ ٢ـ (ولا تبغ الفساد ف الأرض ن اللّٰہ لا یحب المفسدین) (القصص: ٧٧)اور زمین میں فساد مت پھیلاؤ کیونکہ اللہ فساد پھیلانے والوں والوں کو پسند نہیںفرماتا۔
٣ـ ( تعالوا لی کلمة سواء بیننا وبینکم ألا نعبد لا اللّٰہ ولا نشرک بہ شیئاً ولا یتخذ بعضنا بعضاً أربابا من دون اللّٰہ) (آل عمران:٦٤)آؤ ہم سب ایک ایسے کلمہ پر اتفاق کرلیں جو ہمارے درمیان برابر ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیںاور اللہ کے بجائے ہم خود آپس ہی میں ایک دوسرے کو معبود نہ بنالیں۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ماں اپنے بیٹے کو اگر چہ وہ باغی اور سرکش ہو اپنی طرف بلائے اور اس کی آنکھوں میں اس کے لئے محبت اور پیار نہ ہو، اسی طرح ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ اسلام دوسروں کو اپنی طرف بلائے اور اس کی نگاہوں میںان کے لئے پیار نہ ہو ، ہمدردی نہ ہو، اس کے لہجے میں محبت کے جذبات کی گرمی نہ ہو اور انسیت واپنائیت کا شائبہ نہ ہو۔ ذرادرج ذیل تعلیمات نبوی پر ایک نظر ڈالئے:۔ ١ـ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: اے میرے بندوں میںنے اپنے اوپر ظلم کو حرام ٹھہرایاہے، تم بھی آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ (مسلم رواہ ابوذررضی اللہ عنہ) ٢ـ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ سب سے پہلے لوگوں کے جن معاملات کا فیصلہ فرمائے گا وہ قتل کے معاملات ہوں گے۔ (بخاری ومسلم ، رواہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ ٣ـ تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اور اس کو اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو اس کے کنبہ کے ساتھ بہترین سلوک کرتاہے۔
(البیھقی ف شعب الیمان: ٤٦٦، رقم الحدیث: ٧٤٤٤)(ماہنامہ افکارملی، ستمبر٢٠١٠ئ) حضور ۖ کی مختلف زمانوں میں امن کی کوششیں: ایک جائزہ مذکورہ بالا تعلیمات سے یہ حقیقت آشکارا ہوگئی کہ مذہب اسلام کی تعلیمات کا کتنا بڑا حصہ امن وسلامتی کی تعلیمات اور اس کے متعلق احکامات سے وابستہ ہے، لیکن اگر صرف احکامات وتعلیمات و اصول وضوابط اور قوانین سے متعلق کتابیں ہدایت واتباع کے لئے کافی ہوتیں تو اللہ ہدایت کے لئے نبیوں کو نہ بھیجتا، لیکن خلّاقِ علیم انسان کی فطرت سے واقف تھا کہ جب تک عملی نمونہ نہ ہو وہ کسی کے سامنے جھکتانہیں ہے، اسی بناء پر اگر آپ غور کریں تو بہت سے مذاہب ہیں جن کی کتابوں کی تعلیمات ان کے میدان عمل سے ذرا برابر بھی میل نہیں کھاتی، مثلاً عیسائیت جن کی تعلیمات میں عفو وصفح کا بہت اونچا مقام ہے، لیکن اس مذہب کے متبعین میں بہت کم لوگ اس پر گام زن ہیں، اور یہ چیز اس مذہب کی مقبولیت میں مانع بن جاتی ہے،لیکن چوںکہ دینِ اسلام ابدی وسرمدی دین ہے، لہٰذا اس کے متعدد ولا تعداد امتیازات میںایک یہ بھی ہے کہ جس طرح اس مذہب میں قانون کے لئے ایک کتاب قرآن ہے جو افضلِ کتب ہے اسی طرح اس کو عملاً ثابت کرنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ کی مکمل زندگی ہے، جو کہ افضلِ خلائق ہیں، اور حضور کی مکمل زندگی تاریخ وسیرت اور حدیث کی کتابوں میں موجود ومحفوظ ہے، اس سلسلہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔
١ـ زمانہ جاہلیت میں امن کی کوششیں۔ ٢ـ مکی زندگی، بعد نبوت کا پر امن ماحول۔ ٣ـ مدنی زندگی اور امن وسلامتی کے چند نمونے۔ ١ـ زمانہ جاہلیت میں امن کی کوشش ١ ـ نبوت سے پہلے کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ کچھ لوگ عبداللہ بن جُدعان کے گھر میں اس مقصد سے جمع ہوئے کہ سب لوگ مل کر ظالم کو ظلم سے روکنے کی کوشش کریں اور مظلوم کی مدد کریں، اس معاہدہ کو” حلف الفضول” کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ا س میںشریک ہوئے، آپ کو یہ معاہدہ اس قدر پسند تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبوت کے بعد بھی فرماتے تھے کہ اگر اب بھی مجھے ایسے معاہدہ کی طرف دعوت دی جائے تو میں اسے قبول کروں گا، مذکورہ واقعہ اور واقعہ پر بعد نبوت تبصرہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ امن وسلامتی کی محبت آپ کے اندر فطری وطبعی طورپر ودیعت کردی گئی تھی، جب کہ یہ واقعہ بعدِ نبوت پیش آئے امن وسلامتی کے واقعات کے سامنے عشر عشیر کی بھی حیثیت نہیںرکھتا، اس کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی مدح کی۔ (تلخیص ماخوذ از: زاد المعادودیگر کتب سیرت) ٢ـ جب عمر مبارک ٢٥ سال کی ہوئی تو خانہ کعبہ میں بارش کی وجہ سے شگاف پڑجانے کے سبب کعبة اللہ کی تعمیر نو انجام پائی، اس میں جب حجر اسود کو اپنی جگہ رکھنے کا موقع آیا تو مختلف قبائل کے درمیان کشمکش شروع ہوئی، اور قتل وقتال کا اندیشہ پیدا ہوگیا، ایسے موقع پر مکہ کے ایک بزرگ نے تجویز پیش کی کہ کل جو شخص سب سے پہلے کعبة اللہ میں آئے وہ حجر اسود کو اپنی جگہ رکھے، کل سب سے پہلے کعبہ میں آنے والی شخصیت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تھی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر منگوائی، اس کے وسط میں پتھر رکھا، ہر ہر قبیلے سے ایک ایک نمائندہ طلب کیا، اور ان سب سے کہا کہ وہ چادر کے کنارے پکڑ کر حجر اسود کو اس جگہ تک لے جائیں، جہاں اسے نصب کیا جانا ہے پھر جب وہاں پہنچے تو اپنے دست مبارک سے پتھر کو اس کی جگہ نصب فرمادیا، اس طرح ایک بڑے فتنہ کاسد باب ہوا، اور امن کی فضا قائم رہی۔
Hazrat Muhammad Pbuh
مکہ کے ماحول کو دیکھ کر یہ کہنا بجا ہوگا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ اور کوئی شخص ہوتا تو پہلے تو لوگ اسے تسلیم ہی نہ کرتے، وہ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات تھی جن کی صادقیت وامانت مسلم تھی، اور اگر تسلیم کر بھی لیتے تو وہ ترکیب جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنائی کہ کسی قبیلہ کو شکایت نہ رہی اور معاملہ رفع دفع ہوگیا، اس کے ذہن میں نہ آتی، اور کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرتا جو اختلاف کا سبب بن جاتا، اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تو اپنے قبیلے کے لئے اس شرف کو خاص کردیتے لیکن امن کی فضا کو باقی رکھنے کے لئے آپ نے ایسا نہ کیا۔ ٣ـ اسی طرح جب حضرت خدیجہ نے زید بن حارثہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں دے دیا، جو یمن کے ایک قبیلے کے سردار حارثہ بن شرحبیل کے صاحبزادے تھے، جنھیں ڈاکؤوں نے زبردستی آٹھ سال کی عمر میں اغوا کرکے بیچ دیاتھا، پھر جب ان کے والد وچچا تلاش کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے تو حضورنے امن کی بحالی کے لئے جو ترکیب اختیار کی وہ واقعی قابل تقلید ہے، کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود زید بن حارثہ کو اختیار دے دیا کہ جس کو چاہے اختیار کرے، اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کو ترجیح دی، اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والد وچچا کو دینے سے صاف انکار کردیتے اور اس کا حق بھی تھا تو وہ زمانہ جس میں بات بات پر سالوں جنگ چلتی ، گھوڑے کے پانی پلانے میںسبقت کرنا جنگ کا سبب بن جاتا تو کوئی بعید نہ تھا کہ ان کے والد بھی غصے میں آجاتے وہ بھی سردار قبیلہ تھے اور پھر یہ واقعہ جنگ کا سبب بن جاتا۔
٤ـ قبل از نبوت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں امن کے نمونوں میںایک نمونہ یہ بھی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ١٤ـ ١٥سال کے تھے تو حرب الفجار نامی مشہور جنگ پیش آئی، جس کو آپ نے دیکھا اور ناپسند کیا، چونکہ آپ اس جنگ میں شریک تھے اور چھوٹے تھے، اس کے باوجود امن پسند طبیعت نے یہ گوارا نہ کیا کہ اپنے ہتھیار سے بذات خود کسی پر وارکریں، اسی بنا پر چونکہ خاندانی جنگ تھی اس لئے شریک تو ہوئے لیکن صرف یہ کرتے کہ تیر اٹھا کر چچا کو دیتے رہے خود حملہ نہ کیا، اور بعد میں اس کو بھی ناپسند کیا، اور زندگی بھر سوائے ایک دو واقعہ کے بذات خود کسی پر وارنہ کیا۔ ٢ـ مکی زندگی۔ بعد نبوت کا پر امن ماحول مذکورہ واقعات زمانہ قبل از نبوت کے تھے جو معاشرتی سطح کے تھے،لیکن جب حضورۖ کوبعثت ملی تو اس کے بعد بھی آپ کے امن پسندی کے نمونے ظاہر ہوتے رہے بلکہ اس میں اضافہ ہوا، قبل اس کے کہ ان واقعات پر روشنی ڈالی جائے یہ جانناضروری ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعد نبوت مکی زندگی میں جو امن کی بقا کی کوشش کی وہ عدیم المثال ہے، اور اس کا سبب یہ نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ نہ کرسکتے تھے اس لئے صبر کر جاتے، بلکہ اگر دیکھا جائے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منٹوں بلکہ سکنڈوں میں مخالفین کے خلاف کارروائی کرسکتے تھے، دنیوی اعتبار سے بعد نبوت اگرچہ اکثر لوگوں نے حمایت چھوڑ دی تھی لیکن پھر بھی آپ کا قبیلہ آپ کے ساتھ تھا، آپ چاہتے تو مدد کے لئے ان کو آواز دیتے پھر جنگ چھڑ جاتی، اورا خروی اعتبار سے آپ کا تعلق تو آسمانی دنیا سے اور اس عالم وکائنات کے خالق سے تھا اگر آپ چاہتے تو ایک بد دعا میں پوری قوم کو ہلاک کردیتے، جیسا کہ بعض سابقہ انبیاء کے واقعات سے معلوم ہوتاہے، لیکن امن پسند طبیعت نے اس کو گوارا نہیں کیا۔
تو آئیے اس دور کے واقعات پر سرسری نظر کی جائے: ١ـنبوت کے ملنے کے بعد سب سے پہلے جب آپ نے کوہِ صفا پر چڑھ کر لوگوں کو دعوت دی، تو جواب میں ابولہب نے جب کہا کہ غارت ہوجاؤکیا یہی بات تھی جس کے لئے تم نے ہم سب کو یہاں اکٹھا کرلیا تھا، دعوت کا یہ پہلا قدم تھا جس پر مخالف کے شورووایلاکرنے پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکمل سکوت کیا، اگر اس موقعے پر ایک لفظ بھی کہتے تو پھر معاملہ طول اختیار کرجاتا، اور امن کی فضا مکدر ہوجاتی۔ ٢ـ اسی دعوت عام کی مہم کا دوسرا قدم جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اٹھایاوہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام خاندان عبدالمطلب کو کھانے پر بلوایا، فراغت طعام کے بعد آپ نے اپنے تعاون کی تشکیل کی اور جب حضرت علی نے کھڑے ہوکر اپنے تعاون کا اعلان کیا تو تمام سرداران قہقہہ لگانے لگے،لیکن پھر بھی حضور نے سکوت کیا۔ ٣ـ اسی طرح جب ایک مرتبہ نماز پڑھتے ہوئے سعد بن ابی وقاص کو ایک مشرک نے زخمی کردیا جو کہ خون کی سب سے پہلی دھار تھی جو مکہ کی خاک پر خدا کی راہ میں بہی، اس پر بھی کوئی رد عمل نہ کیا گیا۔ ٤ـ پھر جب ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کعبہ میں کھڑے ہوکر اس دعوت کا اعلان کیا تو مشرکین نے آپ کو برا بھلا کہا کسی نے شاعر تو کسی نے کاہن کہا، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی دعوت دیتے رہے، اور بذات خود کوئی جواب نہ دیا، بلکہ اللہ تعالی نے معجزانہ انداز میں ان باتوں کی تردید کی۔
٥ـ نیز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ستانے کے لئے انتشار انگیزیاں، کٹ حجتیاں، دلائل، استہزائ، غنڈہ گردی ہر ممکنہ صورت کو اختیار کیا گیا، محلہ کے پڑوسی جو بڑے بڑے سردار تھے آپ کے راستے میں کانٹے بچھاتے ، نماز پڑھتے وقت شور مچاتے، اوجھڑیاں لاکر ڈالتے، گلا گھونٹتے لیکن ان سب پر صبر کیا۔ ٦ـیہاں تک کہ مشرکوں نے آپ کو لاچار ومجبور کرنے کے لئے بنوہاشم کو شعب ابی طالب میںقید کردیا گیا اس پر بھی صبر سے کام لیا۔ ٧ـ پھر جب مکہ سے دلبرداشتہ ہوکر طائف گئے، تو وہاں جو برتاؤ کیا گیا اگر آپ چاہتے تو فرشتوں کی پیش کردہ تجویز پر عمل کرکے پورے طائف کے امن کو خاکستر کردیتے لیکن امن کی بحالی کے لئے ایک لفظ ان کے خلاف نہ کہا۔
(محسن انسانیت ص: ٢١٠) ٨ـاسی طرح امن کی بحالی میں شب ہجرت بھی بہت ہی واضح وبین دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے حصار سے حضورۖ کو بحفاظت نکال دیا اگر حضورۖ چاہتے تو ان کے لئے بد دعا کردیتے یا اپنے خاندان کی دہائی دیتے، پھر جنگ کا سلسلہ شروع ہوجاتا لیکن آپ اور آپ کے صحابہ نے سب کچھ برداشت کیا اور گھر بار وطن دولت سب کو چھوڑنا گوارا کرلیا۔ مکی زندگی( بعد نبوت )کے اس طویل دور میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیںملتا جس میں حضورۖ یا آپ کے صحابہ کی طرف سے کوئی ایسا اقدام کیاگیا ہو جو امن کی فضا کو مکدر کرتا، حالانکہ اخیر زمانہ میں تو حضرت عمر وحضرت حمزہ جیسے صاحب وقار وذی اقتدار حضرات مشرف باسلام ہوچکے تھے جو حضور ۖ کے ایک اشارے کے منتظر تھے، لیکن خدا کا حکم تھااور حضورۖ کی امن پسند طبیعت کہ چاہتے تھے کہ مسئلہ پر امن طریقے سے حل ہوجائے، اور اسی امن کی بحالی کے لئے ہجرت کو ترجیح دی، اس سے زیادہ امن کی مثال اور کون سی ذات اور کون سی جماعت پیش کرسکتی ہے، وہ بھی اس زمانہ میں جو کہ بات بات پر جنگ اور لڑائی کا زمانہ تھا، لیکن اگر یہ طریقہ اختیار نہ کیا جاتا تو مقصد میں کامیابی ناممکن تھی۔ مدنی زندگی اور امن وسلامتی کے چند نمونے یوں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری زندگی ہی امن وسلامتی کے نمونوں سے بھر پور ہے، لیکن مدنی زندگی میں امن وسلامتی کا گوشہ نہایت ہی وسیع ہوگیا، مکی زندگی میں اپنی قوم سے واسطہ تھا تو مدنی زندگی میں آپ کے تعلقات عالمی ہوگئے، مختصر عرصے میں چاروں طرف سے دشمنوں کے نرغے میں گھرے ہونے کے باوجود جس طرح امن کو بحال رکھتے ہوئے اپنے مقصد اصلی کو پورا کیا اس پر دنیا حیران ہے، ایک طرف مکہ کے مشرکین تھے دوسری طرف داخلی منافقین ، تیسری طرف یہود ، چوتھے مخالف نصاری کے بعض قبائل اور پھر آخر میںوقت کی دو طاقتور سلطنتوں کی مخالفت، ان سب کے درمیان ایک پرامن نظام کو قائم کرنا ایک ایسا کارنامہ ہے جو آپ سے پہلے نہ کسی نے انجام دیا اور نہ آپ کے بعد کوئی اس کے بارے میں سوچ سکتاہے،چونکہ مدنی زندگی نہایت ہی وسیع اور لامحدود ہے اس بنا پر الگ الگ مختلف گوشوں سے جائزہ لینا زیادہ مناسب ہوگا۔
١ـ ذاتی زندگی: اس سطح پر یہ جان لینا کافی ہوگا کہ آپ کی پوری زندگی اور خاص طورپر مدنی دور میں کسی کو آپ سے یا آپ کو کسی سے ذاتی دشمنی یا عناد نہ تھا،آپ اپنی ذات کے اعتبار سے مجسم رحمت تھے، قرآن میں ہے:” فبما رحمة من اللّٰہ لنت لہم ولو کنت فظا غلیظ القلب لا نفضوا من حولک” (سورہ آل عمران) یہ چیز امن کے قیام میں بہت معاون ثابت ہوتی ہے۔ ٢ـ خانگی زندگی:خانگی معاملات میں ازواج مطہرات کے درمیان مساوات، غلاموں سے ملاطفت،بدؤوں کے جاہلانہ رویوں پر عفوودرگذر اور صحابہ کی صحیح تربیت کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جوپر امن فضا قائم کی یہ آپ ہی کا حصہ تھا، حضرت انس کہتے ہیں کہ میںدس سال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں رہا ،کبھی آپ نے اف تک نہ کیا اور نہ کسی کام کے بارے میں کہا کہ یہ تم نے کیوں کیا، اور یہ کیوں نہیں کیا؟ اسی طرح ایک بدو آکر چادرسے آپ کی گردن کھینچنے لگا تو آپ نے کچھ نہ کہا۔ ٣ـمعاشرتی سطح پر بطور نمونہ صرف اخوت کی اس نادر و نایاب مثال کا ذکر کافی ہے جس کی نظیر ملنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے، جب مہاجرین ہجرت کر کے سب کچھ چھوڑ کر مدینہ آئے تو سب سے بڑا مسئلہ معیشت کا تھا، جس کا حل اللہ کے رسولۖ نے انصار و مہاجرین کے درمیان اخوت کے ذریعے نکالا، اگر اس میں تھوڑی بھی تاخیر ہوتی تو یہ چیز بہت سے مفاسد کے وجود کا ذریعہ بن جاتی، اس سلسلے میں آپ کی وہ حدیث امن کے قیام کی اعلیٰ مثال ہے جس میں آپ ۖ نے فرمایا : ” لا فضل لعرب علی عجم ولا لعجم علی عرب ولا لأسود علی أحمر ولا لأحمر علی أسود لا بالتقویٰ” کسی عربی کو عجمی پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقوی کی بنیاد پر۔ (الحدیث) قیام امن کے لئے معاشرتی زندگی کا ایک اہم اصول:۔ اسلامی نقطۂ نظر سے معاشرے کے استحکام اور امن کے قیام کا دارومدار اس پر ہے کہ معاشرے کے افراد خیر کے لئے ایک دوسرے کے معاون بنیں، قرآن میں اس اصول کو اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ ” تعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الثم والعدوان” نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ وزیادتی میں باہم کسی کی مدد نہ کرو۔ ٤ـملکی سطح پر مدنی زندگی میں امن کے لئے جو کوششیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیں ان میں سب سے بہتر کوشش یہ تھی کہ آپ نے مدینہ آتے ہی وہاں کے یہود سے عہد کیا کہ ہم آپس میں امن وامان کے ساتھ رہیں گے، اگر کوئی خارجی حملہ ہوگا تو ہم سب مل کر اس کا دفاع کریں گے، اسی طرح کا معاہدہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آس پاس کے دیگر قبائل سے بھی کیا۔
٥ـعالمی سطح پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کو شش کی ان میں ایک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ خطوط ہیں جو آپ نے دنیاکے مختلف بادشاہوں کو امن کی تعلیمات سے متعلق بھیجے اور ان کو ایک کلمے کی دعوت دی اور امن و سلامتی کی طرف بلایا۔ ٦ـ اس سلسلے میں کوئی یہ اعتراض کرسکتاہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری زندگی امن وسلامتی کی دعوت پر قائم تھی تو پھر غزاوت وسرایا کیونکر وجود میں آئے جس میں قتل ہوا، بچے یتیم ہوئے، عورتیں بیوہ ہوئیں۔ بظاہر یہ اعتراض صحیح بھی معلوم ہوتاہے، لیکن جب کہ ایسا شخص کرے جو سیرت سے نابلد اور تاریخ سے لا علم ہو ، اگر دور بین نظروں سے دیکھا جائے، تو جتنے غزوے ہوئے ان سب کی بناء مجبوری ہے یا امن وسلامتی کی راہ کی ہمواری۔ آئیے چند غزوات کے پس منظر پر غور کریں تاکہ حقیقت واشگاف ہوجائے: ١ـ غزوۂ بدر:جب مسلمان مدینہ جاکر امن وامان سے رہنے کی کوشش کرنے لگے اورتمام ممکنہ صورتیں اختیار کیں، تو مشرکین مکہ کے دلوں کا سکون چھن گیا اور انھوں نے مسلمانوں کو پریشان کرنا شروع کردیا، ایک تو مسلمان معاشی اعتبار سے تنگ تھے، جوبھی کچھ قوت ملی ہی تھی کہ ان مشرکین نے پھر انتشار انگیزی شروع کردی، یہاں تک کہ بعض مرتبہ چھوٹے چھوٹے گروہ کی شکل میں مدینہ کے قریب آتے اور حملہ کرکے چلے جاتے، جس سے امن کا ماحول فساد میں بدل رہا تھا، جس کی روک تھام ضروری تھی، اسی دوران میں خبر ملی کہ ایک قافلہ قریش کا مع سازوسامان کے آنے والا ہے، تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محض دھمکانے کے لئے اور ان کو متنبہ کرنے کے لئے کچھ لوگوں کو بھیجا ، جس کا مقصد جنگ ہر گز نہ تھا بلکہ صرف مخبری یازیادہ سے زیادہ اس کو روکنا ومتنبہ کرنا تھا، لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جھڑپ ہوگئی اورمشرکین کا ایک آدمی مارا گیا، جب یہ خبر مشرکین مکہ کو پہنچی تو باوجود قافلہ کے بچ نکلنے کے وہ واپس نہ گئے بلکہ بدر کے مقام پر جمع ہوگئے، پھرمجبوراً مسلمانوں کو بھی نکلنا پڑا، اور یہ غزوہ پیش آیا۔
٢ـ غزوۂ احد اس میں تو پورا ہاتھ مشرکین کا تھا جو مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے آئے تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ نے مشورہ کے بعد شہر سے باہر نکل کر مقابلے کو مناسب سمجھا اور یہ غزوہ پیش آیا،اسی جنگ میں حضور کے دندانِ مبارک شہید ہوئے،لیکن آپ نے صرف اتنا کہا: ”اللّٰھم اھد قوم فنہم لا یعلمون”۔ اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے ، بے شک وہ نہیں جانتے۔ ٣ـ غزوۂ خندق: اس میں بھی مشرکین نے خودمدینے کا حصار کیا اور جنگ کی۔ ٤ـ صلح حدیبیہ: امن وشانتی کی سب سے واضح مثال صلح حدبیہ ہے جب مہاجرین کو ہجرت کئے ایک مدت ہوگئی تو ان کے دل میں بار بار یہ خیال پیدا ہو تاکہ اپنے خاندان اپنے بیوی بچوں سے ملاقات کریں، بیت اللہ کی زیارت سے آنکھوں کو ٹھنڈاکریں، اسی ارادے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کی ایک جماعت کو لے کر جانب مکہ روانہ ہوئے، اور مشرکین کو غلط گمان نہ ہو اس لئے اونٹوں کو قلائد لگوائے ،ہتھیار بھی کم سے کم لئے، اور سیدھے مکہ نہ گئے بلکہ مقام حدبیہ پرقیام کیا اور اطلاع کے لئے حضرت عثمان کو بھیجا، پھر جب قریش کی طرف سے سھیل بن عمرو امن کا پیغام لے کر آئے، تو ان کی ہر شرط قبول کی، اور اتنا دب کر صلح کی کہ بعض صحابہ تک اس پر دل برداشتہ ہوگئے اور پوچھنے لگے کہ کیا ہم حق پر نہیں؟لیکن حضور ۖ نے صلح کو مع کل شرائط قبول کیا، اگر آپ چاہتے تو زبردستی اپنی طاقت کے بل بوتے پر عمرہ کرلیتے، سابقہ جنگوں سے اہل مکہ پر رعب طاری ہوچکاتھا، ان کے بہت سے سردار مارے جاچکے تھے، اور مسلمانوں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی لیکن بغیر ادائیگی عمرہ کے واپس چلے گئے۔
٥ـقبائل یہود کا اخراج : جب حضور نے یہودیوں سے معاہدہ کرلیا تو یہودیوں کو چاہئے تھا کہ وہ اس معاہدہ کا خیال رکھتے اور اس کو پورا کرتے، اور اگر تعاون نہ کرتے تو عداوت کا اظہار بھی نہ کرتے لیکن ان خبیث طینت یہودیوں کی طبیعت کو اسلام کی ترقی دیکھ کر کہاں چین آتا جب بھی موقع ملتا غداری اور نقضِ عہد کرتے جس کی بنا پر ایک ایک کرکے ان کو جلاوطن کردیا گیا تاکہ مدینہ کی پر امن فضا مسموم نہ ہو، اگر آپ چاہتے تو ان کے ہر قبیلہ کو قتل کرادیتے البتہ ایک قبیلے کے بالغ مردوں کوقتل کیا اوریہ قتل خودیہودیوں کے قانون کے مطابق تھا،لیکن رحم وکرم کی داد دیجئے کہ معاف کیا پھر سامان لے جانے کی بھی اجازت دی۔ ٦ـغزوۂ خیبر:جب یہودیوں کو مدینہ سے جلا وطن کردیاگیا تو ان میں سے بہت سوںنے مقام خیبر میں اپنی بستیاں آباد کیں اور پھر وہاںسے انھوںنے انتشار انگیزیاں اور فساد شروع کردیا جس کی سرکوبی اور بقائے امن کے لئے ان کی خبر لینا ضروری تھا، اسی لئے اس غزوہ کی ضرورت پیش آئی۔ ٧ـفتح مکہ:پیچھے گزرچکا ہے کہ صلح حدیبیہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تمام شرائط کو منظور کرلیا تھا ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو قبیلہ جس فریق کا چاہے ساتھ دے، اس سلسلے میں بنو خزاعہ نے مسلمانوں کا ساتھ دیا ،لیکن مشرکین مکہ نے کچھ عرصے میں معاہدہ کی پامالی کرتے ہوئے بنو خزاعہ کا قتل عام کیااور نقض عہد کردیا، اس بناپر مسلمانوں پر ضروری ہوگیا کہ وہ اپنے حلیف کا بدلہ لیں اور ان کی مدد کریں اور اس کی یہی صورت تھی کہ مکہ جاکر مسئلہ کو حل کیا جائے، اسی ضرورت کے پیش نظر یہ واقعہ وجود میں آیا، اور اسی واقعے میں آپ نے ” لاتثریب علیکم الیوم اذھبوا أنتم الطلقائ” (آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو)کا مژدہ سنا کر امن کے قیام کی نادر مثا ل پیش کی۔ یہ تو تھے کچھ غزوات کے پس منظر، اس کے علاوہ اگر غزوات کی اسلامی تعلیمات پر نظر ڈالی جائے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بوڑھوں،بچوں اور عورتوں کو مارنے سے منع فرمایا، اسی طرح جو اطاعت قبول کرلے اس کو بھی معاف کرنے کا حکم دیا ، نیز بدر کی جنگ کے بعد قیدیوں سے حسن سلوک کرکے فتح مکہ کے بعد عام امن وامان کا اعلان کرکے، یہودیوں کی سازشوںکے بعد جلاوطنی پر اکتفا کرکے، خیبر کی فتح کے بعد کاشت کے لئے ان کو زمین دے کر امن وامان اور سلامتی وشانتی کی جو مثالیں قائم کی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ اتنے غزوات کے باوجود دونوں کے مقتولین کی جو تعداد ہے اس سے کہیں زیادہ بڑی تعداد بعد کی امن پسندی کا دعویٰ کرنے والوں کے درمیان ہوئی، جنگوں میں سے ایک جنگ میں مقتول ہوئی، انھی سب مساعی جمیلہ کا نتیجہ تھا کہ حضورۖ نے محض چند سالوںکے عرصے میں جو کارنامہ انجام دیا ان کے انجام دینے سے پوری کی پوری جماعت ایک لمبے عرصے میںبھی عاجز وبے بس ہے، اس لئے کہ آپ تو رحمة للعالمین ہیں۔
تربیت یافتہ صحابہ اور امن عالم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہت ساری خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد صحابہ کی ایسی جماعت چھوڑی جو ایک عرصے تک سوفیصد تعلیمات نبوی خاص طورپر تعلیمات امن پر گامزن رہی، لہٰذا ضروری ہے کہ اس جماعت کے بعض اہم نمونوں کا ذکر باختصار کردیا جائے، یوں تو ہر صحابی امن کا پیغامبر اور سلامتی کا خوگر تھا، ہر ایک کا ذکر دشوار ہے لہٰذا چند پر اکتفاء کیا جاتاہے۔ ١ـ حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہجب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال پرملال ہوا تو ہر مسلمان فطری طورپر ایک غم واندوہ کی کیفیت کا شکار ہوگیا، یہاں تک کہ حضرت عمر جیسے جلیل القدر صحابی یہ کہہ بیٹھے کہ جو یہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہوگیا اس کا سر قلم کردوں گا، لیکن اتنے بڑے صدمہ سے دوچار ہونے کے باوجود اس وقت حضرت ابوبکر نے جس جوانمردی کا ثبوت دیا، وہ بھی امن کے قیام کی ایک بےّن مثال ہے، سب سے پہلے آپ نے دلائل سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موت کو ثابت کیا، پھر منصب امامت کو سنبھالا اس کے بعد تجہیز وتکفین کے کام انجام پائے اور یہ حقیقت ہے کہ اس میں ذرا بھی تاخیر ہوتی تو بہت سے مفاسد وجود میں آتے ، پھر اپنی خلافت کے زمانے میں ہر سو امن کو عام کیا، اور عندالوفات حضرت عمر کو خلیفہ مقرر کرکے امن کی راہ کو ہموار کیا۔ ٢ـ حضرت عمررضی اللّٰہ عنہ نے اپنے زمانۂ خلافت میں نظام امن کے قیام کے لئے بہت سی نئی چیزیں ایجاد کیں، راتوں کوگشت کرتے، ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی کی بات کو غورسے سنتے، اور صحیح ہوتو اس پر عمل کرتے، امن کی بقا کے لئے ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وفات کے وقت آئندہ کون خلیفہ ہوگا اس کو طے نہیں کیا بلکہ چھ رکنی ٹیم تشکیل دی ،جس میںان کے فرزند بھی تھے، لیکن فرمایا کہ وہ مشورہ میںتو شریک ہوںگے لیکن خلیفہ ان کو نہ بنایا جائے گا ،اگر چاہتے تو بنادیتے اوروہ اس کے اہل بھی تھے، لیکن فساد کا خدشہ تھا ،اس کا سد باب کردیا ۔ ٣ـحضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ اپنے سابقہ دو خلیفوں کی راہ پر ہی گامزن تھے، یہاں تک کہ جب فتنہ انگیزیوں کا دور شروع ہوا اور بلوائیوں نے ان سے منصب خلافت سے الگ ہوجانے کا مطالبہ کیا، تو انھوں نے جان دے دی، لیکن ان کا مطالبہ پورا نہ کیا ، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر خلافت ان فسادیوں کے ہاتھ جائے گی تو رہا سہا امن بھی غارت ہوجائے گا۔ ٤ـ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ آپ کا دور فتنوںسے بھر پور اور آزمائشوں کا دور تھا، غیر تو غیر اپنے بھی مخالف ہوگئے تھے اور یہ خلافت راشدہ کا آخری دور تھا جس کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حدیث میں پیشین گوئی فرمائی تھی، لیکن ان تمام فتنوں کے باوجود حضرت علی نے آخری دم تک خلافت کے کاروبار کو سنبھالے رکھا، اور امن وامان کے قیام کی ہر ممکن کوشش کی۔
انھی بزرگوں کی محنت اور کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ آج تک وہ حکومتیں جہاں ان کا قائم کردہ نظام باقی ہے زیادہ امن وامان میں ہے، بالمقابل ان حکومتوں کے جن میں ان اصول وقوانین کو نظر انداز کرکے نئے اصول اپنائے گئے، اللہ ان کے درجات بلند فرمائے، اور پھر وہ دور لائے جو امن وامان کا دور کہلائے ۔ آمین۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قیام امن کے لئے امکانات فساد کا قلع قمع کرنا جس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اقوال وتعلیمات اور اخلاق وکردار کے ذریعے امن کی تعلیم دی، اسی طرح اس نبی رحمت نے ظلم وشقاوت کی دنیا کو امن وسعادت کا گہوارہ بنانے کے لئے دنیامیں بدامنی وخونریزی کے جواسباب ہوسکتے تھے ایک ایک کرکے ان کو ختم کردیا۔ ١ـ شہنشاہیت: دنیا میں فتنہ وفساد کا بڑا سرچشمہ شہنشاہیت رہا ہے، تاریخ شاہد ہے کہ قصر شاہی کی آبادی ورونق کے لئے رعیت کی جھونپڑیاں ہمیشہ اجڑتی رہی ہیں، پیغمبر اسلام نے سب سے پہلے فتنے کی اس جڑ کو صاف کیا، قرآن میں ہے : (ولا یتخذ بعضنا بعضاً أربابا من دون اللّٰہ)اور خدا کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو اپنا پروردگار قرار نہ دے۔ یہاں تک کہ جب وفدِ بنی عامر نے آپ سے کہا : ” أنت سیدنا” آپ ہمارے سردار ہیں ،تو آپ نے جواب دیا: ” السید اللّٰہ تبارک وتعالیٰ” سردار تو اللہ تبارک وتعالیٰ ہے۔ ٢ـ سرمایہ داری یہ بھی امنِ عالم کے لئے بڑا فتنہ رہی ہے، اسلام نے ہر انسان کو وسائلِ معیشت سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا، لیکن کمانے اورخرچ کرنے کے طریقوں اورشکلوںپر ایسی پابندیاں عائد کردیں جس سے دولت چند افراد کا سرمایہ بن کر نہ رہ جائے، قرآن میں ہے: ( کی لا یکون دولة بین الأغنیاء منکم) اسلام نے ذخیرہ اندوزی،سود ، قمار(جوا) وغیرہ کو ممنوع قرار دے کر وراثت، زکوٰة، عشر وغیرہ ، تقسیم دولت کی صورتوں کو لازمی قرار دیا۔ ٣ـ وطنیت:یہ بھی ہمیشہ سے ایک ایسا بت رہی ہے ، جس پر ہزار ہا انسانوںکے سروں کے چڑھاوے چڑھتے رہے، اس سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ” لا فضل لعرب علی عجم ولا لأحمر علی أسود” عربی النسل کو عجمی النسل پر اور سرخ رنگ والے کو کالے رنگ والے پر کوئی برتری حاصل نہیں۔ ٤ـ مذہبی منافرت : اسلام نے پیغام محمدی کے قبول کرنے والے کے لئے تمام پچھلے پیغمبروں اور ان کے صحیفوں پر ایمان لانا ضروری قرار دیا، اس اقرار کے بغیر کوئی شخص مسلم تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
٥ـ انتقام در انتقام: یہ چکر بھی ہمیشہ دنیا میں خون کے طوفان برپا کرتارہا، خود جزیرة العرب بعثت محمدی سے پہلے اس طوفان کی موجوں میں گھرا ہو اتھا، چراگاہوں میں ، میلوںمیں، یا شاعروں کی مجلس میں کسی بات پر جھڑپ ہوجاتی تو سیکڑوں تلواریں نیام سے باہر نکل آتی تھیں، اور پھر برسوں اورصدیوں تک ان کی برق افشانی جاری رہتی تھی، انتقام کے اس مجنونانہ جذبے میں مجرم وغیر مجرم اور حق وناحق کا کوئی فرق باقی نہ رہتا تھا، اسلام نے سب سے پہلے اس حقیقت کا اعلان کردیا کہ خدا کی مخلوق کے درمیان پیدا ہونے والے جھگڑوں کا فیصلہ خدا ہی کے مقرر کردہ قانون کے مطابق اس حکومت کے ذریعے ہونا چاہئے، جو اس قانون کے نفاذ کے لئے قائم ہوئی ہے، قرآن میں ہے : ” ن الحکم لا للّٰہ” حکومت اور فیصلہ کا حق صرف خداہی کو حاصل ہے۔(نقوش رسول نمبر، ج٣، ص:٤٦٤ـ٤٧٠، مضمون زین العابدین سجاد میرٹھی، بعنوان پیغمبراسلام کا پیغام امن وسلام) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات امن اور دیگر مساعی امن : ایک موازنہ انسان چاہے کتنا ہی براکیوں نہ ہو وہ امن وسکون کا طالب ہوتاہے، یا پھر ہر زمانے میں کچھ نہ کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو امن وامان سکون اورشانتی اور سلامتی کے خوگر ہوتے ہیں، اسی بنا پر شروع زمانے سے اللہ تعالیٰ نے بھی ہر زمانے میں اس مقصد کی تکمیل کے لئے انبیاء کو بھیجا، چوںکہ حضورۖ سے پہلے جو انبیاء آئے، ان کا ایک محدود دائرہ مکان وزمان کے اعتبار سے ہوتا اور ان کی تعلیمات اس دائرے سے خارج نہیں ہوتی، اس لئے مختلف زمانوں میں انسانوں میں سے خود بھی بعض مصلح بن کر ابھرے جیسے حضرت عیسیٰ کے دور نبوت کے بعد سکھ مذہب، جین مذہب ، بدھ مذہب وغیرہ کا وجود ان میںسے ہر ایک کے بانی کا مقصد اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں امن وامان کو قائم کرناہی تھا، لیکن بعد کو ان کے متبعین نے ان تعلیمات کو اپنایا نہیں اور انھیں باتوں میں وہ گرفتار ہوگئے جس سے ان کو روکا گیا تھا، اسی طرح حضورۖ کے زمانے میں دو نبیوں کی امتیںموجود تھیں ایک حضرت موسیٰ کے ماننے والے یہود تو دوسرے حضرت عیسیٰ کو ماننے والے نصاریٰ۔ لیکن یہ بھی اپنی تعلیمات کو کھو چکے تھے، بجائے امن وامان کے فساد وتخریب کے داعی بن گئے تھے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں سے کچھ مذاہب کا وجود بر وقت اور بر محل بھی ہوا لیکن اس کو دوام حاصل نہ ہوسکا، اسی طرح حضورۖ کی آمد کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو صحیح نہ سمجھنے کی بنا پر مختلف زمانے میںامن وسکون کے حصول کے لئے مختلف کوششیںکی گئیں، کبھی جمہوریت کو ہر مرض کی دوا سمجھا گیا، تو کبھی اشتراکیت کا نعرہ لگایاگیا، لیکن ان میں سے کسی کو دوام نہ حاصل ہوسکا، یہودیوں نے اپنے مذہب میں اتنی سختیاں کرلیں کہ جو انسان برداشت نہ کرسکے، عیسائیت میں امن وامان اور عفو ودر گذر پر اتنا زور دیا گیا کہ انصاف وعدل کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا، جین مت وبدھ مت ودیگر مذاہب میں ایک تو مکمل تعلیمات تھی ہی نہیں، اگر تھی بھی تو انسانی فطرت کے مطابق نہ تھی، کیوںکہ وہ ایک انسان کے تجربات کا نتیجہ تھا، جس میں ہر لمحہ غلطی کا امکان ہے، جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے تو بقول علامہ اقبال: ”شہنشاہیت کے چہرے پر جمہوریت کی نقاب ڈال دی گئی، ایک مہذب اور ہر طرح سے مکمل دستوری ڈھانچہ ایسا تیار ہوا جس میں مہذب انسان کو فریب او ر دھوکہ بازی کے سوا کچھ نہ ملا، ایک دو یا اس سے زیادہ سر برآورہ طبقات نے تمام طبقات کے حقوق چھین کر اپنی تجوریاں بھرلیں، پہلے نوابوں اور راجاؤں کا دور دورہ تھا، جمہوری نظام میں وزرائے عالی مقام نے وہ پوزیشن سنبھال لی”۔
Science
اشتراکیت کا بھرم بھی کھل گیا، ایک خونی ڈرامہ جو ستر سال تک جمہور کے نام پرجمہور کو جانوروں کی سطح پر رکھنے کا چل رہا تھا، وہ ختم ہوا، اور یہ بھی معلوم ہو کہ سویت یونین کی اشتراکیت اور نازی اشتراکیت کے درمیان سخت جنگ تھی۔ اس سائنس وٹکنالوجی کے زمانے میں ایجادات کو امن کا ذریعہ سمجھا گیا، اور امن کی بحالی کے لئے اس کا استعمال کیا گیا، لیکن ہم اپنے گردوپیش کے حالات سے بے خبر نہیں ہیں، ہمیں بھی وہ ایجادات نظر آتے ہیں، مگر اس کے ساتھ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ان ایجادات نے انسان کو اتنا فائدہ نہیں پہنچایا ہے جس قدر ان سے نقصانات ہوئے ہیں، فیکس انٹرنیٹ وٹی وی سے صرف خبریں اور کتابیں ہی نہیں بلکہ ساتھ ساتھ رذائل کا ایک سیلاب بھی گھرگھر داخل ہوگیاہے، ہر ملازم پیشہ مقروض ہے، سود کی وبا اس قدر عام ہے کہ کوئی شخص چائے کی ایک پیالی بھی پیتا ہے تو اس میں سود کا تخم موجود ہے۔ اسلام نے زندگی کا پیغام زندگی کے ہر میدان میںدیا ہے، اس کا نظام عقوبت بھی عدل پر قائم ہے، قتل کا بدلہ قتل عادلانہ نظام ہے، کیوں کہ اسی سے قاتلوں کی ہمت شکنی ہوتی ہے، اور دوسروںکو عبرت ہوتی ہے، اس کے برخلاف رومن قانون پر چلنے والی عدالتوں میں ہر جرم کی پرورش ہوتی ہے، کیوں کہ قاتل کو معلوم ہے کہ ضروری نہیں کہ اس کو سزا ملے، سفارش ، رشوت اور وکلاء کی مہارت سے ہزاروں قاتل بچ گئے اور سینکڑوں بے گناہ مارے گئے، چور کی سزا اسلام نے جو مقرر کی ہے اس پر ساری دنیا میں واویلا ہے، اسلامی قانون کو جنگل کا قانون، بے رحمی اور شقاوت کا عنوان دیا جاتاہے۔ طلاق کے مسئلہ کو لیجیے یورپ اور افریقہ میں توایک عورت کی حیثیت اس گندے اور میلے تولیہ کی ہے جو کسی تھرڈ کلاس کی ریسٹورنٹ میں واش بیسن کے ساتھ لٹکادیاجاتاہے ہے، ہر کھانے والا اپنے ہاتھ پونچھتا ہے، اسی طرح سفید چمڑی والے یوروپین او ر سیاہ چمڑے والے افریقین جب چاہتے ہیں ذراسی بات پر طلاق دے کر کورٹ میںرجسٹری کرالیتے ہیں۔ اسلام جو حقیقت پسند دین ہے اور انسان کے خالق کا بتایاہوا دین ہے وہ اپنی مخلوق کی نفسیاتی کشائش سے واقف ہے اور انسانی زندگی کی اونچ نیچ کو جانتا ہے اس نے طلاق وخلع کو ایک خاص قانون کے اندر کنٹرول میں رکھاہے۔ Syed alأnam, message, peace, peace, God, Mohammad Hamad creamyضرورت اس بات کی ہے کہ حضورۖ کے امن کی تعلیمات کو عام کیاجائے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے، کہ اس میں دنیا وآخرت کی فلاح وکامیابی مضمر ہے۔
تحریر: محمد حماد کریمی Mob:+91-9889943219 E-mail:hammadkarimi93@gmail.com